دو بھائی تھے۔ ایک مست ملنگ! مرضی سے کام کرتا۔ جو مل جاتا کھا لیتا۔ فکر نہ فاقہ! کسی کی ماتحتی نہ رعب! دوسرا بھائی سرکار کا ملازم تھا‘ اور شاہ کا مصاحب! مرغن کھانے اڑاتا۔قیمتی لباس پہنتا۔ اس کیلئے اسے کمر پر سنہری پیٹی باندھنا ہوتی اور پہروں بادشاہ کے حضور دست بدستہ کھڑا رہنا ہوتا۔
بھائی کے لیے فکر مندی تو تھی! ایک دن مصاحب بھائی نے آزاد منش بھائی سے کہا: بادشاہ کی نوکری میں کیوں نہیں آ جاتا تا کہ آسودہ حال ہو جائے! اس نے جواب دیا کہ تو میری طرح آزاد کیوں نہیں ہو جاتا تا کہ چاکری کی ذلت سے رہائی پائے‘ اس لیے کہ عقل مندوں نے کہا کہ تلوار سنہری پیٹی سے باندھ کر حضورِ شاہ کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ روکھی سوکھی کھا لی جائے اور آرام سے بیٹھا جائے۔ لوہا کوٹنا، نوکری میں کھڑے رہنے سے بہتر ہے!
مگر آج کل سعدیؔ شیرازی کی یہ کہانی بیکار ٹھہرے گی۔ اب کیریئر بنانے کا زمانہ ہے۔ پی آر ہونی چاہیے۔ اس کیلئے دوڑ دھوپ لازم ہے۔ فہرست ترتیب دی جائے کہ ہفتہ رواں میں کس کس سے ملنا‘ کس کس کو ظہرانے یاعشائیے پر بلانا ہے۔کس کس کے گھر آم کا کریٹ یا قربانی کا گوشت یا مالٹوں کی پیٹی بھجوانی ہے۔ صبح اٹھے، بے اطمینان سا تیز رفتار ناشتہ کیا۔ چائے کے آخری گھونٹ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یا گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے زہر مار کیے۔ یہ سب کچھ زندگی کے لوازمات میں سے ہے۔ آسودہ حالی، ترقی، پروموشن، پی آر، سب ایک عمودی چڑھائی والی زندگی کا حصہ ہے مگر اپنی مرضی سے جینے کا مزہ اور ہی ہے۔ طارق نعیم کا کیا معنی خیز شعر ہے؎
یوں ہی تو کنجِ قناعت میں نہیں بیٹھا ہوں
خسروی، شاہ جہانی مری دیکھی ہوئی ہے!
جس دن کالم لکھنے کی ڈیوٹی نہ ہو اور دوسرے کام بھی جھٹک کر پرے کر دیئے جائیں، اُس دن ایک عجیب بادشاہت کا احساس ہوتا ہے! دوسرے کام کون سے؟ کچھ تراجم شروع کیے ہوئے ہیں۔ ایک دو کتابیں زیر تصنیف و تالیف ہیں۔ ان کا ہوّا بھی سر سے اتار دیا جائے کیونکہ نہ بھی مکمل ہوئے تو دنیا چلتی رہے گی! بندہ آرام سے اٹھے۔ گوبھی والا یا آلو والا پراٹھا، مکھن کے ساتھ کھائے۔ پھر اپنی پسند کی چائے پیے۔ مِکس، کڑھی ہوئی، زیادہ دودھ ڈال کر یا ٹی بیگ والی، ذرا سی دودھ کے ساتھ (اسے کچھ لوگ دھاگے والی، کچھ تعویذ والی اور کچھ گُتھی والی چائے کہتے ہیں)۔ سامنے آئی پیڈ ہو، ساتھ اخبارات کا پلندہ پڑا ہو۔ ہاتھ میں ٹیلی ویژن کا ریموٹ کنٹرول ہو، پشت صوفے کی ٹیک سے لگی ہو یا نیچے دری یا قالین پر کُہنی کے نیچے تکیہ ہو تو اس زندگی پر ٹاک شو میں ہزار شمولیتیں اور صد ہزار پی آر قربان!! ہائے! حافظ شیرازی نے کیا کہا تھا؎
غم غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بہ شہر خود روَم و شہریارِ خود باشم
ہمیشہ پیشۂ من عاشقی و رندی بود
دگر بکوشم و مشغولِ کار خود باشم
مسافرت کا غم بڑھ جائے تو اپنے شہر کو لوٹتا ہوں اور اپنا بادشاہ خود بنتا ہوں۔ بھائی! ہمارا پیشہ تو شروع ہی سے عاشقی اور رندی ہے اور اسی میں مشغول رہنا پسند کریں گے۔ گرما کے اس موسم میں سبک باری کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ لباس وہ زیب تن کیا جائے جس میں بدن کو راحت ملے۔ ململ کے پتلے کرتے اور بنگالی لُنگی سے زیادہ راحت بخش لباس اور کیا ہوگا! اور پھر جب کرتے کو ''ڈیزائن‘‘ بھی خود ہی کیا ہوا ہو۔ گھر والے بازار سے ایک برانڈڈ ٹائپ کرتا لائے تھے۔ سخت گرمی تھی۔ قینچی لے کر اس کی لمبائی بھی کم کی اور بازو بھی۔ پھر گھر کے پاس جو ارزاں ترین درزی تھا اس سے اسی ماپ کے بنوالیے۔ پنجابی میں جسے ہم دھوتی کہتے ہیں اسے بنگال و بہار میں لنگی کہتے ہیں۔ یہ آگے سے سلی ہوئی ہوتی ہے اور شتر بے مہار نہیں ہوتی۔ دو تین سنگاپور سے خریدی تھیں۔ وہ بوڑھی اور بوسیدہ ہو گئیں۔ فیس بک پر اعلان کیا کہ ہے کوئی اللہ کا بندہ جو عازمِ ڈھاکہ ہورہا ہو کہ رقم لے اور خرید لائے۔ فوراً دبئی سے عزیزی طاہر بندیشہ کہ سینکڑوں کالموں کا غواص ہے‘ مدد کو پہنچا ۔ اس کے ''مریدوں‘‘ میں خاصی تعداد بنگلہ دیشیوں کی ہے؛ چنانچہ وہاں سے لنگیاں براستہ دبئی موصول ہو گئیں۔ نواسی ایک دن پوچھ رہی تھی یہ کیوں پہنتے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہے؟ اسے بتایا کہ بنگال و بہار کے علاوہ تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، برونائی میں یہی پہنتے ہیں۔ جب اسے بتایا کہ برما میں یہ قومی لباس ہے اور دفاتر میں پہنا جاتا ہے تو اس نے اسی طرح منہ بنایا جیسے خراب موڈ میں اس کی نانو بناتی ہیں!
اس بے فکر زندگی کو چار چاند اُس وقت لگے جب گزشتہ ہفتے عزیزم حبیب مرزا نے نیا طبع شدہ ناول ''اور ڈان بہتا رہا‘‘ بھیجا۔ روسی ناول، دنیا بھر کے ناولوں کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ اور یہ ناول میرے خیال میں بورس پاسترناک کے'' ڈاکٹر ژواگو ‘‘اور سولشرے نٹسن کے'' کینسر وارڈ‘‘ کے بعد نمایاں ترین ہے۔ شولوخوف کے اس شہرۂ آفاق ناول کا ترجمہ مخمور جالندھری نے کیا ہے۔ مخمور جالندھری کا اصل نام سردار گورنجش سنگھ تھا۔ 1953ء میں بارہ مولہ میں پیدا ہوئے۔ بہت بڑے نثر نگار تھے اور اس سے بھی بڑے مترجم۔ ٹالسٹانی کے ''وار اینڈ پیس‘‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ شاعر بھی تھے۔ غیر مسلم ہونے کے باوجود نعتیں لکھیں اور وفورِ محبت سے لکھیں۔
خیر'' اور ڈان بہتا رہا‘‘ ملا تو سارے مشاغل ایک طرف رکھ دیئے۔ فراغتے و کتاب و گوشۂ چمنے والا حال ہے! میز پر شمار کیں تو دس گیارہ کتابیں مطالعے کی منتظر ہیں جن کی باری اب اس ضخیم ناول کے بعد ہی آئے گی۔ قارئین اکثر پوچھتے ہیں کہ کیا پڑھا جائے، ہر شخص کا اپنا ذوق ہے۔ جس طرح جوتا اور قمیض اپنے اپنے سائز کی پہنی جاتی ہے، اسی طرح کتاب بینی کا ذوق بھی ہر پڑھاکو کا اپنا ہے۔ کالم نگار کی میز پر مطالعہ کی منتظر کتابوں میں ولیم ڈال رمپل کی تازہ ترین تصنیف ایسٹ انڈیا کمپنی (انارکی) ہے۔ پھر ہمارے بزرگ صحافی جناب منیر احمد منیر کی تالیف ''حاجی حبیب الرحمن کا انٹرویو‘‘ ہے جو ایک ہزار سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے اور پاکستان کی عصری تاریخ ہے! سشی تھرور کی ''وائے آئی ایم اے ہندو؟‘‘ ہے۔ تھرور نے اس سے پہلے بھی ایک معرکہ آرا کتاب ''اِیرا آف ڈارک نیس‘‘ لکھی ہے‘ جس میں بتایا ہے کہ انگریزی عہد نے برِّصغیر کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم پہنچایا ہے۔ اس سے مجھے اتفاق اور عزیزی یاسر پیرزادہ کو شدید اختلاف ہے!
پھر جان سلائٹ کی ''برٹش ایمپائر اینڈ حج‘‘ ہے۔ راجر کرائولی نے آخری صلیبی جنگ کا حال لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ مملوکوں نے عکّا کا شہر 1291ء میں کیسے فتح کیا تھا۔ اب یہ شہر اسرائیل کے پاس ہے۔ شیرلٹ برونٹی کی سوانح بھی ابھی پڑھنا ہے۔ کرسٹوف پکارڈ کی Sea of Caliphs مطالعہ کی منتظر ہے۔ یہ بحرِ روم کی یوں سمجھیے مسلم ہسٹری ہے۔ جسٹن ماروزی نے پندرہ بڑے شہروں کی تاریخ قلم بند کی ہے۔
مکہ، دمشق، بغداد، قرطبہ، یروشلم، قاہرہ، فاس، سمرقند، قسطنطنیہ، کابل، اصفہان، طرابلس، بیروت، دبئی اور دوحہ ان میں شامل ہیں۔ ایک خاتون سیلینا او‘گریڈی نے ایک اچھوتے موضوع پر کتاب تصنیف کی ہے۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کی عدم برداشت کی تاریخ۔ اس کتاب کا نام اس نے ''اِن دی نیم آف گاڈ‘‘ رکھا ہے۔ دلچسپ ترین کتاب کِم ویگنر کی ہے جس کا عنوان ہے ''عالم بیگ کی کھوپڑی‘‘۔ یہ اُس کھوپڑی کی کہانی ہے جو 1963ء میں برطانیہ کے ایک پب میں پائی گئی۔ یہ عالم بیگ کی تھی جو سیالکوٹ سے تھا اور 1857ء کی جنگ آزادی کا مجاہد تھا۔ یہ کھوپڑی برطانیہ کیسے پہنچی، اور مصنف نے سیالکوٹ اور لاہور کے سفر اس تحقیق میں کیوں کر کیے، یہ داستان ابھی پڑھنی ہے۔