کیا قاتلوں کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟

حرام کھلانے والے بلڈرز اور ٹھیکیداروں نے اورحرام کھانے والے اہلکاروں اور افسروں نے‘ خلقِ خدا کو موت کے منہ میں دھکیل رکھا ہے! دارالحکومت فالٹ لائن کے عین اوپر واقع ہے۔ زلزلہ نہ آئے تب بھی مرنا ہے مگر افسوس! آگ کھانے والے اور آگ کھلانے والے بلڈر اپنے شکم کو موٹا اور اپنی تجوریوں کو بھرا رکھنے میں اتنے مگن ہیں کہ انہیں موت نظر نہیں آ رہی!
تعمیراتی قوانین؟ کون سے تعمیراتی قوانین؟ بلڈنگ کوڈ؟ کون سا بلڈنگ کوڈ! دیدہ دلیری کی انتہا دیکھیے کہ ترقیاتی ادارے کا ترجمان کہتا ہے2005 ء کے زلزلے کے بعد ادارے نے کسی کو بلڈنگ کوڈ کے خلاف عمارت بنانے کی اجازت نہیں دی! گویا یہ اعترافی بیان ہے کہ 2005ء سے پہلے کی عمارتیں بلڈنگ کوڈ کو پامال کر کے بنائی گئیں! کیا یہ بلڈنگ کوڈ 2005ء کے زلزلے کے بعد وجود میں آئے؟ اگر پہلے سے تھے تو کیا ادارہ بتانا پسند کرے گا کتنی عمارتیں کوڈ کی خلاف ورزی میں بنیں؟ کیوں ایسا ہوا؟جو اہلکار اور ان کے افسر تنخواہ لے رہے تھے کہ بلڈنگ کوڈ کا نفاذ کرائیں‘ ان کا کون سا مفاد تھا جس کے لیے 2005ء سے پہلے بلڈنگ کوڈ کو نافذ نہ کیا گیا۔ قاتلوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے۔ قتل کرنے کے لیے بندوق‘ تلوار‘ نیزہ‘ چُھری‘ خنجر‘ ریوالور ‘ بارود ضروری نہیں! جس بدبخت کو معلوم ہے کہ بلڈنگ غلط بن رہی ہے‘ کوڈ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ تعمیراتی قانون کو پیروں تلے روندا جا رہا ہے۔ عمارت خطرناک ہو گی۔ گر پڑے گی اور اس میں سر چھپانے والے لوگ ہلاک ہو جائیں گے تو وہ بدبخت دنیا اور آخرت کے سارے قوانین کی رُو سے قاتل قرار پائے گا۔ اس نے قتلِ عمد کا ارتکاب کیا ہے!
یونان کی جس تعمیراتی کمپنی نے 1961ء میں دارالحکومت کا ماسٹر پلان بنایا تھا‘ اس نے یہ حقیقت اپنے سامنے رکھی تھی کہ 
زلزلے آئیں گے کیوں کہ کوہ ہندو کش ‘ جہاں سے زلزلے ابھرتے ہیں‘ چند سو میل سے زیادہ فاصلے پر نہیں! مگر ماسٹر پلان کو اتنی بار تبدیل کیا گیا کہ اب نہ ماسٹر باقی رہا ہے نہ پلان! ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً بیس بڑی بڑی تبدیلیاں حکمرانوں‘ سیاست دانوں‘ تعمیراتی مافیا اور ہر حال میں روپیہ کمانے والوں کے مفادات کے لیے کی گئیں۔ کیا ماسٹر پلان میں ملٹی سٹوری عمارتوں کی اجازت دی گئی تھی؟ اگر یہاں پارلیمنٹ فی الواقع پارلیمنٹ ہوتی اور اس کے ارکان اپنی پسند کے تبادلوں اور تعیناتیوں اور اپنی مراعات کے علاوہ کسی قومی خدمت میں دلچسپی رکھتے تو اب تک ماسٹر پلان کئی بار زیر بحث لایا جا چکا ہوتا اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جا چکی ہوتی! مثلاً کسی پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹی کو صرف اس صورت میں اجازت دی جانی تھی جب اس کے پاس کم از کم دو ہزار کنال (250ایکڑ) زمین ہو! دو ہزار کنال کی یہ شرط پہلے سولہ سو ہوئی پھر ایک ہزار۔ اور اب چھ سو کنال (75ایکٹر) والا بھی میدان میں آ سکتا ہے! جہاں اب سرینا ہوٹل اور کنونشن سنٹر ہے اور جہاں حیات (Hyatt)ہوٹل بن رہا ہے‘ وہاں صرف گرین بیلٹ ہونا تھی۔ سبزہ زاروں کا یہ قتل 1995ء میں ہوا۔1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے نیشنل پارک کے ایریا میں سیمنٹ فیکٹری بنانے کی اجازت دی۔ یہ بھی ماسٹر پلان کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ سیکٹر ای الیون‘ کم آمدنی والے مکانوں کے لیے مخصوص تھا۔ مگر بہت بڑے اور مقدس لوگوں کے لیے یہاں بھی تبدیلیاں کی گئیں۔ پھر ایک مکروہ اصطلاح وضع کی گئی۔ پلاٹ Carveکرنا! یعنی گرین ایریا سے یا شاہراہ سے زمین کاٹ 
کر زبردستی پلاٹ بنانا! یہ جو کراچی سے ''چائنا کٹنگ‘‘ کا رواج چلا‘ اسے کراچی کے سر تھوپنا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔ یہ کام تو اسلام آباد سے شروع ہوا۔ فرق صرف یہ تھا کہ کراچی میں سیٹھوں نے نچلی سطح کے اہلکاروں کی سرپرستی میں شروع کیا؛ جب کہ دارالحکومت میں شروع کرنے والے سوٹ اور ٹائیوں میں ملبوس تھے۔ دہانوں میں لمبے لمبے سگار تھے۔ ضمیر مردہ تھے۔ حکمران ان کی پشت پر تھے۔ اقربا پروری سفارش‘ دوست نوازی نے وہ ہا ہا کار مچائی کہ ماسٹر پلان کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ اب تو دارالحکومت کے اکثر علاقے پرانے راولپنڈی کے آریا محلے یا ڈھوک رتّہ یا ڈھوک کھبّہ جیسے لگتے ہیں! اور یوں لگتا ہے کہ ماسٹر پلان یونانی فرم نے نہیں‘ کسی موٹی توند‘ لمبی قلموں اور چُپڑے ہوئے سر والے ٹھیکیدار نے بنایا تھا۔
ای الیون ہی کی ایک مشہور و معروف ملٹی سٹوری رہائشی عمارت جس میں مبینہ طور پر زلزلے کے وقت بھگدڑ مچی‘ قانون کو پائوں تلے روندنے کی بدترین مثال ہے۔ اجازت47کنال کی ملی تھی۔ عملی طور پر یہ 91کنال پر بنی۔ 36کروڑ کے واجبات نہیں ادا کیے گئے۔ ایک اور معاملے میں 143پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ الاٹیوں نے قسطیں ہی جمع نہ کرائیں۔ سرکاری خزانے میں اکاون کروڑ روپے ابھی تک نہیں جمع کرائے گئے۔ ایک اور مشہور پلازے کے مالک نے 45کروڑ نہیں ادا کئے۔ ادارے نے ایمرجنسی کا شعبہ الگ قائم کیا ہوا ہے۔434عمارتوں نے آگ بجھانے اور دیگر حفاظتی انتظامات کے قوانین کی خلاف ورزی کی۔ اس شعبے نے 21کروڑ روپے جرمانے کی مد میں وصول کرنے تھے جو نہیں کئے گئے۔
