محل شدید بد انتظامی کا شکار تھا۔ نواب صاحب کے اللّے تللّے جاری تھے۔ رقم پوری نہیں پڑ رہی تھی اب ایک ہی حل تھا کہ لالہ لاجپت رائے سے قر ض لے کر نوابی شان قائم رکھی جائے۔ تین سال کا معاہدہ لالہ کے ساتھ ہؤا۔ اس عر صہ میں لالہ کا منشی قر ض دیتا رہے گا اور محل کی معیشت میں ''اصلاح‘‘ کرتا رہے گا۔
تین سال گزر گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا لالہ یا اس کا منشی یہ مانیں گے کہ قرض بڑھ گیا مگر حالات خراب ہی ہیں جیسے تھے؟ نہیں ! کبھی نہیں! اگر وہ سچے تجزیے کرنے لگیں تو چل چکا ان کا ساہو کارہ!
آئی ایم ایف نے ہمارے ملک کو تین سال کا پروگرام دیا تھا۔ 2012-13ء سے لے کر 2015-16ء تک۔ پروگرام اختتام کو پہنچا تو آئی ایم ایف کی سربراہ بی بی لگارڈے بنفسِ نفیس تشریف لائیں ۔ بظاہر کہا کہ پروگرام کامیاب ٹھہرا۔ بین السطور مارکٹائی بھی کی!پاکستان کے تین چوٹی کے ماہرین اقتصادیات نے چار دن پہلے آئی ایم ایف کو کھلا خط لکھا ہے جس میں تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر کے کہا ہے کہ ع
سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا اینجاست
حضور! سخن شناس کیسی ہیں آپ؟ مسئلہ تو دوسرا ہے۔ اُس کی آپ بات ہی نہیں کرتیں!
یہ تین معیشت دان ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا، ڈاکٹر اشفاق حسن اور ڈاکٹر سلمان شاہ ہیں۔ یہ وزارتِ مالیات چلاتے رہے ہیں۔ کوئی وزیر رہا کوئی مشیر! آئی ایم ایف کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ کھُلا خط خاصی ٹیکنیکل زبان میں ہے۔ہم اس اہم خط کے خاص خاص مندرجات عام فہم زبان میں، اصطلاحات کے گرداب میں پڑے بغیر، قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ بد قسمتی ہے اُردو اخبارات عمومی طور پر اِن پیچیدہ اور ٹیکنیکل مسائل کی اشاعت سے گریز کرتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ انگریزی اخبارات میں شائع شدہ یہ مواد، اقتصادیات کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ہوتا ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غلط رویہ ہے۔ پاکستان کے مالک عوام ہیں۔ عوام کی نوے پچانوے فیصد اکثریت اُردو اخبارات کا مطالعے کرتی ہے۔ ان کا حق ہے کہ معیشت کے اصل مسائل سے واقفیت حاصل کریں۔ ان کا یہ بھی حق ہے کہ ٹیکنیکل اصطلاحات میں اُلجھائے بغیر انہیں اصل بات بتائی جائے۔ عام آدمی کاروبار کر سکتا ہے، اپنا گھر چلا سکتا ہے، فیکٹری لگا سکتا ہے تو ملک کی معیشت کو کیوں نہیں سمجھ سکتا؟ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے ایک مذہبی گروہ اپنے وابستگان کو قرآن سمجھ کر پڑھنے سے کھلم کھلا منع کرتا ہے کہ یہ علما کا کام ہے! مشکل اصطلاحات کا قصہ یہ ہے کہ ایک شخص مالٹے فروخت کر رہا تھا۔ علامہ اقبال کا گزر ہوا۔ پوچھنے لگے، ارے میاں! عدداً فروخت کر رہے ہو یا وزناً؟ دکاندار نے کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑے اور کہا، علامہ صاحب! میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس عدداً ہے نہ وزناً، میں تو بس مالٹے بیچ رہا ہوں!
تین ماہرینِ اقتصادیات نے آئی ایم ایف کو جو آئینہ دکھایا ہے، اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔
اس تین سالہ پروگرام کے تحت پاکستان نے آئی ایم ایف سے چھ اعشاریہ ایک (6.1) ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ طے یہ ہؤا تھا اس عرصہ میں معیشت کے ڈھانچے میں ضروری تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ میکرو اکنامکس پالیسی کا رُخ اس طرح موڑا جائے گا کہ شرحِ نمو بڑھے گی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے گا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ آئی ایم ایف والے آئے اور فتح کے پھریرے لہرا دیے۔ مگر اصل حقیقت اور ہے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر پر آئی ایم ایف کا زور بنیادی طور پر اس لیے تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لیے ہوئے قرض کی قسطیں وقت پر ادا کرتا رہے۔ اسی لیے سیانے معیشت دان اس پروگرام کو ''اپنی خدمت آپ‘‘ قرار دیتے رہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر جمع کرنے کے لیے حکومت مزید قرض لیتی رہی۔ اس عرصہ میں یعنی پروگرام کے تین سالوں میں بارہ ارب ڈالر کا قرض مزید لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عرصہ میں زرِ مبادلہ میں اضافہ بھی بارہ ارب ڈالر ہی کا ہوا۔ جون 2013ء میں یہ ذخائر چھ ارب ڈالر تھے۔ تین سال بعد جون 2016ء میں اٹھارہ ارب تھے۔ گویا اضافہ بارہ ارب ڈالر کا ہوا۔ اتنا ہی قرض لیا گیا۔ تو یہ اضافہ، اضافہ نہ ہؤا اصل میں قرض بڑھایا گیا۔ ایک شخص تھا۔ نام اس کا نندا تھا۔ وہ دس دن باہر دوسروں کے گھر مہمان رہا اور حساب یہ کرتا رہا کہ دس دن اُس کا اپنا باورچی خانہ بند رہا اور بچت ہوتی رہی۔ واپس آیا تو دس مہمان آ گئے۔ حساب برابر ہو گیا یعنی ؎
دس دِن نندا باہر رہیا تے دس نندے دے گھر
نندے آکے لیکھا کیتا نندا گھر دا گھر
نندے نے حساب کیا تو یوں لگا جیسے دس دن نندا گھر ہی رہا! بارہ ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ میں اضافہ ہؤا اور اتنا ہی قرض چڑھا! واہ! جی واہ! کیا بات ہے!
آئی ایم ایف جب قرض کی قسط دیتا ہے تو معائنہ کرتا ہے کہ اس کی شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں! یعنی معیشت میں مطلوبہ تبدیلیاں لائی گئیں یا نہیں؟ اگر مطلوبہ تبدیلیاں نہ نظر آئیں اور مقروض ملک قرضہ کی اگلی قسط لینے پر مصر ہو تو آئی ایم ایف ''معافی‘‘ دیتا ہے۔ اس معافی کو باعزت یعنی ٹیکنیکل زبان میں Waiver کہتے ہیں! آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ تین سالہ پروگرام کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ معافی (Waiver) سولہ بار دی! یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پروگرام کے تحت ہونے والی تبدیلیاں واقع بھی ہوئیں یا نہیں؟ گویا قرضہ کی قسطیں پاکستان وصول کرتا رہا مگر جو تبدیلیاں معاشی ڈھانچے میں ملک کی بہتری کے لیے لائی جانی تھیں، وہ نہ لائی جا سکیں۔ آئی ایم ایف ''معافی‘‘ دے کر مزید قرضہ دیتا رہا۔ ساہوکار کا اصل مقصد قرض دے کر شکار کو مقروض کرنا ہی ہوتا ہے۔
شرحِ نمو میں اضافہ ہؤا یا نہیں؟ یہ متنازع ہے۔ سرکاری ادارہ برائے اعداد و شمار 4.7 تک کا دعویٰ کر رہا ہے مگر تینوں ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ یہ مبالغہ ہے۔ شرحِ نمو 3.7 سے زیادہ بڑھ ہی نہ سکی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک مستقل ادارہ ہے جو اس قبیل کے مشکوک اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں ادا کیا!بیروزگاری کی شرح اتنی بڑھی کہ گزشتہ تیرہ سال میں اس قدر نہ بڑھی تھی۔ 2008ء اور 2013ء کے درمیانی عرصہ میں تیرہ لاکھ افراد کو مزدوری ملی تھی جب کہ آئی ایم ایف کے اس تین سالہ محکومی کے دوران یہ تعداد صرف ساڑھے چھ لاکھ رہی! زیادہ تشویش ناک صورتِ حال یہ ہے کہ جن نوجوانوں کے پاس گریجوایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں ہیں ان کی بیروزگاری کی شرح بیس فیصد ہے، چوبیس لاکھ تعلیم یافتہ افراد ایسے ہیں جن کے روزگار کا سلسلہ مخدوش ہے۔
رہا یہ دعویٰ کہ افراطِ زر کی شرح نیچے آئی ہے۔ تو صاحب! اس کا تعلق آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں، جون 2014ء کے بعد بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں۔ افراطِ زر کی شرح دنیا بھر میں کم ہوئی۔ دوسری طرف ملک میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا مگر ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد (ٹیکس نیٹ) میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ بالائی طبقہ خصوصاً سیاست دانوں اور اہلِ اقتدار کی اکثریت نے بدستور ٹیکس نہیں دیا۔
سب سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ عوام کا معیارِ زندگی بلند تو کیا ہوتا، پہلے کی نسبت اور کم ہو گیا۔ کھاد کی قیمت زیادہ ہوئی۔ کسان کوبجلی کا بل زیادہ دینا پڑا۔ نتیجہ یہ کہ اشیائے خوردنی کی قیمتیں چڑھ گئیں۔ اس کے مقابلے میں اجرتیں نہ بڑھ سکیں۔ پاکستان میں غذائیت (نیوٹریشن) کی شدید کمی ہے۔ 2016ء کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر نیچے کی طرف سے گیارہواں ہے۔ بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہم سے اوپر ہیں۔ اس فہرست میں کل ایک سو اٹھارہ ممالک شامل ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر ستمبر 2015ء میں جو زرعی پیکیج دیا تھا اُس پر بد قسمتی سے عمل ہی نہ ہو سکا!
خراب ترین مسئلہ برآمدات کا رہا۔ پروگرام میں یہ طے ہؤا تھا کہ سالانہ آٹھ فیصد اضافہ ہو گا اور تین سال کے اختتام پر برآمدات 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ مگر ہوا کیا؟ برآمدات گرتی رہیں۔ گذشتہ سال بائیس ارب تک مشکل سے پہنچیں۔ یعنی ٹارگٹ سے 23 فیصد کم! وجوہ کئی ہیں۔ ایک تو قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بھرے گئے۔ دوسرے، انڈسٹری کا بجلی کا بل چالیس فیصد اور گیس کا 64 فیصد زیادہ کر دیا گیا۔ ایف بی آر نے 200 ارب ڈالر کا ری فنڈ روک رکھا ہے۔ یعنی ٹیکس جو زیادہ لیا گیا، اس میں سے 200 ارب ڈالر تاجروں صنعت کاروں کو واپس دینا ہے اور نہیں دیا جا رہا۔ ایسے میں پیداوار کیا ہو اور برآمد کیا ہو! دوسری طرف خام مال کی درآمد پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے!
نواب رئیسانی کا یہ قولِ زریں بہت مشہور ہؤا کہ ڈگری ڈگری ہے، اصلی ہو یا جعلی! ساہوکار، ساہوکار ہوتا ہے، لالہ لاجپت رائے ہو یا آئی ایم ایف! افسوس! کشکول ٹوٹ تو نہ سکا۔ ہاں ! کئی گنا بڑا ضرور ہو گیا ہے۔