صوفی تبسم کو نہیں دیکھا۔ان کی سوانح بھی نظر سے نہیں گزری۔ کشور ناہید بتاتی ہیں کہ صوفی صاحب کی پوتی نے ان پر کوئی کتاب لکھی ہے۔ مصنفہ کا نام معلوم ہے نہ کتاب کا۔ صوفی صاحب ایک لیجنڈ تھے۔ اردو ادب کا کون ایسا دلدادہ ہو گا جس نے اس شعر پر سر نہ دھنا ہو ؎
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
صوفی صاحب کا ایک عظیم الشان کارنامہ ان کی وہ نظمیں ہیں جو انہوں نے بچوں کیلئے لکھیں۔ٹوٹ بٹوٹ کا جو کیریکٹر انہوں نے تخلیق کیا اور پھر اس حوالے سے جو شاعری کی اس کی شاید ہی کوئی مثال کسی اورزبان میں موجود ہو۔ ٹوٹ بٹوٹ کی زندگی کے مختلف پہلو جو شاعر نے دکھائے ہیں ‘ بچوں کیلئے مزیدار تو ہیں ہی‘ بڑوں کو بھی آئینہ دکھاتے ہیں۔ اس کتاب کی شرح میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ افسوس! ادب کے نام نہاد‘ یک چشم نقاد اس سے غافل رہے۔ اب تو یہ کتاب بازار میں دستیاب ہے‘ جس وقت اس کالم نگار کے بچے چھوٹے تھے ‘ یہ نایاب تھی۔ کوئٹہ کی ایک بُک شاپ سے‘ جس کا نام یاد نہیں‘ ایک نسخہ اتفاق سے ملا تو گویا لاٹری نکل آئی۔ یہ‘ ہر عمر کے '' بچوں ‘‘ کیلئے یکساں پُر کشش ہے۔ ان '' بچوں ‘‘ میں جوان اور بوڑھے سب شامل ہیں۔
ان سدا بہار نظموں میں سے ایک نظم میں مُنے کی اماں انڈا ابالنے کیلئے انڈا ہنڈیا میں ڈالتی ہے۔ پھر جب انڈا نکالنے کیلئے ڈھکنا اٹھاتی ہے تو انڈا غائب ہوتا ہے۔ بدقسمتی اسی پر بس نہیں کرتی ‘ چمچا بھی ٹیڑھا ملتا ہے اور تھالی بھی اوندھی ہوتی ہے۔ اُس شام گھر میں کوئی بھی نہیں کھانا کھاتا۔سب دل کھول کر روتے ہیں اور انجامِ کار بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔اس سارے المیے کی وجہ صوفی صاحب اسی نظم میں بتا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ قسمت کھوٹی تھی!
اپنے آپ کو اور اپنے جیسے کئی اور قانون پسند آئیڈیلسٹوں کی خاک ہوتی امیدوں کو دیکھ کر دھیان اس نظم کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہم نے جاگیرداروں کے خلاف لکھا‘ وڈیروں کی بُرائیاں کیں۔صنعتکاروں کو استحصال کے طعنے دیے۔ مڈل کلاس کا نعرہ لگایا۔ ہم نے کئی سال‘ تواتر کے ساتھ لکھا کہ ملک میں جتنی بدحالی ہے ‘ جتنا ظلم ہے‘ جتنی ناانصافی ہے‘ وہ سب اس لیے ہے کہ ہمیشہ اَپرکلاس کی حکومت رہتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ہوں یا منتخب ادارے‘ وزارتیں ہوں یا دیگر مراعات یافتہ مناصب‘ ہر طرف اُمرا ہی نظر آتے ہیں۔ قوم کودرپیش مسائل کا حل ہمارے نزدیک یہ تھا کہ مڈل کلاس سیاست میں در آئے ‘ اسے اقتدار ملے تاکہ استحصالی طبقات سے نجات مل سکے؛ چنانچہ جب الطاف حسین نے مڈل کلاس پر مشتمل نئی سیاسی جماعت کا ڈول ڈالا تو ہم خوش ہوئے کہ اب تعلیم یافتہ لوگ اوپر آکر سارا نقشہ بدل دیں گے۔ میرٹ کا بول بالا ہو گا۔قانون کی حکمرانی ہوگی! مگر اس مڈل کلاس نے وہ مزا چکھایا کہ مڈل کلاس کا سارا بھوت اُتر گیا۔ سیکٹر کمانڈر‘ بوری بند لاشیں ‘ ڈرل کیے گئے انسانی اجسام‘ بھتہ‘ قربانی کی کھالیں ‘ ہڑتالیں‘ ہڑتالوں کے دوران مرنے والے مریض‘ یرغمال میڈیا‘ جبری ووٹ‘ فرضی ملازمین‘ جعلی تعیناتیاں‘ روبوٹ بنے ہوئے جلسوں کے سامعین اور بہت کچھ اور بھی۔ اس مڈل کلاس سیاست کا نقطۂ عروج تو بہت ہی زبردست تھا۔ بھاری اکثریت اس مڈل کلاس کی ‘ مڈل کلاس کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر ‘ اَپر کلاس میں شامل ہو گئی۔ ان سیاست دانوں کے خاندان لاس اینجلز ‘ ہیوسٹن ‘ نیویارک ‘ واشنگٹن اور لندن منتقل ہو گئے۔سیاست ملک میں ہی رہی اور بزنس مغربی ملکوں میں شفٹ ہو گیا۔ ہم نے جو خواب دیکھا اور دکھایا تھا ‘ تعبیر اُس خواب کی بھیانک نکلی!
پھر ہم نے ایک اور امید باندھی۔ ہم نے سیاسی پارٹیوں کی موروثی حیثیت پر تنقید کی اور عوام کو بتایا کہ برطانیہ‘ امریکہ اور دوسرے جمہوری ملکوں میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ہر چند سالوں کے بعد نئے منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے چیخ چیخ کر کہا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی بُنت آمریت کے سوت کی مرہونِ احسان ہے۔ یہ پارٹیاں نہیں ‘ خاندانی اجارہ داریاں ہیں۔ دوست نوازی ‘ اقربا پروری‘ خزانے کی لوٹ مار‘ بیرونی قرضے‘ آئی ایم ایف کی غلامی‘ گرانی‘ سب ا ن پارٹیوں کی حکومتوں کا طرۂ امتیاز ہے اور رہا ہے۔ ہم تبدیلی چاہتے تھے۔ ہم نے اپنا زور تبدیلی کے پلڑے میں ڈالا اور دامے‘ درمے‘ سخنے‘ قلمے اس مہم میں شامل ہو گئے۔ہمیں یقین تھا کہ اب وہی شفافیت یہاں بھی آئے گی جو ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں رائج ہے۔ جہاں حکمران بازار سے سودا سلف خود خریدتے ہیں ‘قطاروں میں کھڑے ہو کر برگر خریدتے ہیں اور عام سے گھروں میں رہتے ہیں۔مگر جلد ہی یہ پٹی بھی آنکھوں سے اُتر گئی۔ پارٹی کے اندر انتخابات ہوئے مگر سربراہ لیول پر نہیں ! وہی شخصی سٹیمپ! وہی مضبوط گرفت! وہی نامزدگیاں ! جتنے وجیہ الدین تھے اور تسلیم نورانی اور حامد خان ‘ سب غائب ہو گئے۔ جتنی فوزیہ قصوری تھیں ‘ اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئیں۔ دوست نوازی نئے عنوان سے آئی اور خوب زور شور سے ‘ شہنائیوں اور نقاروں کے جلو میں آئی۔
اُنہی ارب پتیوں کو دربار میں کرسیاں ملیں جو موروثی پارٹیوں کی حکومتوں میں کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ وہی چہرے۔وہی پتھر کی آنکھیں ! وہی موم کے پُتلے ! وہی مرغانِ باد نما ! وہی زمانہ ساز! وہی موقع شناس ! وہی ابنائے وقت ! آئی ایم ایف بھی کمبل لپیٹے اندر آگیا اور کرسی کھینچ کر یوں بیٹھ گیا جیسے یہیں قیام کرے گا اور طویل قیام کرے گا! بائیس برس کی گرجتی برستی جدو جہد کا نتیجہ ؟دو درجن کے لگ بھگ کابینہ کے ارکان ان بائیس برسوں میں ساتھ ہی نہ تھے۔ منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔ مہنگائی پہلے سے زیادہ ! بے روزگاری پہلے سے زیادہ ! ڈالر کا ریٹ پہلے سے زیادہ !جرائم پہلے سے زیادہ ! وہی پرویزی حیلے ! وہی اشتہار کے نتیجے میں انٹرویو‘ اور تعیناتی پہلے ہی کی طرح اُن کی جو امیدوار تھے نہ انٹرویو دیا۔ وہی پٹوار خانے وہی کچہریاں! وہی رشوتیں ! سرکاری تعمیرات پر وہی اپنے ماں باپ کے ناموں کی تختیاں ! احتجاجی جلوسوں پر وہی ڈنڈے‘ وہی شیلنگ ! وہی ہر چوک پر گداگروں کے ہجوم ! ٹریفک کی وہی قاتلانہ لاقانونیت ! تاجروں کی وہی چیرہ دستیاں‘پولیس کا وہی مائنڈ سیٹ کہ حاکموں کی کنیز اور عوام پر حاکم ! وہی اکڑتی ‘خود غرض بیورو کریسی جس کا عوام سے کوئی ربط ہے نہ ہمدردی نہ ہم آہنگی! وہی دولت شاہی ‘وہی دھن راج‘ وہی چند ثروت مندوں کا اقتدار جسے زبانِ فرنگ میں کبھی اولی گارکی(Oligarchy)کہتے ہیں اور کبھی پلوٹوکریسی(Plutocracy)کا خوبصورت نام دیتے ہیں !جو ترقیاتی منصوبے چل رہے تھے ان سے بھی گئے! سڑکیں ‘ پُل‘ انڈر پاس‘ اوور ہیڈ برج جہاں جہاں تعمیر کیے جا رہے تھے ‘ وہیں وہیں ٹھہر گئے! موروثی پارٹیوں کے زمانے میں کچھ تو ہو رہا تھا۔ ہمارے اس خواب کی تعبیر بھی اُلٹ نکلی۔ یا شاید تعبیر درست تھی‘ خواب غلط تھا۔
صوفی تبسم کی نظم پڑھتا ہوں اور روتا ہوں ! یہ بچوں کیلئے نہیں لکھی گئی ! یہ تو ہماری روداد ہے! ہم جیسے آئیڈیلسٹوں کی! جو اس زمانے میں سیاست دانوں کو جانچنے کا پیمانہ قائد اعظم والا رکھتے ہیں! بات یہ ہے کہ قصور کسی کا نہیں ! ہماری قسمت ہی کھوٹی نکلی! ورنہ انڈا ہم نے بقائمی ہوش و حواس ہنڈیا میں ڈالا تھا۔ نیچے آگ بھی جلائی تھی۔ آہ ! ہمارے نصیب ! ! نہ صرف یہ کہ انڈا ہنڈیا سے غائب ہے‘ ہمارا چمچہ بھی ٹیڑھا ہے! تھالی بھی اوندھی ہے! آؤ! جی بھر کے روئیں ! اور روتے روتے سو جائیں !