اُس محفل میں وہ عقل مند شخص نہ ہوتا تو بحث ہرگز کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتی۔
بحث کے دوران وہ سب کو سنتا رہا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ بولے گا تو دونوں فریق سر ہلا کر سر جھکا دیں گے۔ کالی پتلون اور اورنج رنگ کے ٹویڈ کوٹ میں ملبوس اُس شخص نے سر پر وہ ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس سے ملتی جُلتی ہنری کسنجر کے سر پر نظر آتی تھی‘ یہ شخص عباسیوں یا سلجوقیوں کے زمانے میں ہوتا تو اس کے گھوڑے کی باگ پکڑنے کے لیے محل سے باہر سینئر ترین وزیر کھڑا ہوتا مگر یہ اُس زمانے کی بات ہے جب عزت کا سبب فراست تھی۔ اب فراست نہیں‘ دولت ہے جو عزت بخشتی ہے اور دولت ہی فراست کا قائم مقام ہے۔ اب زرداری صاحب جیسے افراد سیاست جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پڑھے لکھوں کی قیادت کرتے ہیں۔ اب حکمرانی کی مسند پر وہ لوگ متمکن ہیں جو دس منٹ کیا پانچ منٹ کسی مسئلے پر بات کرنے سے قاصر ہیں۔
فریق دو تھے‘ ایک طرف کچھ امریکہ پلٹ حضرات تھے جو امریکہ‘ یورپ اور اُن تمام ملکوں کی برائیاں کر رہے تھے جہاں پاکستانی مقیم تھے۔ انہیں وہاں رہ کر اپنے وطن میں خوبیاں ہی خوبیاں نظر آ رہی تھیں۔ دوسرا فریق کہتا تھا کہ جینے کا لطف انہی ملکوں میں ہے۔ سسٹم ہے اور ضابطہ‘ قانون ہے اور انصاف‘ ہٹو بچو کی صدائیں ہیں نہ پروٹوکول کے لیے عوام کے راستے مسدوردکئے جاتے ہیں۔ اس کا جواب دوسرا فریق یہ دیتا تھا کہ اپنے رنگ اور مذہب کی وجہ سے آپ بہرحال وہاں اکثریت سے الگ ہیں‘ بچے ماں باپ کے ساتھ جو زبان بولتے ہیں‘ باہر اُس کا ایک لفظ کوئی نہیں سمجھتا۔ اپنی ثقافت سے دُور‘ گملے میں پودا لگا ہے۔ وہاں کی زمین اجنبی ہے اور اپنی دور...!
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں ناصبور ہے تُو
ہر کوئی دلائل دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ گرم گفتاری گرمی میں بدلتی دکھائی دے رہی تھی۔ آوازیں نسبتاً بلند تر ہو رہی تھیں۔ اضطراب عیاں ہونے لگا تھا۔ دونوں طرف دودھ نہیں‘ پانی بلویا جا رہا تھا اس لیے کہ نتیجے کا مکھن بنتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب وہ خاموش شخص گویا ہوا۔ پہلے اس نے سلیقے سے اجازت طلب کی کہ کیا وہ کچھ کہہ سکتا ہے۔ دونوں فریق جیسے کسی مسیحا کے منتظر تھے۔ انہوں نے مداخلت غنیمت سمجھی۔ اس نے کہا کہ دونوں فریق کوئی ایسی بات نہیں کہہ رہے جو حقیقت سے بعید ہو۔ دوسرے لفظوں میں دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ ان ملکوں میں سسٹم ہے اور ضابطہ‘ کام کرانے کے لیے آپ کو دفتروں اور کارپوریشنوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔ لوڈشیڈنگ ہے نہ گیس لگوانے کے لیے پانچ سال کی دوڑ دھوپ! اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہاں سوشل لائف ہے نہ رشتے دارنہ احباب۔ بچے دو ثقافتوں کے درمیان پس جاتے ہیں۔ پھر اس نے کچھ دیر تامّل کیا اور کہا کہ حضرات! یہ ایک پیکج ڈیل ہے جو آپ قبول کرتے ہیں۔ نقصانات اس پیکج کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ اسی طرح اگر آپ فیصلہ کریں کہ اپنے ملک ہی میں رہیں گے اور ہجرت کا آپشن نہیں استعمال کریں گے تو یہ بھی ایک پیکج ڈیل ہو گا۔ آپ اپنے ماحول میں رہیں گے۔ اپنی ثقافت‘ اپنے عزیزواقارب اور اپنے زندگی بھر کے دوست ہمہ وقت میسّر ہوں گے‘ مگر دوسری طرف یہ بھی طے ہے کہ آپ کو ذرا ذرا سے کام کے لیے دھکے کھانے ہوں گے۔ یو پی ایس کی بیٹریوں کا پانی چیک کرنا ہو گا۔ دکاندار ہیں تو بھتے دیں گے۔ سرکاری ملازم ہیں تو ترقی کے لیے جیب میں پرچی رکھنی ہو گی۔ سیاست دان ہیں تو گھوڑا بننا پڑے گا۔ اب یہ آپ کا انتخاب ہے کہ کون سا پیکج لیتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ پیکج‘ پیکج ہے۔ اس میں کچھ الگ کیا جا سکتا ہے نہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا ۔