یہ کسی دیسی ریاست کا واقعہ ہے۔ انگریز کا زمانہ تھا۔ 565 ''آزاد‘‘ ریاستیں تھیں۔ ریاست کا سربراہ‘ راجہ یا مہاراجہ یا نواب‘ سلطنت انگلشیہ کا وفادار اور اس کی پالیسیوں کا پابند رہتا تھا۔ سفید فام حکمران بہت سیانے تھے۔ اندرونی معاملات میں عام طور پر مداخلت نہیں کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک ریاست کا واقعہ ہے۔ پٹیالہ کا یا گوالیار کا یا شاید بڑودہ کا ! مہاراجہ کو بتایا گیا کہ ریاست کا چیف انجینئر چھٹی پر چلا گیا ہے۔ایک ڈاکٹر فارغ بیٹھا تھا‘مہاراجہ نے چیف انجینئر کے منصب پر اُس کی تعیناتی کا حکم دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد چیف انجینئر چھٹی سے واپس آیا تو جج کی پوسٹ خالی تھی۔ چیف انجینئر کو جج لگا دیا۔ غرض ریاست وسائل کی غلط تقسیم (Resource mis-allocation)کا نمونہ تھی۔ گھوڑے کا کام بیل سے لیا جاتا اور بیل کا اونٹ سے۔ یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ ہمارے ہاں بھی تقریباً یہی کچھ ہورہا ہے۔ تازہ ترین مثال اس غلط بخشی کی یہ ہے کہ پے اینڈ پنشن کمیشن کی چیئر پرسن ایک ایسی ریٹائرڈ افسر کو لگایا گیا ہے جن کا مالیات اور حسابات کے میدان میں کوئی تجربہ نہیں۔اس کام کے لیے وزارت ِخزانہ کا تجربہ لازم ہے۔ پے کمیشن کا کام ٹیکنیکل ہے اور بے حد پیچیدہ ! اس کے لیے صرف ریٹائرڈ افسر ہونا کافی نہیں‘ مالیات اور بجٹ کے تجربے کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مریض دیکھنے کے لیے ڈاکٹر ی کا علم رکھنا۔
موجودہ پے اینڈ پنشن کمیشن اس سال اپریل میں تشکیل دیا گیا۔ سابق وفاقی سیکرٹری ( خزانہ ) عبد الواجد رانا کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا‘مگر چار ماہ بعد انہوں نے '' ذاتی مصروفیات‘‘ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ چار ماہ مزید گزر گئے۔ اب ایک ریٹائرڈ خاتون بیورو کریٹ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ کمیشن کے ذمہ وفاقی‘ صوبائی اور عسکری تنخواہوں اور پنشنوں کے پورے ڈھانچے کا تنقیدی جائزہ لینا‘ عدم مساوات کو دور کرنا اور ایک جدیدحقیقت پسندانہ سٹرکچر قائم کرنے کی سفارش کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ کمیشن کو اس کام کے لیے چھ ماہ دیے گئے تھے‘مگر آٹھ ماہ ہو گئے ہیں اور ابھی تک کمیشن کا ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا۔ بقول منیر نیازی ع
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
کمیشن کے سابق چیئر مین کے ساتھ ہی سندھ کی نمائندگی کرنے والے ممبر نے بھی کمیشن کو خیر باد کہہ دیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی ممبر بھی گورنمنٹ فنانس اور حسابات کا تجربہ نہیں رکھتا۔ ارکان میں دو بینکار شامل ہیں مگر بینکوں کے نظام اور سرکاری شعبے کی تنخواہوں اور پنشن کے نظام میں اتنا ہی فرق ہے جتنا جزیرے اور سمندر میں ہوتا ہے۔ نجی شعبے کے بینکوں میں ملازمین کو پنشن دی ہی نہیں جاتی۔ تنخواہوں کا ڈھانچہ بھی یکسر مختلف ہے۔
عربی کا محاورہ ہے لِکْلِّ عَمَلِِ رِجاَل، ہر شعبے کے لیے الگ الگ لوگ ہوتے ہیں۔الحمد للہ ہمارے ہاں مالیات کے ماہرین کا فقدان نہیں۔ پے اینڈ پنشن کمیشن کی سربراہی کے لیے سابق آڈیٹر جنرل جناب منظور حسین سے بہتر کوئی انتخاب نہیں ہو سکتا۔ وہ سالہا سال وزارت خزانہ میں بھی خدمات انجام دیتے رہے اور ملکی بجٹ کی تشکیل میں براہ راست حصہ لیتے رہے۔ چوہدی محمد الیاس سول اور عسکری دونوں قسم کے مالیات اور حسابات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی شہرت کے مالک اور اقتصادیات اور مالیات پر کئی کتابوں کے مصنف اکرم خان ہیں جو اقوام متحدہ میں مشرقی تیمور‘ سوڈان اور دیگر ملکوں میں پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتے رہے۔ سابق وفاقی سیکرٹری سید بلال احمد کئی پے کمیشنوں کے ممبر رہے اور وزارتِ خزانہ میں پے کمیشن کے ٹیکنیکل کام میں براہ راست دخیل رہے۔ احمد وقار سیکرٹری فنانس رہے‘ ایف بی آر کے بھی چیئرمین رہے۔ فرخ قیوم برسوں وزارت خزانہ میں رہے۔ وہیں سیکرٹری ہوئے۔ رانا اسد امین وزارت خزانہ کی ایک ایک پیچیدگی سے آشنا ہیں۔ وزارت خزانہ کے ایڈوائزر رہے‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان رہے۔ زاہد سعید عسکری مالیات اور حسابات کے سربراہ رہے۔ یہ سب افراد‘ اور کچھ اور بھی‘ کسی سیاسی وابستگی کے بغیر‘ صرف اور صرف اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر‘ صلے اور ستائش کی تمنا کے بغیر‘ برسوں حکومتی مالیات کا کام سنبھالے رہے۔یہ وہ ماہرین ہیں جو سرکاری تنخواہوں اور پنشن کے فلسفے‘ طریق کار‘ ڈھانچے‘ خامیوں اور تضادات کی ایک ایک پیچیدگی سے آشنا ہیں اور سرکاری خزانے کی حدود و قیود سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ ان کی زندگیاں اسی صحرا میں چلتے گزریں۔ انہیں سرابوں کا بھی علم ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ نخلستان کہاں کہاں ہیں ! ہماری حکومتوں کے ساتھ مسئلہ یہ رہا ہے اور آج بھی ہے کہ سول سروس کے ایک مخصوص حصے کے سوا باقی حصوں سے آگاہ ہی نہیں۔ ضلعی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے سول سرونٹس کو ہر درد کے لیے امرت دھارا جانا جاتا رہا۔ نہلے پر دہلا یہ ہواکہ یہی گروہ حکمرانوں کے یمین و یسار اور عقب اور جلو میں پایا جاتا ہے اور سول سروس کے باقی تمام شعبوں اور گروپس کو عمداً نشیب میں رکھا جاتا ہے تا کہ ماہرین پر حکمرانوں کی نظر ہی نہ پڑے۔ یوں سول سروسز کی تکنیکی تفصیلات سے بے خبر حکومتیں ایک محدود دائرے( Vicious circle)میں پھنس کر رہ جاتی ہیں۔ رجالِ کار حکومت کی نگاہوں سے اوجھل کر دیے جاتے ہیں۔ نقصان پوری حکومتی مشینری کا ہوتا ہے۔ ایک مسافر ایک سرائے میں اترا۔ سرائے کے مالک کو کچھ رقم دے کر کہا کہ ایک ہی چیز لے کر آؤ مگر ایسی ہو کہ میں اسے کھا کر بھوک مٹاؤں‘ اُسی کو پی کر پیاس بجھاؤں اور میرے گھوڑے کے لیے بھی وہی خوراک کا کام دے۔ سرائے والا تربوز لے آیا کہ گودا کھا کر بھوک کا علاج کرو‘ اس کا پانی پی کر پیاس کا مداوا کرو اور اس کے چھلکے گھوڑے کو کھلا دو۔ سول سروس کے اس مخصوص گروہ کو وہ کام دے کر‘ جس کا اسے علم ہے نہ تجربہ‘ اس گروہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا رہا‘ تربوز کی طرح ہر جا و بیجا کام انہیں سونپ دیا جاتا ہے۔
پے اینڈ پنشن کمیشن کے سامنے دو بڑے کام ہیں اور دونوں عمودی پہاڑ پر چڑھنے کے مترادف ہیں۔ پہلا‘ افراطِ زر کے حوالے سے ایک خود کار نظام قائم کرنا جس میں ہر سال تنخواہیں‘ مہنگائی کے حساب سے خود بخود بڑھتی رہیں۔ انڈیا میں یہی نظام رائج ہے۔ 2014 ء میں وہاں ساتواں پے کمیشن بنا۔ اس کے بعد کوئی کمیشن نہیں بنا یا گیا۔ ہر سال تنخواہیں‘ قیمتوں کے انڈیکس کے حساب سے‘ خودکار طریقے کے تحت بڑھا دی جاتی ہیں۔ دوسرا بڑا کام مختلف محکموں کے درمیان تنخواہوں کے بلا جواز فرق کا خاتمہ ہے۔ اس وقت کہیں تنخواہیں ڈبل ہیں‘ کہیں الاؤنس کے نام پر نوازا جا رہا ہے‘ کہیں ایم پی ون اور ایم پی ٹو کے پردے میں روپوں کی بارش برسائی جا رہی ہے‘ حالانکہ سب چوبیس گھنٹوں کے ملازم ہیں‘ چھبیس گھنٹے کوئی بھی نہیں کام کرتا۔ تنخواہوں کا تفاوت سرکاری ملازمین میں مایوسی پیدا کرتا ہے۔ دلوں کو مجروح کرتا ہے۔ اس سے کارکردگی کم ہوتی ہے۔ محنت کرنے کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے۔ رشک اور حسد کے بیج نفرتوں کی فصل اُگاتے ہیں۔ حکومتوں کی اپنی بقا اس میں ہے کہ سب ملازمین کے لیے یکساں سکیل ہوں۔الاؤنسوں کی آڑ میں نا انصافی نہ برتی جائے پھر تنخواہیں بھی حقیقت پسندانہ ہوں کہ قرض مانگنا پڑے نہ رشوت کی طرف قدم اٹھیں۔ ہاں ! کارکردگی جانچنے کے لیے بے شک کڑا معیار رکھئے۔ نا اہل اور بد دیانت کو نشان عبرت بنائیے۔