سو پیاز اور سو کوڑے!
یہ محاورہ صورت حال پر پوری طرح صادق نہیں آتا مگر اور کوئی محاورہ یاد نہیں آ رہا... سرکاری ملازمین کے احتجاج کو حکومت وقت نے جس طرح ہینڈل کیا اس پر آفرین کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! پہلی حکومتیں ہر سال، نئے بجٹ میں، دس فی صد کے لگ بھگ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کر دیتی تھیں؛ اگرچہ یہ اضافہ، افراط زر کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا تھا جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ! مگر ملازمین اور پنشنروں کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی ہو جاتی تھی اور وہ خاموشی سے اگلے بجٹ کا انتظار شروع کر دیتے تھے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی حالیہ تاریخ میں پہلی بار ملازمین اور پنشنروں کو بجٹ میں در خور اعتنا نہ جانا اور یہ بھی فرض کر لیا کہ یہ بے مثل ''حسن سلوک‘‘ ملازمین ہضم کر لیں گے کہ کیڑے مکوڑوں کی اہمیت ہی کیا ہے! اسے اہل اقتدار کی سادہ لوحی کہیے یا بے نیازی یا کوتاہ بینی! دوسری طرف گرانی کا گراف مسلسل اوپر جاتا رہا۔ یہاں تک کہ برداشت سے باہر ہو گیا۔ آخر کار اسی حکومت کو جو دس فی صد اضافے کی روادار نہ تھی، پچیس فی صد اضافہ ماننا پڑا۔ درمیان میں پنڈی والے شیخ صاحب کا جارحانہ اور دھمکی آمیز لب و لہجہ آڑے آیا ولے بخیر گزشت!! اب اس کے بعد پنشنروں کے احتجاج کی باری ہے۔
سرکاری ملازم بھی عجیب قابل رحم مخلوق ہے۔ چند سرکاری ملازم خیانت کریں تو سارے بد نام ! یہ حقیقت ہے کہ بھاری اکثریت سرکاری ملازموں کی آج بھی دیانت دار ہے۔ یہ بات ہم سب کو معلوم بھی ہے اس لیے کہ سرکاری ملازم آسمان سے اترے ہیں نہ زمین سے اُگے ہیں‘ نہ ہی کہیں باہر سے درآمد کیے گئے ہیں۔ یہ ہمارے ہی بھائی بہنیں‘ بیٹے بیٹیاں‘ بھتیجے بھانجے، چاچے مامے ہیں اور ہم مانیں یا نہ مانیں سچ یہی ہے کہ گندے انڈے چند ہی ہیں۔ ایک اعتراض یہ ہے کہ یہ لوگ وقت پر نہیں آتے۔ اس کی وجہ پر غور نہیں کیا جاتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ خود منسٹر وقت پر نہیں آتے۔ گزشتہ حکومت میں تو کچھ وزیر ہفتے میں ایک آدھ بار ہی دفتر حاضر ہوتے تھے۔ موجودہ وزیر اعظم کی صرف ایک تقریب اس کالم نگار نے اٹینڈ کی‘ جو مقررہ وقت کی نسبت بہت تاخیر سے شروع ہوئی۔
آپ وفاقی ملازمین کی علاج معالجے کی سہولیات دیکھیے۔ کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں، ساٹھ سال گزر گئے۔ مرکزی ہسپتال (پولی کلینک) کی توسیع نہ ہو سکی۔ ضرورت اس سے دس گنا بڑے ہسپتال کی ہے جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ رہا پمز (PIMS) تو بد انتظامی کا بد ترین نمونہ ہے۔ مریض گھنٹوں نہیں پہروں انتظار کرتے ہیں۔ سنی سنائی بات نہیں، اس کالم نگار کا ذاتی تجربہ ہے کہ اس شفا خانے میں ڈاکٹر کو پانا، اسے ملنا، جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور تھک ہار کر اس کے نجی کلینک میں جانا پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں سرکاری ملازمین اور ان کے کنبوں کی صحت کے حوالے سے جو حالت زار ہے، آپ اس کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہاں ایک عظیم کارنامہ موجودہ حکومت نے یہ ضرور سرانجام دیا ہے کہ راولپنڈی میں ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے کے لیے جو ڈسپنسری مدتِ دراز سے قائم تھی، جس میں دو ڈاکٹر تعینات تھے اور ایمبولنس اور لیبارٹری تھی اور جو ہزاروں ملازمین اور ان کے خاندانوں کا سہارا تھی، وہ ختم کر دی! اندازہ لگائیے ان ہزاروں سرکاری ملازمین اور ان کے کنبوں نے کتنی ''دعائیں‘‘ اس حکومت کو دی ہوں گی! چار دن کا اقتدار تو ختم ہونا ہی ہے، مگر یہ آہیں قیامت تک اثر انداز رہیں گی!
لیکن وفاقی حکومت کے ملازمین کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ درد ناک مسئلہ رہائش کا ہے۔ اسلام آباد کا شہر جب بسایا گیا تو یہ امیروں کے محلات کے لیے نہیں، بلکہ بنیادی طور پر سرکاری ملازموں کے لیے بنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے زمانے میں جو دو تین سیکٹر سب سے پہلے بنے (جی سکس، جی سیون اور ایف سکس)، ان کا غالب حصہ سرکاری کوارٹروں، فلیٹوں اور مکانوں پر مشتمل تھا۔ آپ ایوب خان کے بعد آنے والوں کی ''درد مندی‘‘ اور ''دور اندیشی‘‘ ملاحظہ فرمائیے کہ ایف سیون، ایف ایٹ، ایف ٹین، ای سیون، ایف الیون، ای الیون اور جی پندرہ کے سیکٹروں میں سرکاری مکانوں کی تعداد صفر ہے۔ باقی سیکٹروں میں سرکاری رہائش گاہیں بنیں بھی، تو وہ تناسب کے لحاظ سے انتہائی کم ہیں اور یک انار صد بیمار والا معاملہ ہے۔ اس احمقانہ منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج سرکاری ملازم کا سب سے بڑا مسئلہ، دوبارہ عرض ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ، وفاقی دارالحکومت میں سرکاری رہائش گاہ کا حصول ہے۔ یہ ایک انتہائی درد ناک داستان ہے۔ ایک تو سرکاری رہائش گاہوں کی تعداد بہت ہی کم، ستم بالائے ستم یہ کہ عشروں سے الاٹمنٹ میں دھاندلیاں، سفارشیں اور ہیرا پھیریاں چلی آ رہی ہیں۔ بہت سی ''دیگر‘‘ قباحتیں بھی عام ہیں! ملازمین درخواست دے کر سالہا سال انتظار کرتے ہیں۔ کچھ اسی انتظار میں ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سنا ہے کہ موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر ایک درخواست دہندہ کو اپنی باری پر رہائش گاہ الاٹ ہو گی اور کسی کو باری سے پہلے نہیں نوازا جائے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ ماضی میں وزارتِ مکانات و تعمیرات کبھی ایک پارٹی کی جاگیر بنی رہی کبھی کسی دوسری پارٹی کی باندی رہی!
سرکاری ملازم آزادیٔ اظہار کے حق سے بھی محروم ہے۔ رولز کے حساب سے حالتِ زار بیان کرنے کے لیے، یا کسی وضاحت کے لیے یہ ملازمین پریس کانفرنس کر سکتے ہیں نہ میڈیا کے ذریعے کچھ کہنے یا لکھنے کی اجازت ہے۔ کہیں افرادی قوت حد سے زیادہ کم ہے کہیں فرنیچر نہیں۔ آج کل قومی بچت مراکز کے ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ افرادی قوت کی شدید کمی ہے۔ ان ساری تکالیف اور رکاوٹوں کے باوجود یہ سرکاری ملازم ہی ہیں جو ملک کی گاڑی چلائے جا رہے ہیں اور رکنے نہیں دے رہے۔ سرکاری ملازمین پر تنقید کرنا فیشن بن گیا ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ کام نہیں کرتے اور کوئی کسی اور رنگ میں ان کی کردار کُشی کرتا ہے۔ مانا سرکاری ملازم فرشتے نہیں‘ ان میں کمزوریاں ہیں اور خامیاں بھی‘ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ تمام محکمے چل رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال کُھلے ہیں، اگر ان میں ساز و سامان اور وسائل کی کمی ہے یا ڈاکٹر نہیں تعینات کیے جا رہے تو یہ حکومت کا قصور ہے۔ سرکاری سکول اور کالج، نا گفتہ بہ حالات کے باوجود، یہ سرکاری ملازم ہی چلا رہے ہیں۔ ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ڈاک خانے، عدالتیں، یوٹیلٹی سٹور، اسلحہ فیکٹریاں، پاسپورٹ دفاتر، نادرا، اکاؤنٹنٹ جنرل دفاتر، ملٹری اکاؤنٹس کے دفاتر، ٹیکس اور کسٹم کے محکمے، دوسرے ملکوں میں قائم ہمارے سفارت خانے، ریڈیو پاکستان، عجائب گھر، بندر گاہیں، زرعی تحقیق کی کونسل، ٹریفک پولیس، ایٹمی انرجی کمیشن، اور بے شمار دوسرے وفاقی اور صوبائی ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ لوگوں کے جھوٹے سچے الزامات بھی سہہ رہے ہیں۔ طعنے بھی سن رہے ہیں اور اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ڈنڈوں اور آنسو گیس سے بھی نوازے جا رہے ہیں۔
جس دن سیاست دان، عوامی نمائندے، وزرا، عمائدین، صنعت کار، تاجر اور جاگیر دار اپنا قبلہ درست کر لیں گے تو سرکاری ملازموں کی خامیاں بھی دور ہو جائیں گی۔ سرکاری ملاز م قوم ہی کا حصہ ہیں۔ جوکمزوریاں سرکاری ملازموں میں ہیں، وہ پوری قوم میں موجود ہیں۔
جو بھی ہو تم پہ معترض اس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا