امریکی میڈیا ایک معمہ ہے۔ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ یا تو بدنیت ہے یا جاہل! جہالت کو ''معصومیت‘‘ بھی کہتے ہیں۔ امریکی اس قدر ''معصوم‘‘ ہیں کہ انہیں حیرت ہوتی ہے پوری دنیا کے افتادگان ان کے مخالف کیوں ہیں؟ نفرت کیوں کرتے ہیں؟ وہ جو کہتے ہیں کہ بدراہ عورت کا علم محلے میں ہر کس و ناکس کو ہوتا ہے سوائے اس کے بدقسمت میاں کے۔ تو پوری دنیا کو معلوم ہے کہ امریکی یورپ سمیت ہر جگہ نفرت کا ہدف کیوں ہیں سوائے خود امریکیوں کے۔
تازہ ترین فکر امریکی پریس کو بھارت کے ماحول کے حوالے سے لاحق ہے۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سانس کی بیماریوں سے مرنے والوں کی شرح بھارت میں سب ملکوں سے زیادہ ہے۔ پندرہ لاکھ اموات سالانہ! 2014ء کی بین الاقوامی صحت کے ادارے کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا کے بیس آلودہ ترین شہروں میں سے 13 شہر بھارت میں واقع ہیں۔ بھارت مضر ترین ایندھن جلاتا ہے۔ جیسے کوئلہ‘ ڈیزل اور اُپلے! یہ وہ ذرائع ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ زیادہ خارج کرتے ہیں۔ اس سے کرۂ ارض کی فضا گرم ہوتی ہے۔ یوں‘ امریکیوں کے خیال میں مسئلہ صرف بھارت کا نہیں‘ پوری دنیا اس سے متاثر ہوتی ہے۔ آنے والے دسمبر میں پیرس میں عالمی کانفرنس کا موضوع عالمی موسمی تبدیلیاں ہوگا۔ تین ماہ قبل امریکہ اور چین نے معاہدہ کیا ہے کہ نقصان دہ گیس خارج کرنے والے ایندھن کو کم سے کم استعمال کیا جائے گا۔ امریکی میڈیا کا خیال ہے کہ بھارت کو بھی اسی قسم کا وعدہ کرنا چاہیے۔ مگر دوسری طرف حال یہ ہے کہ کوئلے کا استعمال بھارت میں 73 فیصد بڑھ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کو یہ سستا پڑتا ہے۔ بھارت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ماحولیات کی نسبت اس کی توجہ معاشی ترقی پر زیادہ ہے۔ نیویارک کا سابق میئر مائیکل بلوم برگ اب اقوامِ متحدہ کی طرف سے ماحولیات کے میدان میں سفارت کاری کر رہا ہے۔ وہ نئی دہلی گیا تو اس نے بھارتیوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر ماحولیات پر توجہ نہیں دو گے تو اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچے گا۔
تعجب ہے کہ امریکی میڈیا کو یہ سب کچھ تو نظر آ رہا ہے مگر جو کچھ بھارت دفاع کے میدان میں کر رہا ہے‘ اس سے وہ آنکھیں میچے ہوئے ہے۔ ایک بدمست ہاتھی کی طرح بھارت دفاعی اخراجات میں روزافزوں اضافہ کر رہا ہے۔ امریکی میڈیا کو یہ تو فکر ہے کہ بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ سانس کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے لیکن وہ بھارت سے یہ نہیں پوچھتا کہ ترقی پذیر دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خانہ کس کے لیے تیار کیا جا رہا ہے؟ بھارت کے وزیر دفاع منوہر پری کار نے خود بتایا ہے کہ بھارتی آرمی‘ فضائیہ اور بحریہ نے 83858 کروڑ روپے کے اسلحہ کا آرڈر دیا ہے۔ 2011ء سے لے کر اب تک خود بھارتی دفاع کے سیکٹر نے 69 کروڑ روپے کا اسلحہ برآمد کیا ہے۔ 2011-12ء اور 2013-14ء کے دوران بھارتی فضائیہ نے غیر ملکی کمپنیوں سے پچپن ہزار کروڑ روپے کا اسلحہ خریدنے کے سودے کیے۔ بحریہ نے 25 ہزار کروڑ روپے کے اور آرمی نے تیس ہزار کروڑ روپے کے۔ اب جب بھارتی سرکار نے دفاع کا سیکٹر نجی شعبے کے لیے کھول دیا ہے تو تقریباً 25 کروڑ روپے کی بیرونی سرمایہ کاری اس کے علاوہ موصول ہوئی ہے۔ گزشتہ چار سال کے دوران بھارت نے ایسی اشیا جو ''ملٹری سٹور‘‘ میں شمار ہوتی ہیں‘ جن ملکوں کو برآمد کی ہیں ان میں الجزائر‘ نائیجیریا‘ بوسنیا‘ سری لنکا‘ پیراگوئے‘ جاپان‘ افغانستان‘ سپین‘ نیپال‘ بلجیم‘ ملائیشیا اور رومانیہ کے نام آتے ہیں۔ برآمد کرنے کے لیے تازہ ترین این او سی بنگلہ دیش‘ گھانا‘ سعودی عرب‘ مصر‘ تیونس‘ قزاقستان‘ تاجکستان‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ یہاں تک کہ جرمنی اور سویڈن جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے لیے بھی جاری کیے گئے ہیں۔ یوں دفاعی برآمدات سے 2011-12ء کے دوران 46 کروڑ روپے کمائے گئے۔
فرانس کی مدد سے بھارت اس وقت ممبئی میں چھ جدید ترین آبدوزیں بھی تیار کر رہا ہے۔ تازہ ترین بجٹ میں چار ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی پہلے کی نسبت گیارہ فیصد زیادہ! یوں بھارت کا دفاع کا بجٹ‘ بھارت کے مجموعی اخراجات کا 14 فیصد ہو گیا ہے۔
امریکی میڈیا کو بھارت سے یہ سوال کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر چین کے لیے کیا جا رہا ہے تو چین کا ہدف اقتصادی ترقی اور برآمدات ہیں۔ چین نے بھارت کے حوالے سے کبھی جارحانہ رویہ نہیں اپنایا۔ بھارتی سرحد پر چین کبھی خطرے کا باعث نہیں بنا۔ اگر چین کی اقتصادی ترقی کا جواب بھارت اسلحہ خانہ میں اضافہ کر کے دے رہا ہے تو اسے دماغی خرابی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا!
تو کیا پھر یہ ساری جنگی تیاری پاکستان کے لیے ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب یقینا اثبات میں ہے۔ یہاں آ کر امریکی میڈیا چُپ سادھ لیتا ہے۔ اسے پوچھنا چاہیے کہ کئی گنا چھوٹے ملک پاکستان سے بھارت کو کیا خطرہ ہے؟ پاکستان اپنے اندرونی مسائل میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور نہ بھی الجھا ہوا ہو تو پاکستان نے جارحیت کا ارتکاب کبھی نہیں کیا۔
بھارت میں کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ کلکتہ‘ ممبئی‘ مدراس اور بنگلور کے فٹ پاتھ لاکھوں افراد کے لیے بستر بنے ہوئے ہیں۔ ہزاروں لوگ ایسی جھونپڑیوں میں زندگی گزار رہے ہیں جن کا آج کے زمانے میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ آخر بھارت اسلحہ جمع کرنے کے بجائے آبادی کے ایک کثیر حصے کو اس غیر انسانی معیارِ زندگی سے نجات کیوں نہیں دلاتا؟
بھارت میں ذات پات کی قید ایک اور لعنت ہے جس میں کروڑوں دلت گرفتار ہیں۔ آج بھی اچھوت اور شودر جانوروں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بنگلور‘ حیدرآباد اور چنائی میں آئی ٹی کی ترقی کا شور برپا ہے۔ اس ظاہری شورو غوغا میں کروڑوں اچھوتوں اور شودروں کی چیخیں دب کر رہ گئی ہیں۔ بھارت اپنے معاشرے کو اس پاتال سے نکالنے کے لیے کیوں کچھ نہیں کرتا؟
تاہم بھارت کی دفاع کے شعبے میں ترقی پاکستان کے لیے ایک اور حوالے سے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ بھارت دفاعی مصنوعات جن ملکوں کو برآمد کر رہا ہے‘ ان کے نام لوک سبھا میں خود بھارتی وزیر دفاع نے پیش کیے ہیں جو اس تحریر میں اوپر درج کیے گئے ہیں۔ ان میں الجزائر‘ بوسنیا‘ ملائیشیا‘ سعودی عرب سمیت کئی مسلمان ملکوں کے نام شامل ہیں۔ ہمارے دفاعی پیداوار کے شعبے کو تحقیق کرنی چاہیے کہ آخر وہ کون سی مصنوعات ہیں جو یہ ''برادر‘‘ ممالک بھارت سے خرید رہے ہیں۔ کیا پاکستان یہ مصنوعات نہیں بنا سکتا اور بنا سکتا ہے تو کیا برآمد نہیں کر سکتا؟
یہاں سفارت خانوں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے سفارت خانوں میں جوہری فرق یہ ہے کہ بھارت سیاسی اور شخصی بنیادوں پر بیرون ملک تعیناتیاں نہیں کرتا۔ پاکستان نے حال ہی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) میں جن صاحب کو سفیر مقرر کیا ہے اس پر پاکستان بھر میں احتجاج کیا گیا مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہ صاحب ایک صوبائی حکمران کے منظورِ نظر تھے۔ ماڈل ٹائون کی ہلاکتوں کے ضمن میں ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں! اسی طرح اب ایک غیر پیشہ ورانہ اہلکار کو کینیڈا جیسے ملک میں محض ذاتی بنیادوں پر سفیر مقرر کیا جا رہا ہے۔ تجارت کی ترقی کے لیے ''کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ سروس الگ موجود ہے مگر تجارتی قونصلر سفارت خانوں میں دوسرے گروپوں سے مقرر کیے جاتے ہیں۔ اگر گزشتہ چالیس پچاس سال کی فہرست بنائی جائے تو ایسے مناصب پر زیادہ تر اُن افسروں کی تعیناتیاں سامنے آئیں گی جو ایئرپورٹوں پر اعلیٰ شخصیات کا استقبال کرتے رہے ہیں! اس المناک اور قابلِ مذمت صورت حال میں‘ جب پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی اہمیت صفر ہو‘ برآمدات کیسے بڑھیں گی؟ اور پھر دفاعی برآمدات کے لیے تو کئی گنا زیادہ میرٹ اور کئی گنا زیادہ محنت درکار ہے!