ہم میں اور ترقی یافتہ ملکوں میں اصل فرق کیا ہے؟ ایک اور صرف ایک فرق ہے باقی تمام فرق اس ایک فرق سے پھوٹتے ہیں۔ ترقی یافتہ ملک جو قانون وضع کرتے ہیں اُ س پر سو فیصد عمل ہوتا ہے۔ کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوتا اور قوت نافذہ ‘ کسی ایک معاملے میں بھی چشم پوشی نہیں کرتی! اس کی سادہ ترین مثال یہ ہے کہ شاہراہوں پر گاڑیوں کی پارکنگ کے نشانات لگے ہیں۔ ان تین لکیروں کے اندر گاڑی پارک ہو گی۔ اس سے باہر نہیں! جہاں دائیں یا بائیں مڑنے والی گاڑیوں کی جگہ بنی ہوئی ہے‘ وہاں کسی اور گاڑی کا گزر نہیں ہو سکتا! لکیریں! بے جان لکیریں! سفید رنگ کی بے زبان لکیریں! مگر ان لکیروں میں ریاست کی پوری طاقت چھپی ہے! آپ کو پارکنگ نہیں مل رہی ۔ گھنٹوں پھیرے لگاتے رہیے نامراد ہو کر گھر واپس چلے جائیے! مگر مجال نہیں کہ گاڑی وہاں پارک کی جائے جہاں اجازت نہیں! ہمارے ہاں اسلحہ سے لے کر ٹیکس تک‘ بلڈنگ کنٹرول سے لے کرٹریفک تک۔ ہرقسم کے قوانین موجود ہیں مگر ریاست کا وجود ہی نہیں کہ ان قوانین پر عمل درآمد کرا سکے۔ کسی مہذب ملک میں گاڑی چلاتے وقت موبائل فون کانوں سے لگایا جاتا ہے؟ شاہراہ پر گاڑیاں دائیں سے اوورٹیک کرتی ہیں‘ پھر بائیں سے‘ پھر درمیان سے‘ جیسے گتکا کھیلا جا رہا ہو!
نئے نئے ادارے اور محکمے بنانے میں اس ملک کا جواب نہیں! بجلی کے لیے الگ ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ میڈیا کے لیے الگ‘ گیس کے لیے الگ۔ کوئی پوچھے بجلی‘ توانائی اور اطلاعات کی وزارتیں کس مرض کی دوا ہیں۔ اسی طرح ملاحظہ فرمائیے کہ وفاقی وزارت تعلیم ہے۔ پھر ڈائریکٹوریٹ جنرل ہے۔ پھر ڈائریکٹروں اور ان کے ماتحتوں کی پوری فوج ہے مگر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ''کنٹرول‘‘ کرنے کے لیے ایک اور ادارہ تشکیل دیا گیا جسے ''پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ پرسوں جو زلزلہ آیا ہے‘ اس کی آواز سے یہ بھی ہڑ بڑا کر اٹھا ہے اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کہا گیا ہے کہ فلاں تاریخ تک سرٹیفکیٹ جمع کرائیں جس میں یہ تسلیم کیا گیا ہو کہ عمارت سارے حفاظتی تقاضے پوری کر رہی ہے! بھلا ہو زلزلے کا جو آیا اور اس سرٹیفکیٹ کا اس ادارے کو خیال آ گیا! 2005ء میں زلزلہ آیا اور مظفر آباد کی تعمیر نو کے لیے ایک ماسٹر پلان وضع کیا گیا۔ دس سال گزر گئے۔ ایک اور زلزلہ آ چکا ہے۔ ابھی تک اس ماسٹر پلان نے عملی تعبیر کی شکل نہیں دیکھی! ہاں! آزاد کشمیر کی حکومت نے 8اکتوبر کو ''یوم استغفار‘‘ قرار دے دیا۔ اب یہ تو مذہبی سکالر ہی بتائیں گے کہ استغفار صرف زبانی کافی ہے یا اس کا تعلق عمل سے بھی ہے؟ بالا کوٹ کی تعمیر نو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔ آباد کاری کا خواب بدستور خواب ہے۔ کھنڈر ابھی تک کھنڈر ہیں۔ بالا کوٹ کا شاعر احمد حسن مجاہد ان کھنڈروں پر بیٹھا نوح خوانی کر رہا ہے۔ ؎
یہ خشک چشمہ یہ ٹوٹے مکاں یہ اجڑا دیار
اسی جگہ پہ کبھی گھونسلا ہمارا تھا
نمازِ عصر پڑھی تھی مکاں کے ملبے پر 
تلاوتِ غمِ انساں میں دن گزارا تھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں