ہم جواوروں کا بھی سامان اٹھائے ہوئے ہیں

قندوز پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔
قندوز کو طالبان سے چھڑا لیا گیا ہے۔
قندوز میں طالبان اور افغان فوج کے درمیان شدید لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان نے بدخشاں میں پیش قدمی کی ہے۔
بدخشاں اوربلغان کے ایک ایک ضلع پر قبضہ ہو چکا ہے۔
حکومتی افواج ایئرپورٹ کے آگے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
ساٹھ لاشیں اور پانچ سو زخمی لائے جا چکے ہیں۔
طالبان اب بھی شہر کے مختلف گھروں میں مورچہ زن ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ پچاس افغان اہلکار ہلاک کر دیئے گئے ہیں۔
ہم نے اور آپ نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ خبریں سن رہے ہیں۔ جب تک زندہ ہیں، سنتے رہیں گے۔ اگر کوئی کہے کہ افغانستان میں امن و امان ہے، حکومت مستحکم ہے، جنگجوئوں نے ہتھیار واپس کرکے کھیتی باڑی، تجارت اور پڑھائی لکھائی کا کام سنبھال لیا ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ بگتیوں کے علاقے میں سکول، کالج اور فیکٹریاں کام کر رہی ہیں اور ایک عام بگتی انتخابات میں سردار کوشکست دے کر ایم پی اے بن گیا ہے۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ مسلم لیگ میں انتخابات ہوئے تو صدیق الفاروق پارٹی کے سربراہ منتخب ہوگئے ہیں، سابق سربراہ جناب نواز شریف نے انہیں مبارکباد دی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ نئی قیادت کے تحت جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنی خدمات جاری رکھیں گے۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ زرداری خاندان کو پارٹی کے اندرونی الیکشن میں شکست ہو گئی ہے۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ مسلم لیگ، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کے ناموں سے شخصیات کی دُمیں کاٹ دی گئی ہیں۔ اور اب کوئی نون، فے یا سین نہیں ہوگا!
افغانستان میں مستقل امن کبھی بھی نہیںتھا اور کبھی بھی نہ ہوگا۔ کبھی وہ محاورے سنیے جو افغانستان میں رائج ہیں۔
''ہر پہاڑی کے پیچھے ایک بادشاہ براجمان ہے‘‘۔
''ہر شخص خان ہے‘‘۔
''افغانستان کا حکمران چیونٹیوں کے ڈھیر پر سوتا ہے‘‘۔
مغل سلطنت جب عروج پر تھی، تب بھی افغان قبائل سے ٹیکس وصول کرنے کا کوئی سوال نہ تھا۔ اورنگزیب ان قبائلی سرداروں کو چھ لاکھ روپے سالانہ ''امداد‘‘ دیتا تھا تاکہ وفادار رہیں۔ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے صرف آفریدیوں کو ملتے تھے۔ اس کے باوجود امن کی پکی ضمانت کوئی نہیںتھی۔ نادرشاہ1739 ء میں دہلی کو لوٹ کر آیا تو درئہ خیبر سے گزرنے کے لئے بھاری رقوم ادا کیں!
افغانستان، افغانستان بننے سے پہلے کیا تھا؟
تین عظیم الشان سلطنتوں کی سرحد! ایک طرف ہندوستان‘ دوسری طرف ایران، شمال میں وسط ایشیائی ازبک۔ پتھریلے پہاڑ، صحرا، ناقابل عبور گھاٹیاں، دشمن سے بچنے کیلئے بہترین پناہ گاہ!
پھرقبائلی تفریق! جو آج تک رمق بھر کم نہ ہوسکی۔ تاجک‘ ازبک اور ہزارہ کو تو چھوڑیئے، خود پختونوں کے اندر قبائلی اونچ نیچ، دنیا کا پیچیدہ ترین مسئلہ ہے۔ درانی، غلزئی، سدوزئی، بارک زئی، پھر سنی اور شیعہ۔ پھر قبیلوں کے اندر انتقام کی روایت۔ ایک انگریز مورخ لکھتا ہے کہ قبیلوں کے اندر ایک دوسرے سے انتقام لینا، اسی طرح وقت گزاری کا مشغلہ ہے جیسے افغانستان کے قصبوں (Shires) میں کائونٹی کرکٹ کھیلی جاتی ہے! احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع کے ایک امیر نے اپنے خاندان کے ساٹھ معززین کو دعوت پر بلایا، دعوت کی جگہ کے نیچے بارود کی بوریاں رکھی گئی تھیں۔ کھانے کے دوران کسی بہانے سے باہر نکلا اور سب کو بھسم کر ڈالا۔
صدیوں سے ہندوستان، افغان قبائلیوں کے لئے ''ذریعہ آمدنی‘‘ تھا۔ دریائے سندھ کے مغرب کو لُوٹ چکتے تو دریا پار کرکے شمالی ہند میں آ گھستے۔ گندم سے لے کر گھی تک اور مکان تعمیر کرنے کے سامان سے لے کر پہننے کے کپڑے تک، یہیں سے سمیٹ کر لے جاتے۔ تب بھی وہاں کچھ نہیں بنتا تھا جیسے اب وہاں کچھ نہیں بنتا۔ کیا آپ نے افغانستان کی بنی ہوئی کبھی کوئی جراب، کوئی قمیض، کوئی جوتا، کوئی کاپی‘ کبھی دیکھی یا خریدی ہے؟ وہ تو ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو اس کی تربیت یافتہ پیشہ ور فوج نے افغان قبائلیوں کے حملے روکے۔ افغان قبائل کو پہلا صدمہ اس وقت پہنچا جب احمد شاہ ابدالی کے پوتے اور تیمور شاہ کے بیٹے شاہ زمان نے 1797ء میںہندوستان پر، حسب سابق، بھرپور حملے کا حکم دیا۔ خزانے میں کیش کی کمی پوری کرنے کا آزمودہ نسخہ یہی تھا! مگر اس وقت چالاک ترین گورنر ویلزلے کا راج تھا! اس نے
سفارتی مشن ایران میں بھیج کر شاہ زمان کے عقب پر حملہ کروادیا۔ یوں شاہ زمان کو الٹے پائوں ہندوستان سے واپس جانا پڑا۔ اس زمانے کا معروف مورخ مرزا عطا محمد لکھتا ہے: ''اقتدار کا چراغ جب بھی جلتا ہے، افغان پروانوں کی طرح اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ آسودگی کا دسترخوان بچھتا ہے تو مکھیوں کی طرح آ جاتے ہیں‘‘۔ شاہ زمان ہندوستان سے خالی ہاتھ لوٹا تو اہل کابل نے اپنے بادشاہ کے لئے شہر کے دروازے ہی نہ کھولے۔ سرما کا عروج تھا! اس نے جلال آباد کے قریب ایک قلعے میں پناہ لی۔ شنواری میزبانوں نے اسے قید کرلیا۔ محافظ قتل کر دیئے۔ ایک گرم سلاخ آنکھوں میں گھونپ کر شاہ زمان کو اندھا کر دیا گیا! اس کا بھائی شاہ شجاع اقتدا میں آ گیا۔ پھر شیعہ قزلباشوں اور سنیوں میں بھرپور لڑائی ہوئی۔ پھر شنواریوں کی باری
آئی۔ جس شخص نے شاہ زمان کو اندھا کیا تھا، اس کے منہ میں بارود بھر کر اسے اڑادیا گیا۔ اس کی بیوی اور بچوں کو توپ کے دہانے پر رکھ کر دھواں بنایا گیا! انتقام ہی افغانوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ اوپر نیچے انتقام ہی انتقام ہے۔ ان کا افق بھی انتقام ہے۔ ان کی شفق بھی انتقام ہے۔ ان کا آسمان بھی انتقام سے بنا ہے۔ ان کی زمین بھی انتقام پر بچھی ہے! سدوزئی اور بارک زئی قبیلوں کی باہمی انتقامی لڑائیوںمیں ہزاروں افراد مارے گئے۔
