انگریز کے اصل ذہنی غلام

فاٹا کے قبائلی لوگ حقوق نہ ملنے کی وجہ سے خود کش بمبار بن رہے ہیں۔ فاٹا کے قبائلی علاقوں کو 6برسوں سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہم فاٹا کے عوام کو ان کا حق نہیں دے رہے اسی لیے وہاں آگ لگی ہوئی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ فاٹا میں کوئی یونیورسٹی تک قائم نہیں کی گئی۔
یہ نہ سمجھیے کہ یہ الفاظ کسی وزیر یا حکومتی شخصیت کے ہیں۔ اتنی گہرائی اگر وزیروں، سیاست دانوں یا نام نہاد عوامی لیڈروں کی سوچ میں ہوتی تو رونا ہی کس بات کا تھا؟ یہ بنیادی اہمیت کی حامل تلخ باتیں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب دوست محمد خان نے دو دن قبل ایک تقریب میں کہیں۔ ''اطمینان بخش‘‘ امر یہ ہے کہ ان حقائق کو عمران خان سے لے کر نواز شریف تک، مولانا فضل الرحمن سے لے کر الطاف حسین تک، اسفند یار سے لے کر آصف زرداری تک کوئی بھی اہمیت نہیں دے گا۔ ایسے حقائق کی تفہیم کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ یوں بھی فاٹا میں کس کو دلچسپی ہے کہ اس کی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ ہمارے سیاست دانوں نے تو مطالعہ کے لیے ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، اردگرد نظر دوڑائیے۔ سیاسی جماعتوں میں ''بابو‘‘ قسم کے لوگ آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں۔
کئی خونریز لڑائیوں کے بعد جب ہندوستان کی انگریزی سرکار اس حتمی نتیجے پر پہنچی کہ افغانستان پر قبضہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن قبضہ برقرار رکھنا نا ممکن ہے تو انہوں نے روس کی جنوب کی طرف پیش قدمی روکنے کے لیے افغانستان کو درمیان میں بفر (حائلی) ریاست قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ زارِ روس اور برطانوی ہند کے درمیان مک مکا یہ ہوا کہ روسی ترمذ کے پاس بہتے آمو دریا(جیحوں) کو پار نہیں کریں گے اور انگریز افغانستان پر قبضہ نہیں کریں گے۔ تاہم اپنے آپ کو زیادہ محفوظ رکھنے کے لیے سرکار انگلشیہ نے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں کو عملی طور پر ہندوستان میں ضم نہ کیا۔ ان قبائل کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور ان کے سرداروں، خانوں اور ملکوں کو بڑی بڑی نقد رقوم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ سردار، خان اور مَلک ان قبائلی علاقوں میں جو چاہیں کریں، بس روسیوں کو افغان سرحد پار کر کے ہندوستان نہ آنے دیں۔ ان علاقوں میں ڈپٹی کمشنر یا اس طرح کے انتظامی حاکم بھی مقرر نہ کیے گئے۔ '' پولیٹیکل ایجنٹ‘‘ کے نام سے ایک انگریز افسر موجود رہتا تھا جو اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ قبائلی سردار افغانستان سے ساز باز نہ کریں۔ بھاری نقد رقوم بھی وہی تقسیم کرتا تھا۔ رہا یہ مسئلہ کہ ان علاقوں کے اندر عوام کس طرح رہ رہے تھے، اس سے انگریزی سرکارکو کوئی سرو کار نہ تھا، چنانچہ آپ غور کیجئے، انگریزوں نے ایڈورڈ کالج پشاور اور گورنمنٹ کالج لاہور جیسے ادارے قائم کیے، سڑکوں کا ہندوستان بھر میں جال بچھایا۔ نہریں نکالیں، ریل کی پٹریاں بچھائیں لیکن قبائلی علاقوں میں ایسا کوئی ترقیاتی کام نہ کیا۔ ان علاقوں کو انگریز سرکار صرف دو مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اول۔ یہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان ایک پٹی کا کام دیں۔ دوم۔ اگر کبھی روس یہاں تک آ پہنچے تو یہ انگریزوں کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کریں۔
ستم ظریقی یہ ہے کہ انگریز سرکار کو گئے ہوئے چھیاسٹھ برس ہو گئے ہیں لیکن یہ علاقے اب بھی اُسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان میں ہیں بھی اور نہیں بھی۔ یہ اب بھی '' محفوظ‘‘ پٹی کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ چھیاسٹھ برسوں میں یہاں کوئی کارخانہ لگا، نہ کالج بنا، نہ یونیورسٹی قائم ہوئی، انگریزوں کے بجائے اب دیسی افسر پولیٹیکل ایجنٹ بننے لگے۔ فرق یہ ہے کہ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ پیسہ نہیں بناتے تھے۔ دیسی پولیٹیکل ایجنٹ (اکثروبیشتر) آتے ہی اس مقصد کے لیے ہیں۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ ایک سیاستدان نے اپنے بیٹے کو فوج سے سول سروس میں منتقل کرایا ، پھر اسے پولیٹیکل ایجنٹ لگایا گیا کیوں کہ اُس زمانے میں (کئی سال پہلے )وہاں سے تین لاکھ روزانہ عمارتی لکڑی چرانے والے مافیا سے وصول ہوتے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے!
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو امریکہ میں پڑھانے کے بعد بزنس میں کامیاب کرنے والے دانشور اور رہنما پٹھانوں کی بہادری کے نغمے الاپتے ہیں لیکن آپ ان کی مقدس زبانوں سے کبھی یہ بات نہیں سنیں گے کہ پٹھانوں کا کالجوں، یونیورسٹیوں اور صنعتوں پر بھی حق ہے۔ یہ بظاہر پختونوں کے خیر خواہ دراصل انگریز کی ذہنی اولاد ہیں اور انگریز کی روایت برقرار رکھ کر پختونوں کو تعلیم اور ترقی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، یہ اپنے بچوں کو آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ دیتے ہیں لیکن پختون بچوں کے ہاتھوں میں غلیل اور پختون نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر مذہبی ہیں لیکن اصل میں یہ انگریزوں کے ذہنی غلام ہیں کیونکہ یہ قبائلی علاقوں میں انگریزوں کی پالیسیاں جوں کی توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ پختونوں کے اصل دشمن ہیں۔ یہ انہیں تعلیم اور صنعت سے، زراعت کے جدید طریقوں سے اور آئی ٹی سے محروم رکھنا چاہتے ہیں!
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے جہاں جہاں چھائونیاں قائم کیں، وہاں تعلیمی ادارے قائم کیے اور صنعتیں لگائیں۔ اٹک کے علاقے کو دیکھ لیجیے۔ انگریز پالیسی سازوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس علاقے میں کارخانے لگائے جائیں گے نہ نہریں نکالی جائیں گی تا کہ نوجوان فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور ہو جائیں اور جنگ کا ایندھن یہاں سے مہیا ہوتا رہے۔ یہ پاکستانی افواج کا کارنامہ ہے کہ اس علاقے میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا۔ حویلیاں، واہ، سنجوال اور کامرہ میں درجنوں کارخانے لگائے گئے۔ لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر آیا۔ فوج نے بہترین تعلیمی ادارے قائم کیے۔ واہ میں شرح خواندگی ملک کی اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مسلح افواج کی محنت سے اس علاقے میں اقتصادی، صنعتی اور تعلیمی انقلاب آیا تو غلط نہ ہو گا۔ ٹیکسلا میں دفاعی ضروریات کے لیے کارخانہ لگا تو جنرل اسرار گھمن نے اپنے عہدِ اقتدار میں اس قدر تعلیمی ادارے قائم کیے کہ ایک پورا '' تعلیمی شہر‘‘ آباد ہو گیا۔ مسلح افواج نے جہاں جہاں تعلیمی ادارے قائم کیے، ان سے فائدہ اٹھانے والوں میں اکثریت فوجیوں کی نہیں بلکہ سویلین کے بچوں کی رہی ہے۔ افواج کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میں سیاست ہے نہ بد انتظامی۔ مڈل کلاس ہی نہیں، اپر کلاس بھی اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانے کو ترجیح دیتی ہے۔ 
آج جب ہماری مسلح افواج کا قبائلی علاقوں میں جانے کا ذکر ہوتا ہے تو کچھ لوگوں کا، جو انگریزوں کے ذہنی غلام ہیں، رنگ فق ہو جاتا ہے۔ ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، کچھ کو تو دردِ قولنج کا عارضہ لا حق ہونے لگتا ہے۔ کچھ صدمے کی شدت سے باقاعدہ صاحبِ فراش ہو کر مسہل لینے لگتے ہیں۔ پاکستانی کی افواج کو پاکستان کے کسی حصے میں اپنا مستقر بنانے کے لیے امریکہ کی اجازت لینے کی ضرورت ہے نہ بھارت کی اور نہ ہی انگریزوں کی ذہنی اولاد کی، منظوری درکار ہے۔ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ جنرل اسرار گھمن جیسے بے لوث اور بے غرض افراد کو ڈھونڈے، انہیں قبائلی علاقوں میں بھیجے اور وسائل ان کی دسترس میں رکھے تاکہ یہ لوگ وزیرستان ، با جوڑ، خیبر، مہمند اور دوسرے تمام محرومِ التفات قبائلی علاقوں میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جال بچھا دیں۔ 
کاش! ہماری زندگیوں میں وہ دن بھی آئے کہ یہ علاقے، جو ہمارے وطن کا حصہ ہی نہیں، جان ہیں، یونیورسٹیوں، کارخانوں، جدید شاپنگ پلازوں اور آئی ٹی مراکز سے بھر جائیں۔ پختوں بچے بھی تو اپنی ذہانت سے بِل گیٹس کو حیران کر سکتے ہیں اور پختون نوجوان بھی یقیناً اتنے قابل ہیں کہ پروفیسر، سائنسدان، ٹیکنو کریٹ، ڈاکٹر اور چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن سکیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں