اس نے لبنان چھوڑا اور 2002ء میں جرمنی پہنچ گیا۔ اس وقت اس کی عمر بائیس برس تھی۔
اس نے میڈیکل میں داخلہ لے لیا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد وہ لبنان واپس نہ آیا‘ وہیں، جرمنی ہی کے ایک کلینک میں ملازمت شروع کر دی۔ 2012ء میں اسے جرمنی آئے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ اس نے جرمنی کی شہریت کے لیے درخواست دائر کر دی۔ اگلے آٹھ سال مختلف مراحل طے کرنے میں گزر گئے۔ تمام مغربی ملکوں کی طرح جرمنی کی شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی طویل عرصہ درکار ہے۔ کئی قسم کے ٹیسٹ ہوئے۔ ان ٹیسٹوں میں اس نے خاصے اچھے نمبر لیے۔ پھر جرمنی کے ساتھ وفا داری نبھانے کے حلف پر دستخط کیے۔ لکھ کر دیا کہ وہ انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، جب تمام مراحل طے ہو جاتے ہیں تو شہریت دینے کی ایک رسمی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس میں درخواست دہندگان کو اکٹھا بلا لیا جاتا ہے۔ اب ان سے زبانی حلف لیا جاتا ہے۔ سب اپنی اپنی مذہبی کتاب پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھاتے ہیں کہ اپنے نئے ملک کے وفا دار رہیں گے۔ اس کے آئین اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جنگ میں بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ اس کی ثقافت، رسم و رواج وغیرہ کا احترام کریں گے؛ چنانچہ ایسی ہی ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ اسے بھی بلایا گیا کیونکہ اسے بھی شہریت ملنا تھی۔ اس نے باقی سب لوگوں کے ساتھ، آواز میں آواز ملا کر، وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اب وہ ایک جرمن شہری تھا۔ بس اب ایک رسم رہ گئی تھی اور وہ تھی اسے شہریت کا سرٹیفکیٹ دینے کی۔ جس کا نام پکارا جاتا، سٹیج پر جاتا، خاتون افسر سے ہاتھ ملاتا اور سرٹیفکیٹ حاصل کرتا۔ اس کا نام پکارا گیا۔ وہ سٹیج پر پہنچا۔ خاتون افسر نے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا‘ مگر اس نے ہاتھ ملانے سے انکار دیا۔ خاتون افسر نے، جواباً سرٹیفکیٹ اسے نہ دیا اور اس کی شہریت کی درخواست رد کر دی۔ وجہ ہاتھ نہ ملانے کی لبنانی ڈاکٹر نے یہ بتائی کہ بیوی سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ کسی عورت سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔
اس نے عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ اپیل میں ڈاکٹر نے یہ کہا کہ وہ تو کسی مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملائے گا، گزشتہ ہفتے، جمعہ کے دن، یہ اپیل نا منظور کر دی گئی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہاتھ ملانا صدیوں پرانی روایت ہے۔ ملتے وقت اور جدا ہوتے وقت ہاتھ ملایا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ ہاتھ ملانے کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ فریقین نے معاہدہ قبول کر لیا ہے۔ خاتون افسر نے سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے ہاتھ ملانا چاہا تو اس کا یہی مطلب تھا۔ اس میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونے کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ عدالت نے یہ بھی لکھا کہ عورت سے ہاتھ ملانے سے انکار، مساوات کے اُس تصور کی خلاف ورزی ہے جو جرمنی کے آئین میں درج ہے اور یہ جو اپیل کنندہ اب کہہ رہا ہے کہ وہ مرد و زن کی برابری پر یقین رکھتا ہے اور یہ کہ کسی مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملائے گا تو یہ محض ایک حربہ اور چال ہے۔
لبنانی ڈاکٹر عدالت کے اس فیصلے کے خلاف جرمنی کی سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔ اپیل منظور ہو گی یا زیریں عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا جائے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ مغربی ملکوں میں مستقل قیام کے خواہش مند بہت سے مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ذہن میں، خواہ وہ اوسط درجے ہی کا کیوں نہ ہو، کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ان سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ ڈاکٹر نے جب شہریت کی درخواست دی تو اسے جرمنی میں رہتے ہوئے دس سال ہو چکے تھے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ جرمنی کا کلچر کیا ہے۔ اگر اسے یہ کلچر نا منظور تھا تو اس کے باوجود اس نے یہاں کی شہریت کے لیے درخواست کیوں دی؟
2۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کسی بھی عرب ملک میں آسانی کے ساتھ اچھی ملازمت حاصل کر سکتا تھا۔ مراکش سے لے کر مصر تک اور سعودیہ سے لے کر یو اے ای تک، ڈاکٹروں کی بہت ڈیمانڈ ہے اور ایک وسیع مارکیٹ۔ یہاں اس نے ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟
3۔ اگر وہ اپنے نظریات پر اتنا ہی پختہ تھا تو اپیل میں موقف بدل کر ایسی کچی باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ میں مرد سے بھی ہاتھ نہیں ملاؤں گا؟ حیلوں بہانوں سے کام نکلا‘ نہ وقار رہا۔ کیا مناسب یہ نہ تھا کہ سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا تو اپنے موقف پر ڈٹ جاتا یا پھر جرمنی کو خیر باد ہی کہہ دیتا؟
نہیں معلوم ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ مگر اس لبنانی مسلمان ڈاکٹر سے زیادہ ثابت قدم تو آئرلینڈ کا شخص نکلا جس کا نام بلی اوشی ہے۔ اس نے ڈنمارک میں 37 سال رہنے کے بعد شہریت کی درخواست دی۔ یہاں بھی تقریب میں کوپن ہیگن کے میئر کے ساتھ ہاتھ ملانا لازمی تھا۔ بلی اوشی نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا اور پھر اپنے موقف پر ڈٹ گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں مرد و زن سب سے ہاتھ ملاتا ہوں مگر آپ مجھے ہاتھ ملانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ میری آزادی پر حملہ ہے۔ اس نے عدالتوں میں اور پھر پارلیمانی کمیٹی میں بھی یہی موقف اختیار کیا اور ببانگ دہل کہا کہ یہ قانون غلط ہے۔ ہم مسلمان عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ آٹا بھی گوندھنا ہے اور ہِلنا بھی نہیں! ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور کئی دوسرے یورپی ملکوں نے اپنی پالیسیوں کا واضح اعلان کیا ہوا ہے۔ ایک کٹر مسلمان کے نقطہ نظر سے یہ معاشرے رہنے کے قابل نہیں‘ مگر ہم لوگ ان معاشروں کے فوائد حاصل کرنے کے لیے وہاں رہنے پر بضد ہیں۔ یہ فوائد، جن میں ملازمت، سیاسی آزادی، بنیادی حقوق کی گارنٹی، اعلیٰ مناصب پر پہنچنے کے مواقع اور وسیع کاروبار کے امکانات شامل ہیں، پچپن مسلمان ملکوں میں سے کسی ایک ملک میں بھی حاصل نہیں۔ ہم اپنے ملکوں کو یورپی ممالک کی سطح پر لانے کی کوشش تو کرتے نہیں۔ ہاں ساری صلاحیتیں مغربی ملکوں میں آباد ہونے کی جدوجہد پر صرف کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ ممالک مسلمانوں کے لیے شہریت کی شرائط سخت سے سخت تر کرتے جا رہے ہیں۔ جرمنی ہی کی ایک جنوبی ریاست نے مسلمانوں کے لیے تیس سوالوں پر مشتمل ایک خاص مرحلہ لازمی قرار دیا ہے جس سے شہریت کے امیدواروں کو گزرنا ہو گا۔ اس میں ہم جنسیت سے لے کر زبردستی کی شادی تک، کئی قسم کے سوال پوچھے جائیں گے۔ ریاست کی وزارت داخلہ کا موقف یہ ہے کہ صرف ان مسلمانوں کو شہریت دی جائے گی جو جرمنی کی اقدار کو دل سے قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
جرمنی ہی کے شہر فریل برگ میں واقع اسلامی مرکز میں دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے ناظم عبدالحکیم آرغی صاحب کا کہنا ہے کہ عورتوں سے ہاتھ نہ ملانے کا کوئی مذہبی جواز موجود نہیں۔ قرآن پاک میں، بقول ان کے، اجنبی عورتوں سے ہاتھ ملانے کی ممانعت کا کہیں ذکر نہیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو مغرب میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ مگر اس رائے سے ہم سب کا متفق ہونا مشکل ہو گا۔ ان جھمیلوں میں پڑنے سے بہتر ہے کہ ہم سہولتوں کے اعتبار سے اپنے ملکوں کو مغربی ملکوں کے معیار پر لائیں اور وہاں جا کر تنازع کھڑے کرنے کے بجائے اپنے ہی معاشروں میں زندگی گزاریں۔