یہاں امپورٹڈ مال چلتا ہے۔ جیسا بھی ہو، فارن کا درکار ہے۔ اسی لئے تو کراچی اور فیصل آباد کی ملوں کو ٹھپے کوریا اور جاپان کے لگانے پڑتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو سعودی علماء کا جنہوں نے فتویٰ دیا ہے کہ جہاد کے نام نہاد علمبردار‘ مسلم دنیا کے نوجوانوں کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ورنہ یہی بات مقامی علماء کہتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا۔ مکہ مکرمہ کے مفتی اعظم اور ممتاز عالم دین الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا ہے کہ دوسروں کے بچوں کو ورغلا کر جہاد پر لے جانے والے اپنے بیٹوں کو میدان جہاد میں جانے سے منع کرتے ہیں۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مفتی اعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نام نہاد جہادیوں کے نزدیک جہاد صرف دوسرے لوگوں کے بچوں پر فرض ہے۔ ان حضرات کی اپنی اولاد اس سے مستثنیٰ ہے۔ عرب میڈیا بتاتا ہے کہ حال ہی میں سعودی عرب کے ایک جہادی لیڈر نے سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں سے شام میں جہاد کے لئے جانے کی اپیل کی جبکہ خود موصوف یورپ میں سالانہ تعطیلات گزار کر آئے ہیں۔ ایک دوسرے رہنما نے نوجوانوں کو عراق میں جہاد کے لئے پکارا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ان کا اپنا لخت جگر بھی عراق چلا گیا۔ اب ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے یہاں تک کہ انہوں نے اپنی عزت کو بالائے طاق رکھا اور حکومت سے اپیل کر دی کہ کسی طرح ان کے صاحبزادے کو واپس بلائے۔ ایک اور عرب رہنما نے شام میں جہاد کو فرض قرار دیا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ ان کے اپنے فرزند ارجمند اس کار خیر کے لئے کیوں نہیں جاتے۔ جواب دیا کہ وہ فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں اور یہ بھی جہاد ہی ہے! ایک اور عالم دین نے اخوان المسلمون کے حامیوں سے درخواست کی وہ مصر میں ڈٹے رہیں۔ ان کے اپنے بچے امریکہ میں ہیں جبکہ موصوف خود ملک ملک گھوم کر امریکہ کے خلاف لیکچر دیتے ہیں۔ سعودی مفتی اعظم نے یہ جو آئینہ دکھایا ہے تو اس میں کئی چہرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ نام میں کیا دھرا ہے لیکن اس کے باوجود ہر پڑھا لکھا پاکستانی ان جہادی حضرات سے بخوبی آگاہ ہے جو کبھی پردئہ سیمیں پر دانش کے جواہر پارے بکھیرتے ہیں اور کبھی اخبارات میں مضامین کے ذریعے عوام کو جہاد پر ابھارتے ہیں لیکن یہ کارخیر وہ اپنے گھروں سے نہیں شروع کرتے۔ ایک مذہبی جمع سیاسی پارٹی کے رہنما جو اب اس دنیا میں نہیں، تادمِ آخر اخبارات میں مضامین لکھ لکھ کر اپنے راز خود کھولتے رہے کہ کس طرح غیر ملکی جہادی ان کے ہاں آتے تھے اور کس کس طرح انہوں نے پاکستانی نوجوانوں کو کثیر تعداد میں اس بھٹی میں جھونکا ۔ جہاں تک ان کی اپنی اولاد کا تعلق تھا تو صاحبزادے کا روبار کرتے رہے اور دختر نیک اختر کو ایک عظیم الشان قومی ادارے کے لئے نامزد کر دیا۔ جوتیوں میں دال بٹتی سُنی تھی قوم نے تو پھٹی آنکھوں سے دیکھ بھی لی! کچھ محترم حضرات جن کا تعلق عساکر سے رہا ہے۔ عوام کو ابھارتے ہیں لیکن اپنے تجربے سے میدان جہاد کو سرفراز نہیں کرتے… شہادت ہے مطلوب و مقصود ِمومن، لیکن یہ مومن دوسروں کے لخت جگر ہوں ۔ تو خوب ہے! سعودی عرب ہی کے ایک اور عالم دین ڈاکٹر احمد الغامدی نے (واضح ہو کہ یہ جاوید غامدی نہیں ہیں نہ ہی ان کا جاوید غامدی سے کوئی تعلق ہے) کہا ہے کہ مفتی اعظم نے جہادی ملائوں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ یہ لوگ دوسروں کو مخاطب کرتے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ علامہ ڈاکٹر احمد الغامدی نے ایک اور شک کا بھی ازالہ کر دیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہاد اولی الامر حکمران اور ریاست کی اجازت ہی سے جائز ہے۔ جو لوگ اپنی مرضی سے جہاد پر جاتے ہیں حکومت کو ان کا کڑا احتساب کرنا چاہئے کیونکہ وہ جہاد نہیں کر رہے ہیں بلکہ معاشرے میں فساد اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔ دنیا تو ہمارے تضاد کا مذاق اڑا ہی رہی تھی اب عالم اسلامی کے روحانی شرعی اور فقہی مرکز نے بھی ہمارے رویے کو خلافِ اسلام قرار دے دیا ہے۔ ایک طرف پاکستانی ریاست افغانستان میں لڑنے والی اتحادی فوجوں کا ساتھ دے رہی تھی، اس کا امریکہ کے ساتھ معاہدہ تھا۔ دوسری طرف کچھ پاکستانی، ریاست کی اجازت کے بغیر، سرحدیں عبور کر کے جہاد پر جا رہے تھے۔ یہ پاکستانی شہری تھے۔ ان کے پاس ریاست کے جاری کردہ شناختی کارڈ اور دوسری دستاویزات تھیں۔ ان کے اہل و عیال ریاست میں رہ رہے تھے ۔ جہاد پر بلانے اور لے جانے والے کئی گروہ تھے۔ ہر گروہ اپنی صوابدید کے مطابق کام کر رہا تھا۔ صرف مولانا صوفی محمد ہی کو دیکھ لیجئے۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کیا۔ ان میں سے اکثر کے پاس ازکار رفتہ بندوقیں تھیں۔ کچھ کے پاس محض لاٹھیاں تھیں۔ مولانا نے سرحد عبور کی اور ان سب بندگان خدا کو جنگ کے ایندھن میں جھونک دیا۔ کہاں کے اولی الامر حکمران اور کون سی ریاست! ان میں سے اکثر بموں ٹینکوں اور گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ مولانا خود شہادت سے سرفراز نہ ہوئے اور واپس آ کر پاکستانی جیل کی حفاظتی دیواروں کے پیچھے فروکش ہو گئے۔ قرن اوّل میں صدیقی، فاروقی اور عثمانی عہد میں اور اس کے بعد اموی دور میں جب جہاد ہوتا رہا۔ ملک فتح ہوتے رہے اور اسلامی دنیا میں توسیع ہوتی رہی تو ایک مثال بھی کسی نجی فوج کی نہیں ملتی۔ جہاد کا ہر محاذ ریاست کھولتی جو کچھ ہوتا حاکم وقت کی اجازت سے ہوتا۔ ایسا نہیں ہوا اور اس کی ایک نظر بھی تاریخ میں موجود نہیں کہ کسی گروہ نے، ریاست کی مرضی کے بغیر، خلیفہ یا حاکم وقت کی اجازت کے بغیر۔ خود کوئی جہادی محاذ کھول دیا ہو یہاں تک کہ صوبوں کے حکمران بھی اس ضمن میں بے اختیار تھے۔ جزئیات اور فروعات تک کا اِذن مرکزی حکومت سے لینا ہوتا تھا! سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستانی ریاست کا موقف واضح تھا۔ اس وقت کی حکومت نے خود اعلانِ جہاد کیا۔ وہ درست تھا یا غلط، اس سے بحث نہیں۔ کچھ لوگ اسے امریکی جہاد قرار دیتے ہیں ۔ یہ پہلو بھی یہاں غیر متعلق ہے۔ جو کچھ بھی تھا، پاکستانی حکومت کا ایک واضح موقف تھا۔ پاکستانی ریاست افغان جنگجوئوں کو بھی امداد بہم پہنچا رہی تھی اور اپنے نوجوانوں کو بھی میدان جنگ میں بھیج رہی تھی۔ لیکن امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو موقف اور تھا۔ یہ موقف غلط تھا یا صحیح۔ یہ ایک متنازعہ ایشو ہے۔ لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستانی ریاست افغانستان میں امریکی یا اتحادی فوجوں کے خلاف نہیں لڑ رہی تھی۔ پاکستانی حکومت، مسلح افواج ،وزارت خارجہ ،کسی ادارے نے بھی اعلانِ جنگ نہیں کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دین کی رہنمائی درکار ہے۔ کسی کی ذاتی رائے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط نہیں قرار دے سکتی۔ اس ضمن میں سعودی علماء نے واضح کیا ہے کہ … ’’جہاد اولی الامر حکمران اور ریاست کی اجازت ہی سے جائز ہے اور جو لوگ اپنی مرضی سے جہاد پر جاتے ہیں حکومت کو ان کا کڑا احتساب کرنا چاہئے کیوں کہ وہ جہاد نہیں کر رہے بلکہ معاشرے میں فساد اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