''استاد محترم!
مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے فارس (ایران) کی سرزمین پر ایسے افراد ملے ہیں جو زرخیز ذہن اور صائب رائے کے مالک ہیں۔ یہ لوگ حکمرانی کے اہل ہیں؛ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں موت کے گھاٹ اتار دوں! جناب کی رائے اس ضمن میں کیا ہے؟‘‘
''جن افراد کو تم نے فتح کیا ہے، انہیں قتل کرنا بے سود ثابت ہو گا۔ قانونِ قدرت کے مطابق، اس سرزمین سے ایسی ہی ایک اور نسل اٹھ کھڑی ہوگی۔ ان لوگوں کی فطرت، ان کے ملک کی ہوا اور پانی سے بنتی اور پختہ ہوتی ہے۔ تمہارے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ یہ جیسے بھی ہیں انہیں قبول کر لو۔ انہیں اپنے نظام میں جگہ دو اور کھپائو اور مہربانی سے ان کے دل جیتو!‘‘
یہ سوال سکندرِ اعظم نے پوچھا تھا اور جواب اس کے استاد ارسطو نے دیا تھا۔ مفتوحہ لوگوں کو اپنا معاون بنانے کا اس سے بہتر طریقہ دنیا نے آج تک نہیں سیکھا!
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو برِّصغیر کی سرزمین سے باہر نکال کر دم لیا۔ افغانستان (اس زمانے میں یہ نام نہیں تھا) پہنچ کر بھائیوں سے خطرہ نظر آیا۔ ایران جانے کے سوا چارہ نہ تھا! پہلا ایرانی شہر، بارڈر کراس کرنے کے بعد ہرات پڑتا تھا۔ شاہ طہماسپ نے ہرات کے گورنر کو ہدایت کی کہ ہمایوں کا شایانِ شان استقبال کیا جائے۔ طہماسپ اس سلسلے میں کتنا حساس تھا، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ابوالفضل نے اکبر نامہ میں جو ہدایات بادشاہ کی طرف سے نقل کی ہیں وہ چودہ صفحات پر مشتمل ہیں! اور ان سے ایک ہدایت یہ تھی کہ ہمایوں کے لیے جو نان تیار کی جائے اس کا آٹا دودھ اور مکھن میں گوندھا ہوا ہو اور اس میں سونف، تِل اور خشخاش ملائی جائے۔ کسی اور موقع پر یہ ہدایات قارئین سے شیئر کی جائیں گی۔
بہرطور، ہمایوں بادشاہ کے دارالحکومت پہنچا اور ایک برس وہیں رہا۔ ایک بار پکنک پر تھے۔ قالین بچھائی گئی۔ شاہ ایران بیٹھا۔ ہمایوں قالین کے کنارے پر تھا۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھتا تو ایک زانو، ننگی زمین پر آتا۔ بجلی کی سی تیزی سے ہمایوں کے ایک مصاحب نے خنجر سے ترکش کو چاک کیا اور اس کا کپڑا وہاں رکھ دیا جہاں زانو رکھا جانے والا تھا۔ اس سرعت، چابکدستی اور جان نثاری سے طہماسپ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا! پوچھا: ایسے جانثاروں کی موجودگی میں، مغلوں نے سلطنت کیسے کھو دی؟ ہمایوں نے وسطی ایشیا سے ساتھ آئے ہوئے سرداروں کی باہمی رنجشوں کا ذکر کیا۔ طہماسپ نے ایک نصیحت کی۔ ایسی‘ جو آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہے۔ کہا کہ سلطنت دوبارہ ملے تو مقامی لوگوں پر انحصار کرو! ہمایوں کو تو قدرت نے موقع نہ دیا مگر اکبر نے اسی نظریے پر عمل کر کے سلطنت کو استحکام بخشا۔ یہ راجپوت‘ جاٹ اور دیگر مقامی قومیتیں تھیں، جنہوں نے مغلوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور حکومت میں شریک کیے گئے!
کیا کوئی عقل مند، کوئی رجلِ رشید حواریوں میں ایسا ہے جو یہ نکتہ سمجھائے؟ کوئی ہے جو عالی مرتبت کو بتائے کہ ع
نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین
ثمردار ٹہنی ہمیشہ نیچے کی طرف جھکتی ہے۔
مودی نے جب کشمیر پر وار کیا، آئین کو مسخ کیا اور اہلِ کشمیر کی زندگی جہنم بنا ڈالی تو وہ وقت تھا جب وزیر اعظم کو قومی سطح پر اجماع کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔ یہ حکمران کا فرض ہے کہ اپوزیشن کی طرف قدم بڑھائے، ہاتھ آگے کرے اور پکڑ کر انہیں اپنی طرف مائل کرے! قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں جب جھگڑے، اختلافات سب بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ یہ خاندان کا سربراہ ہوتا ہے جو سب کو اکٹھا کرتا ہے۔ دشمن حملہ کرے تو سب ایک ہو جاتے ہیں۔ بھائی سے قطع تعلقی بھی ہو تو جب کوئی بیگانہ بھائی پر حملہ کرے، خون پکارتا ہے، ابلتا ہے، چین سے نہیں بیٹھنے دیتا۔
یہ افتاد وائرس کی جو پڑی ہے، یہ آزمائش کی گھڑی ہے! وزیراعظم پر لازم تھا کہ تمام پارٹیوں، تمام سیاسی زعما کو دعوت دیتے، ساتھ بٹھاتے۔ ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرتے۔ مگر افسوس! اپوزیشن تو دور کی بات ہے، صوبائی حکمرانوں کے ساتھ بھی ہم آہنگی نہ ہو سکی۔ ایک حریفانہ کشمکش ہے جو واضح طور پر نظر آ رہی ہے! دراڑیں ہیں جو پیش منظر کو بد نما کر رہی ہیں! وزیراعظم کے ہاتھ میں گرمالا ہے نہ سیمنٹ! حالانکہ یہ گھر کی دیواروں کو گرانے کا نہیں، اونچا کرنے کا وقت ہے!
لاکھ اختلافات سہی، بلاول، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفندر یار ولی پاکستانی تو ہیں۔ اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ تو ہیں۔ ان کے ارد گرد ان کے حمایتی بھی پاکستانی ہی ہیں۔ وزیراعظم انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے، ان کی سنتے، اپنی سناتے، ہاں، ان حضرات میں سے جو وزیراعظم کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرتے‘ اپنے آپ کو بے نقاب کر لیتے۔ قوم پر ان کی اصلیت ظاہر ہوتی۔ وزیراعظم سرخرو ہو جاتے!
یہ عجزوانکسار ہے جو حکمرانی کو لمبی زندگی عطا کرتا ہے۔ حریفوں سے ہاتھ ملانے میں انسان کا مرتبہ کم نہیں، زیادہ ہوتا ہے۔ حکمران پوری قوم کا پیشوا ہے۔ بمنزلہ باپ کے ہے۔ بڑے بھائی کی طرح ہے۔ آخر کون سا گڈریا ہے جو کچھ بھیڑوں کو اپنا سمجھے اور کچھ سے بیگانگی برتے۔
قیامت کا سماں ہے! تاریخ نے ایسی افتاد پہلے نہیں دیکھی! قلب کی صفائی کا موقع ہے! دشمنی کے بیج دل کی زمین سے نکال باہر پھینکنے کا وقت ہے۔ سیاست میں کوئی جنگ، ذاتی جنگ نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو معاف نہیں کیا تو کیا حاصل ہوا؟ کچھ پایا نہ جنرل نے کچھ کھویا۔ نفع یا نقصان انسان کے ہاتھ میں نہیں! ذاتِ باری تعالیٰ سب سے زیادہ طاقت ور ہے! یہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک۔ بے نظیر سے لے کر نواز شریف تک، پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک، سب نے غلطیاں کیں مگر خدمات ملک کے لیے سب کی ہیں! خلوص کا سرٹیفکیٹ انسانوں نے نہیں دینا۔ سو فیصد غلط ہے نہ کوئی صحیح! سب اسی ملک کے باشندے تھے اور ہیں! کوئی کسی کا ایجنٹ تھا نہ ہے! رائے کی غلطی اور بات ہے۔ اذہان ناپختہ بھی ہوتے ہیں۔ سمجھ بوجھ سب میں ایک جیسی نہیں ہوتی۔ عقلِ کل کوئی نہیں! کوئی بھی نہیں! جو دعویٰ کرتا ہے اپنا کھوکھلا پن ظاہر کرتا ہے۔
میکاولی سب کو یاد ہے مگر حکمرانوں کو اس کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص میں ایک میکاولی پہلے ہی چھپا ہے۔ اسے مارنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمرانوں کو گلستانِ سعدی کے مندرجات بتائے جائیں۔ ان سے نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ پڑھوایا جائے۔ قابوس نامہ کا سبق دیا جائے۔ اخلاقِ جلالی کا کورس کرایا جائے اور عروضی سمرقندی کا چہار مقالہ سنا کر ان کے ذہن نشین کرایا جائے تاکہ وہ حکمرانی کے اسرارورموز سیکھیں، عوام کے دل جیتنے کا فن جانیں اور ملک کے سب طبقات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے، مخالفین کو ساتھ لے کر چلیں اور یوں اپنی قیادت کا لوہا منوائیں۔
ابھی وقت ہے! اب بھی گرمالا ہاتھ میں لے کر، سیمنٹ کے مصالحے سے ان شگافوں کو بھر دیجیے جو عمارت کو خستگی کی طرف لے جا رہے ہیں؎
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
آپ دلوں کو جوڑنے کے لیے آئے ہیں، جدا کرنے کے لیے نہیں! مراد علی شاہ بھی اپنے ہیں، انہیں بلا لیجیے، ان کے سر پر دستِ شفقت رکھیے۔ع
یاد رہ جاتی ہے ایّام نکل جاتے ہیں
کم از کم ان سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مل بیٹھنے کی راہ نکالیے جو پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ تاریخ میں اپنا نام مدّبر کی حیثیت سے چھوڑئیے۔ یہ زمانہ خلجیوں اور تغلقوں کا نہیں! یہ چرچل، ڈیگال، لی کوان، مارگریٹ تھیچر اور اینجلا مرکل کا عہد ہے۔ جمہوری دور ہے۔ قائدِاعظم نہرو، پٹیل اور مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر بیٹھتے رہے۔
یہ تو پاکستانی ہیں! مسلمان ہیں!
تحریر کا آغاز ارسطو اور سکندر اعظم سے ہوا تھا۔ ارسطو کی اپنے شاگرد کو نصیحتیں جس کتاب میں مرقوم ہیں اس کا نام سرّالاسرار ہے۔ ارسطو، سکندر کو سمجھانے کے لیے ایک تمثیل سے کام لیتا ہے۔ ایک مجوسی خچر پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ اس کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔ وہیں ایک یہودی پیدل سفر کر رہا تھا، خالی ہاتھ! مجوسی نے یہودی سے اس کا مذہب پوچھا۔ یہودی نے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اس کے لیے غیر یہودی کو قتل کرنا اور اس کا سامان لے لینا جائز ہے۔ اب یہودی نے مجوسی سے یہی سوال کیا۔ مجوسی نے جواب دیا کہ وہ سب کا بھلا چاہتا ہے۔ یہودی نے پوچھا کہ کوئی تمہارے ساتھ ظلم کرے تو تم کیا کرو گے؟ مجوسی نے کہا کہ اوپر ایک خدا ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور انصاف کرتا ہے۔ وہ جزا اور سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ پھر یہودی نے کھانا مانگا اور خچر پر سوار کیے جانے کی درخواست کی۔ مجوسی نے خچر اسے دیا مگر وہ خچر بھگا کر فرار ہو گیا۔ راستے میں خچر نے اسے گرایا اور زخمی کر دیا۔ مجوسی بھی پہنچ گیا۔ وہ اپنے خچر پر سوار ہو کر جانے لگا تو یہودی نے پھر منت کی اور معافی مانگی۔ مجوسی نے اسے ساتھ بٹھا لیا اور شہر پہنچ کر اس کے رشتہ داروں کے ہاں جا کر اتارا۔ کچھ عرصہ بعد یہودی مر گیا۔ بادشاہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو اس نے مجوسی کو اپنا مشیر مقرر کر دیا۔
سبق یہ نہیں کہ یہودی برا تھا۔ سبق یہ ہے کہ خیر، بھلائی، مثبت سوچ اور صلح جوئی کامیابی کی گارنٹی ہے۔