درست کہتے ہیں تنقید کرنے والے! تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے تو پھر خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات اس انداز میں ہوتے کہ سوئٹزرلینڈ‘ کینیڈا اور فرانس والا نظم و ضبط دیکھنے میں آتا۔ عوام خاموشی سے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہتے۔ کوئی کسی سے بات بھی نہ کر رہا ہوتا۔ سب کچھ ایک معمول کی کارروائی کی طرح لگتا۔ جھگڑا نہ ہنگامہ آرائی‘ فائرنگ نہ نعرہ بازی‘ بھنگڑے نہ ڈانس! اگر ایسا نہیں ہوا تو سارا قصور تحریک انصاف کا ہے۔ کہاں گئی عمران خان کی طلسماتی شخصیت اور وہ دعوے اور وہ تقریریں؟
وہ دن کب طلوع ہوگا جب تنقید کرتے وقت ہم منطق اور سچائی کو سامنے رکھیں گے۔ یہ جو ہر شے ہمیں ساری سفید یا ساری کی ساری سیاہ نظر آتی ہے تو یہ ضُعفِ بصارت کب جان چھوڑے گا۔ یہ جو ہم تعریف کرتے وقت دوسرے کو فرشتہ ثابت کرتے ہیں یا تنقید کرتے وقت شیطان بنا دیتے ہیں تو یہ وتیرہ کب ختم ہوگا؟ ہلڑ بازی اور ہنگامہ آرائی بلدیاتی انتخابات میں جہاں جہاں ہوئی‘ قابل مذمت ہے۔ پولیس کی کارکردگی ناقص تھی۔ صوبائی انتظامیہ کی مُشکیں کسنی چاہئیں‘ صوبے کے حکمرانِ اعلیٰ کے طور پر جناب پرویز خٹک کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ سب درست... مگر یہ آدھا سچ ہے۔ دوسرے آدھے پر بھی تو نظر ڈالیے! ایک شاخ کی طرف اشارہ کر کے اچھل کود کرنے والے پورے درخت کی بات کیوں نہیں کرتے؟
جناب ہارون الرشید جب تحریک انصاف کی اندرونی کمزوریوں‘ تضادات اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو دلسوزی سے کرتے ہیں۔ ایک خیرخواہ کی تنقید اس بھائی کی تنقید ہوتی ہے جو اپنے بھائی کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر حیرت اُن دوستوں پر ہے جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انتظامیہ نے امن کا وہ ماحول نہیں دیا جس میں خواتین باہر نکلتیں اور ووٹ ڈالتیں۔ گویا خواتین اس لیے باہر نہیں نکلیں کہ انہیں اغوا اور مارکٹائی کا ڈر تھا! یہ پٹھان خواتین ڈرپوک کب سے ہو گئیں؟ ان کی اکثریت تو بندوق چلانا بھی جانتی ہے! نہیں حضور! نہیں! آپ اپنی نرگسی آنکھیں پوری طرح وا کیجیے‘ گوشۂ چشم تو دبا ہوا ہے‘ شعر یاد آ گیا ؎
کہیں دھوپ میں کھُل رہا ہے دبا گوشۂ چشم تیرا
کہیں برف پہنے پہاڑوں پہ تیری ہنسی اُڑ رہی ہے
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی خیبر پختون خوا کے ایک قصبے میں ایک مولوی صاحب نے اعلان کرایا کہ کوئی خاتون خریداری کرنے اپنے مرد کے بغیر نہ نکلے! ایک سیاسی مذہبی جماعت کے رہنما نے یہ تک کہا کہ خواتین گھر کا کام کاج زیادہ ہونے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں نکلتیں۔ ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ روایات اور مقامی ثقافت کے سامنے اپنی بے بسی کو تسلیم کر لیتے!
ہم اتنے معصوم ہیں کہ بنجر علاقے میں ایک کھیت... صرف ایک کھیت... کو لہلہاتا دیکھنا چاہتے ہیں! غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل پیش ہو تو ساری سیاسی جماعتیں اس کے خلاف متحد ہو جائیں۔ ملک میں پورا عدالتی نظام متوازی چل رہا ہے۔ پنچایتیں آئے دن انصاف کا دن دیہاڑے خون کرتے ہوئے کم سن لڑکیوں کو اُن گناہوں کی سزا دے رہی ہیں جو اُن سے سرزد ہی نہیں ہوئے۔ بھائی جرم کرے تو اس کی نابالغ بہن کو ستر سال کے بوڑھے کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ کاروکاری‘ ونی اور اسوارہ کے روشن ستارے ہمارے کالے آسمان پر اس طرح چمک رہے ہیں کہ پوری دنیا دیکھ کر تُف کر رہی ہے لیکن ہمیں شرم تو کیا آئے‘ شرمندگی تک نہیں ہوتی! جبری آبرو ریزی کی سزا بھی مظلوم عورت کو ملتی ہے۔ سالہا سال بعد کوئی مختاراں مائی یا کوئی ملالہ یوسف زئی سر اٹھائے تو ہمیں اس کی پشت پر گہری سازش دکھائی دیتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور شرمناک حد تک خواندگی کا کم تناسب اس پر مستزاد ہے۔ جب یہ سب کچھ ٹھیک ہوگا‘ عوام کا اندازِ فکر بدلے گا‘ ذہنیت تبدیل ہوگی‘ مُلّا اور خان کا گٹھ جوڑ ٹوٹے گا تو عورتیں ووٹ ڈالنے باہر بھی نکلیں گی اور وراثت سمیت اپنے حقوق سے آشنا بھی ہوں گی! جس معاشرے میں صدیوں سے عورت کو یہ سکھایا گیا ہو کہ باپ کے مرنے پر اپنے حصے کی زمین خاموشی سے بھائی کے نام کردے اور پھر بھائی کو اس ''کامیابی‘‘ پر مبارک بھی دے‘ اس معاشرے میں جمعہ جمعہ چار دن پہلے آنکھ کھولنے والی تحریک انصاف کیا کرے گی اور اس کے لیڈر کی شخصیت کا طلسم سم سم کا کون سا دروازہ کھول دے گا!
رہی ہنگامہ آرائی اور فائرنگ! تو اُس علاقے میں فائرنگ کس موقع پر نہیں ہوتی؟ اور صرف خیبر پختون خوا ہی کیا‘ اب تو پنجاب میں بھی آئے دن شادیوں کے موقع پر ہوائی فائرنگ سے اموات واقع ہوتی ہیں! اس ملک میں اتنا اسلحہ ہے کہ کئی لشکروں کو مسلح کیا جا سکتا ہے۔ نظم و ضبط ہمارا کب قابلِ رشک ہوا ہے؟ پیپلز پارٹی کا جلسہ ہو یا مسلم لیگ کا یا تحریک انصاف کا‘ لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ افطار کے وقت تک کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ جلسہ گاہ سے کرسیاں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں بھی قطار بندی خال خال نظر آتی ہے۔ ریلوے سٹیشن اور ڈائیوو کے اڈوں پر دیکھیے‘ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ ٹکٹ کے پیسے پکڑے آگے کھڑے ہوئے شخص کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے ہاتھ یوں بڑھاتے ہیں جیسے مہاجر کیمپ کے لوگ راشن لینے کے لیے ہاتھ آگے کرتے ہیں!
پھر بلدیاتی انتخابات‘ قومی یا صوبائی سطح کے انتخابات کی نسبت زیادہ نازک ہوتے ہیں۔ سارا معاملہ سو فی صد مقامی سیاست کا ہوتا ہے۔ جذبات زیادہ بھڑکتے ہیں۔ عصبیتیں تیز تر ہوتی ہیں۔ وفاداریاں اور دشمنیاں افراد کے درمیان ہی نہیں‘ خاندانوں‘ قبیلوں‘ قریوں اور بستیوں کے حساب سے سامنے آتی ہیں۔ یہ سب وہ سچائیاں ہیں جن کا کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی حکومتِ وقت کو تنہا ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔
مسئلہ غالب کی طرف داری کا نہیں! اس کالم نگار کو بارہا تحریک انصاف کے ناپختہ نوجوانوں کی دشنام دہی کا تجربہ ہوا ہے۔ اس جماعت کو سیاسی پختگی اور برداشت حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ مگر لکھنے والے کا فرض ہے کہ معاملے کے سارے پہلوئوں پر نظر رکھے اور انصاف کو پسِ پشت نہ ڈالے۔
عمران خان پر لازم ہے کہ انصاف کے جو تقاضے وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے چاہتے ہیں‘ اپنے اوپر اور اپنی جماعت پر بھی بدرجۂ اتم اُن کا اطلاق کریں۔ دھاندلی ہوئی ہے تو مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ سزا دیں‘ جہاں جہاں مناسب ہو‘ دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اگر صوبائی انتظامیہ ذمہ دار ہے تو جناب پرویز خٹک سمیت کوئی بھی ناگزیر نہیں! غلطیوں کی نشاندہی مخالف بھی کریں تو وہ غلطیاں ہی رہتی ہیں۔ بات بات پر مغرب کا حوالہ دینے والے عمران خان‘ مغربی نظم و ضبط نافذ بھی تو کر کے دکھائیں ع
گر‘ یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں