تاریخ کیسی کیسی شکلیں بدلتی ہے۔ کبھی یہ ہوتا تھا کہ ایک طرف ہمایوں لشکر لیے کابل سے روانہ ہوا، دوسری طرف بیرم خان لشکر لیے قندھار سے چلا اور پنجاب میں دونوں لشکر اکٹھے ہو کر دہلی کی جانب بڑھے۔ اب یہ ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی لشکر بلاول کی قیادت میں لالہ موسیٰ سے چلا، مریم اپنے حامیوں کے ساتھ لاہور سے روانہ ہوئیں، ایک اور سیاسی سپاہ لاہور ہی سے مارچ کرتی ہوئی آئی جس کی رہنمائی مولانا فضل الرحمن کر رہے تھے۔ یہ سب گوجرانوالہ میں ایک دوسرے سے آ ملے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسی وقت گھمسان کا رن پڑتا تھا۔ کشتوں کے پشتے لگتے تھے اور فیصلہ چندگھنٹوں میں ہو جاتا تھا۔ پانی پت کی تینوں لڑائیوں میں فیصلہ ایک دن ہی میں ہو گیا تھا۔ دو میں مغل جیتے‘ اور تیسری میں ابدالی! اب معاملہ سیاسی جنگوں کا ہے۔ یہ مقابلہ لمبا ہوتا ہے اور صبر آزما بھی! اس میں سیاسی حمایت بھی کردار ادا کرتی ہے اور لیڈروں کے اعصاب بھی۔ اس کے بعد یہ سیاسی میدان کراچی میں سجا ہے اور اب دوسرے شہروں میں بھی سجے گا۔ گیارہ مختلف الخیال جماعتوں کو ایک مشترکہ دشمن نے باہم اکٹھا کر دیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا، مگر حکومت نے اس مشکل کام کو سہل کر دیا۔
تاریخ میں ایسا کم ہی ہوا ہو گا! تحریک انصاف کی حکومت جس سرعت کے ساتھ غیر مقبول ہوئی ہے، حیران کن ہے۔ سب سے بڑی دلیل عمران خان کی حمایت میں یہ تھی کہ اس آپشن کو آزمایا جائے۔ یہ کالم نگار بھی یہی دلیل دیتا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو دیکھ چکے ہیں! اب اس مدعی کو بھی آزمانا چاہیے؛ چنانچہ آزمایا! اور اب برہنہ حقیقت یہ ہے کہ آزمائش میں یہ آپشن بری طرح ناکام ہوا! اتنی بری طرح کہ ماضی کی سب ناکام حکومتوں کو پیچھے چھوڑ گیا!! مہنگائی تو صرف ایک عامل ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ مہنگائی ہے جس نے عام آدمی کو اس حکومت سے متنفر کیا ہے مگر ہم جیسے طالب علموں کے مایوس ہونے کی وجوہ اور بھی ہیں۔
ہم جیسے طالب علموں نے اس ملک کے لیے میرٹ اور اصول پسندی کے خواب دیکھے تھے۔ ہم دیکھتے تھے کہ کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت اقربا پروری کرتی ہے تو کبھی شریف خاندان دوست نوازی کی حد کر دیتا ہے۔ کبھی ڈاکٹر عاصم پیش منظر پر چھائے ہوئے ہوتے تو کبھی خواجہ ظہیر ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی کے سرپرست بن کر وزیر اعظم آفس میں نظر آتے۔ پولیس ان حکومتوں کی کنیز تھی اور کچہریاں اور تحصیل داروں کے دفاتر رشوت کے گڑھ۔ ایسے میں عمران خان صاحب کے وعدوں اور، ان کے مبینہ عزائم نے لبھایا۔ ہم سمجھے ہمارا خواب تعبیر لے کر آ پہنچا ہے۔ اب ہمارے قارئین بگڑ کر ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ آپ نے اس وقت اعتبار کیوں کیا؟ آپ کی عقل کہاں گئی تھی؟ مگر اس کا کیا کیجیے کہ اعتبار تو جسٹس وجیہ الدین، تسنیم نورانی اور حامد خان جیسے زیرک لوگ بھی کر بیٹھے تھے۔ ہما شما کس کھیت کی مولی ہیں!
تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کچھ عرصہ بعد ہی دھچکے لگنا شروع ہو گئے۔ بزدار صاحب کا انتخاب، ناصر درانی کی پُر اسرار رخصتی، پاک پتن کے سینئر پولیس افسر کی وزیر اعلیٰ کے سامنے پیشی‘ جس میں وزیر اعلیٰ خاموش رہے اور گفت و شنید کسی اور نے کی، پھر ڈاکٹر عشرت حسین کو سروس ریفارمز کا کام سونپا جانا، پھر درجن سے زیادہ معاون ہائے خصوصی کی تعیناتیاں‘ جن میں دوست بھی شامل تھے۔ پھر چلتے ہوئے منصوبوں کو روک دینا، فنڈ واپس لے لینا، آئی ایم ایف کے سامنے مکمل ہتھیار ڈال دینا، انہی کے ملازم کو گورنر سٹیٹ بینک لگانا، یہ سب ایسے اقدامات تھے جنہیں ہضم کرنا، آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے مترادف تھا۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ ان انتہائی مایوس کن اقدامات کی حکومت نے کبھی کوئی توجیہ پیش نہ کی کہ چلیے یہی معلوم ہو جاتا کہ کسی کو فکر تو ہے۔ مگر مکمل بے نیازی کا عالم رہا اور ہے! بلکہ وزیر اعلیٰ کی قابلیت پر اصرار کیا جاتا رہا۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم اپنے سابقہ بیانات کے بالکل الٹ چلنا شروع ہو گئے۔ بجلی کے بل میں جو ہر شہری سے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے 35 روپے چھینے جاتے ہیں، انہوں نے اس پر شدید تنقید کی تھی اور پی ٹی وی کے سربراہ کو للکارا تھا، مگر اقتدار میں آ کر نہ صرف اس بات کو بھول گئے بلکہ اسے سو روپے تک لے جانے کی باقاعدہ کوشش ہوئی جو عوام اور میڈیا کے شدید احتجاج پر تاحال، معلق پڑی ہے۔ اسی طرح دوہری شہریت کے معاملے میں ان کا نیا موقف ایک حیرت انگیز یو ٹرن تھا۔ پھر ایک سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ اگر غلط اعداد و شمار چینی کی برآمد کا سبب بنے تو اس غلط بیانی کی ذمہ داری کس پر فکس کی گئی؟ کیوں نہیں کی گئی؟ چینی، آٹے اور ادویات کی قیمتوں میں جانکاہ اضافہ کوئی معمولی بات ہے کہ محض نوٹس لینے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟
ہر بات کا ایک ہی جواب کہ یہ پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے، عوام کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں جس طرح شیخ رشید اور مراد سعید صاحبان تشویش کا اظہار کرتے ہیں، باقی ارکان بھی کرتے تو شاید صورت حال اس قدر مختلف نہ ہوتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وزرا کا یس سر‘ یس سر یعنی آمنّا و صدّقنا والا رویہ صرف آج کی بات نہیں، یہی رویہ ماضی کی حکومتوں میں بھی رہا ہے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی حکومت میں کسی وزیر نے اپنے باس سے اختلاف کیا ہو اور ڈٹ کر کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں پر شخصی گرفت ہے۔ یوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ اختلاف کرنے والے اِس جماعت سے بھی نکل گئے یا نکال دئیے گئے۔ سپردگی اور مکمل اطاعت کا یہ عالم ہے کہ کسی ایک وزیر نے بھی نہیں کہا کہ جناب وزیر اعظم! آپ مجھ پر، یا میری وزارت پر، معاون خصوصی کیوں مسلط کر رہے ہیں؟ کیا میری اہلیت پر آپ کو شک ہے؟ یا میری وزارت کے انچارج فیڈرل سیکرٹری کی قابلیت مشکوک ہے؟
حکومت کو چاہیے کہ بر انگیختہ نہ ہو اور اشتعال میں نہ آئے۔ اس کے بجائے بیٹھ کر ٹھنڈے دماغ سے سوچے، غور کرے اور اپنی پالیسیوں کا بے لاگ تجزیہ کرے۔ کامیابی غلطیاں تسلیم کرنے سے ملتی ہے اس لیے کہ غلطی تسلیم کرنے کے بعد ہی اصلاح کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ ہماری ناقص رائے میں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے سے حکومت ہوا کا رخ بدل سکتی ہے۔
1۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹری پر کسی لائق اور تجربہ کار سیاست دان کی تعیناتی اور ریموٹ کنٹرول کے استعمال کا خاتمہ۔
2۔ پولیس میں سیاسی مداخلت کا مکمل خاتمہ اور ناصر درانی کی واپسی۔
3۔ غیر منتخب افراد کا وفاقی کابینہ سے اخراج۔
4۔ دوستوں کی کاروبارِ حکومت سے مکمل لا تعلقی۔
5۔ جو منصوبے گزشتہ حکومت نے شروع کر رکھے تھے ان کی تکمیل اور فنڈز کا اجرا۔
6۔ چینی اور گندم بحران کے حوالے سے جو افراد قصوروار ہیں انہیں عبرت ناک سزائیں۔
7۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں افراط زر کے تناسب سے اطمینان بخش اضافہ۔
8۔ کچہریوں میں رشوت کے خاتمے کے لیے موثر اور انقلابی اقدامات۔
9۔ ملک کی تمام شاہراہوں پر موٹر وے ٹریفک سسٹم کا اطلاق۔
اور سب سے زیادہ ضروری یہ کہ جناب وزیر اعظم سیاسی مخالفین کا نام لے لے کر ہر روز ان کا تذکرہ نہ کریں۔ اس سے انکا وقار مجروح ہوتا ہے۔ وہ این آر او ہرگز نہ دیں‘ مگر ہر روز یہ کہنا بند کردیں کہ این آر او نہیں دوں گا۔
مَن کَتَمَ سِرَّہ، بَلَغَ مُرادہ۔ جس نے اپنا راز چھپایا، کامیاب ہوا۔