نہیں معلوم کون تھا اور کہاں سے آیا تھا مگر مجھے آج صبح ہی سے یاد آ رہا ہے اور شدت سے یاد آ رہا ہے۔ آج صبح میں ایک اور مجلس میں بیٹھا تھا جہاں دانشور باقاعدہ آہ و زاری کر رہے تھے ان میں سے ایک اس ملک کی صفر حیثیت پر رو رہا تھا کہ امریکی سفارت خانے کی لینڈ کروزر گاڑیوں نے دارالحکومت کے عین وسط میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے نہ صرف پولیس کے حفاظتی حصار کو توڑا بلکہ جائے واردات سے چلے بھی گئے۔ حکومت سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کر سکی کہ سفارت خانے کو احتجاجی خط لکھا کہ آئندہ کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ایک کمزور شخص کو ایک طاقتور فرد نے ماں کی گندی گالی دی تو کمزور شخص نے ''دھمکی‘‘ دی کہ اگر حضور نے اس کے بعد میری والدہ کی شان میں گستاخی کی تو میں بھی حضور کی امّی جان خُلد مکانی کی شان میں نازیبا کلمات کہوں گا۔
دوسرا دانشور سنگاپور اور سوئزر لینڈ کی مثالیں دے کر رو رہا تھا کہ قانون پاکستان میں ایک ایسے قالین سے زیادہ کچھ نہیں جس پر بڑے لوگ اپنے گندے جوتوں کے ساتھ چلتے ہیں۔ مکروہ تنزّل کا یہ عالم ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کا سربراہ موٹروے پر پولیس کے کہنے کے باوجود نہیں رکتا اور پھر جب ایک دفعہ اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے تو اسی جرم کا دوبارہ ارتکاب کرتا ہے۔ متعلقہ عملے کو توہین آمیز روئیے اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے ان ملازموں کا تبادلہ گوادر کر دیا جاتا ہے‘ پھر یہ مظلوم عدالت میں جاتے ہیں۔ عدالت انہیں سابقہ پوزیشنوں پر بحال کرتی ہے مگر ادارہ عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ مضحکہ خیز حصہ اس سارے قصے کا یہ ہے کہ میڈیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ سزا اس لیے نہیں دی گئی کہ بڑوں کے خلاف کارروائی ہوئی بلکہ اس لیے دی گئی کہ روکنے اور جرمانہ کرنے والے افسروں نے ٹوپیاں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔
میں اس عقلمند شخص کو ڈھونڈ رہا ہوں جو کل والی بحث کا فیصلہ کر کے چلا گیا تھا۔ کاش اس مجلس میں بھی وہ موجود ہوتا اور آہ و فغاں کرنے والے ان دانشوروں کو سمجھاتا کہ یہ پیکج ڈیل ہے جس میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی جس ملک میں سیاستدان خود قانون کو ''شو ہارن‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہوں‘ جس ملک میں حکومت اور سیاست دونوں کا منبع دوبئی‘ جدہ‘ لندن اور نیویارک ہوں‘ جس ملک میں سرکاری ملازمتوں کی تنخواہ پانچ فیصد اور اسمبلیوں میں براجمان بالائی طبقے کی مراعات میں 146 فیصد اضافہ ہو‘ وہاں دارالحکومت کو ایسی ہی پولیس ملے گی جو امریکی سفارت خانے کو سیلوٹ مار کر کہے کہ حضور آپ کی پانچ لینڈ کروزر گاڑیوں نے نہ صرف ٹریفک قوانین کو توڑا بلکہ ہمارے حفاظتی حصار کی بھی ایسی تیسی کر دی۔ جہاں برسر اقتدار خاندانوں پر کوئی قانون‘ کوئی ضابطہ‘ کوئی رول آف بزنس نہیں اپلائی ہو گا وہاں این ایچ اے جیسے اداروں کے سربراہ بھی اسی سلوک کی توقع رکھیں گے جو مقتدر افراد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
وہ شخص اگر عباسیوں یا سلجوقیوں کے زمانے میں ہوتا تو اتنی قدرومنزلت پاتا کہ وزیر اس کے گھوڑے کی لگام پکڑتے۔ یہاں ایسے عقل مندوں کی ضرورت نہیں۔ تنزل پر رونے والوں کو کون بتائے کہ یہ پیکج ڈیل ہے اس ڈیل میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ہر طرف لاقانونیت ہو مگر دارالحکومت کی شاہراہوں پر اور موٹروے پر سنگاپور اور سوئزر لینڈ کے مناظر دیکھے جا سکیں۔ اس کے لیے حکمران بھی ایسے لانے پڑیں گے جیسے ان ملکوں میں ہیں جن کے خاندان کے افراد کے نام تک لوگوں کو معلوم نہیں اور جہاں سیاسی جماعت کے سربراہ کو‘ ہر کچھ سال کے بعد تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تُم نے جو پیکیج لیا ہوا ہے اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنا سیکھو!!