افغانوں کی خوبیاں کیا ہیں؟ سخاوت، مہمان نوازی، شجاعت، جفاکشی، دوستوں سے ذاتی وفاداری۔ مگر افسوس! خوئے انتقام، حسد، لالچ، سخت گیری اور ضد ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔ آج صدر اشرف غنی کو نہیں معلوم ان کے ساتھیوں میں کون کون کسی اور کا ساتھی ہے اور عبداللہ عبداللہ کسی پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ تاریخ نے آج تک افغانستان میں کوئی سیاسی نظام نہیں دیکھا۔ کوئی قاعدہ قانون‘ ضابطہ ، سسٹم، کوڈ یہاں چلا نہ چل سکتا ہے! کوئی قبیلہ کسی کا ماتحت بننے پر تیار نہیں۔ ہر ایک کی اپنی شرائط ہیں۔ مالی ''لین دین‘‘ سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے مگر جو بھی اس تعاون کو وفاداری سمجھ بیٹھتا ہے، منہ کی کھاتا ہے۔ چنگیز خان کی فوجوں کو جلال الدین خوارزم شاہ نے واحد شکست غزنی کے قریب پروان کے مقام پر افغانوں کی مدد سے دی تھی۔ تیس ہزار افغانوں نے اس کا ساتھ دیا۔ مگر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک سفید گھوڑے پر جھگڑا ہوا۔ افغانوں نے جلال الدین کے ساتھیوں کے خلاف تلواریں نکال لیں۔ جلال الدین درمیان میں آ کھڑا ہوا۔ راتوںرات افغان اس کا ساتھ چھوڑ کر چل دیئے۔ ورنہ تاریخ مختلف ہوتی!
پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں پڑنے سے وہی کچھ حاصل ہوگا جو نالی میں پتھر پھینکنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ چھینٹے، صرف چھینٹے! اب تک یہی حاصل ہوا ہے۔ اسلحہ، منشیات اور لاکھوں افغان جو واپس جاتے ہیں نہ پاکستان کے وفادار ہیں! پاکستان ہمیشہ افغانوں کے لئے گندم، گھی، چینی، چاول، مویشی، اینٹیں، سریا، سیمنٹ، مشینری، ادویات، کپڑا، جوتے اور تمام اشیائے ضرورت پیدا کرتا رہے گا۔ سمگلنگ جاری رہے گی! اڑسٹھ سال سے جاری ہے! اس سمگلنگ کے نام پر پاکستان کے بیسیوں محکمے ''کمائی‘‘ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے!
قندوز پر طالبان حملہ نہ کرتے تو قندوز افغان حکومت کے اپنے دوگروہوں کی نذر ہو جاتا۔ قبائلی دشمنیاں تعلیم سے کم ہوتی ہیں۔ تعلیم کا تصور وہاں مدرسے میں داخل ہونا ہے۔ افغان عالم دنیا میں کسی اور کو خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ مقامی ثقافت وہاں مذہب کا حصہ ہے! روزگار کے وسائل عنقاہیں۔ بندوق برداری کے علاوہ کوئی مصروفیت ہی نہیں! پوست اور پھل افغانستان کی اپنی زمین افراط سے مہیا کر دیتی ہے۔ باقی سب کچھ پاکستان سے آ جاتا ہے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے نہ پڑھنے لکھنے کی! پاکستانی اہلکار اتنے فیاض ہیں کہ افغانوں کو افغانستان میںبیٹھے بیٹھے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ مل جاتے ہیں! چند سال پہلے کی ایک خبر نہیں بھولتی۔ خوست میںبیٹھے افغان پاکستان آئے بغیر پاکستانی دستاویزات پر حج کا فریضہ سرانجام دے آئے!
آج بھی واحد حل سرحدی استحکام ہے۔ وہاں سے قانونی دستاویزات کے بغیر کوئی آئے نہ یہاں سے جائے۔ آج بھی یہی حل ہے۔ پچاس سال بعد بھی یہی حل ہوگا۔ افغانستان دلدل ہے۔ پاکستان دھنستا چلا جا رہا ہے۔ افغانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے! ہم نے پوری دنیا کا ٹھیکہ جو لیا ہوا ہے! حسین مجروح کے اشعار یاد آ گئے:
ہم جو اوروں کا بھی سامان اٹھائے ہوئے ہیں
ہم کسی اور ہی سیارے سے آئے ہوئے ہیں
امن کی بات کریںکسی سے کہ اس بستی میں
فاختائوں نے بھی ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں