منزل‘ اگر کہیں ہے تو‘ بہت دور ہے !

پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا۔ راستہ صاف ہو گیا! مگر کیا واقعی راستہ صاف ہو گیا؟
یونیورسٹی آف مالاکنڈ کے نئے بلاک کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک بار پھر شریف اور زرداری خاندان اور ان کی اولاد کا بھرپور تذکرہ کیا۔ یوں لگتا ہے کہ تاریخ میں ان دونوں خاندانوں کو اَمر کرنے کا تہیہ جنابِ وزیر اعظم ہی نے کر رکھا ہے۔ اڑھائی تین سال کے دوران جتنی کوریج حکومت کے طفیل ان خاندانوں کو ملی ہے اتنی شاید تب بھی نہ ملتی اگر یہ دونوں خاندان کسی مشہور بین الاقوامی میڈیا کمپنی کو ہائر کرتے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ ان خاندانوں کے بد ترین مخالف بھی دل میں ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگے ہیں کیونکہ مسلسل ایک ہی بات سن سن کو لوگ چڑنے لگے ہیں۔ ہر تذکرے کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد‘ بے حد ہو جائے تو اثر الٹا ہونے لگتا ہے۔ کامیابی دوسروں کی برائیاں کرنے سے حاصل ہوتی ہے یا خود کچھ کر کے دکھانے سے؟ شیر شاہ سوری کو کُل پانچ سال ملے۔ کیا یہ پانچ برس اس نے مغلوں کی برائیاں کرنے میں گزار دیے؟ بابر اگر لودھیوں کی مذمت ہی میں لگا رہتا تو چند ہفتوں میں بھاگ کر کابل پناہ لینا پڑتی۔
پی ڈی ایم کا کانٹا نکل گیا مگر یہ مسائل کا حل نہیں۔ اس سے اربابِ حکومت کو تو اطمینان حاصل ہو سکتا ہے‘ عوام کو نہیں۔ اڑھائی سال باقی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بقیہ مدت کے ایک ایک دن‘ ایک ایک گھنٹے ‘ ایک ایک لمحے سے فائدہ اٹھائے۔ عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرے۔ بیوروکریسی کی مُشکیں کسے۔ تاجروں کے خلاف سخت ایکشن لے اور ان کی بلیک میلنگ کو ہرگز خاطر میں نہ لائے۔ وزرا کی کارکردگی پر کڑی نظر رکھے‘ اور جو وزرا ڈلیور نہیں کر پا رہے ان کے محض قلمدان تبدیل نہ کرے بلکہ انہیں بیک بینی و دو گوش نکال باہر کرے۔ سب سے بڑا صوبہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کون سا اقدام ضروری ہے۔ اب بھی اگر مصلحتیں آڑے آتی رہیں تو بقیہ اڑھائی سال کی مدت بھی اسی طرح گزر جائے گی۔
حکومت کا رویہ اگر منفی ہے اور وہ صرف دو خاندانوں کا تعاقب کر رہی ہے تو اپوزیشن کا طرزِ فکر اس سے بھی زیادہ تخریبی ہے۔ پی ڈی ایم کا ون لائن ایجنڈا موجودہ حکومت کا انہدام ہے۔ وزیر اعظم کہہ سکتے ہیں کہ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
مگر پی ڈی ایم سے کوئی پوچھے کہ اس کے بعد کا پلان کیا ہے؟ کیا اس کے بعد بھی یہ اتحاد قائم رہے گا یا وہی صورت حال ہو گی جو روسیوں کے انخلا کے بعد افغانستان کی ہوئی تھی؟ اس ساری تحریک کے دوران پی ڈی ایم مرحوم و مغفور نے وزیر اعظم پر تنقید تو کی اور حکومتی اقدامات کی مخالفت تو کی مگر کوئی متبادل منصوبہ پیش نہیں کیا۔ یہ تو سب کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے خود کُشی کی بات کی تھی مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس گئے‘ لیکن کیا پی ڈی ایم نے کوئی ایسا منصوبہ پیش کیا ہے جس پر عمل کرنے سے آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے؟ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ صرف یہی نہیں‘ بلکہ کسی بھی شعبے کے لیے پی ڈی ایم نے کوئی تعمیری پلان نہیں پیش کیا۔ اسے بتانا چاہیے تھا کہ برسر اقتدار آکر گرانی کے عفریت سے کیسے نمٹے گی؟ بیروزگاری کو کس طرح کم کرے گی؟ خارجہ امور کے حوالے سے اس کی پٹاری میں کیا ہے؟ اب تو خیر قصہ ہی تمام ہو چکا۔ مال تقسیم ہونے سے پہلے ہی جھگڑا ہو گیا اور اتحاد اُس انجام کو پہنچ چکا جو ابتدا ہی سے نوشتۂ دیوار تھا۔
پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور دوسری پارٹیوں پر وزیر اعظم کا اور عوام کی کثیر تعداد کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی قیادتیں موروثی ہیں۔ اس اعتراض کو یہ پارٹیاں اپنے عمل سے آئے دن درست ثابت کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ گرفتار ہوئیں تو میاں صاحب لندن سے تحریک کی کوچوانی کریں گے۔ یہی تو اصل بیماری ہے۔ یعنی لگام خاندان ہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں شاہد خاقان عباسی‘ رانا ثناء اللہ‘ احسن اقبال‘ سعد رفیق بال سفید کرنے کے باوجود ورکر کے ورکر ہی رہیں گے۔ یہی حال پی پی پی کا ہے۔ عنفوانِ شباب کے اسپِِ تازی پر سوار بلاول جب تقریر کرتے ہیں یا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے یمین و یسار پر بیٹھے اور ان کی پشت پر کھڑے عمر رسیدہ حضرات کو دیکھ کر نصرت بھٹو کا یہ قولِ زریں یاد آتا ہے کہ Bhuttos are born to rule کہ بھٹو خاندان کے افراد حکمرانی کرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتے ہیں۔ شاید شاہ پرستی ہماری سرشت میں رچی بسی ہے یعنی؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اِک بادشاہ مانگتی ہے
تحریک انصاف بھی اس رجحان سے نجات کہاں پا سکی! رُبع صدی ہونے کو ہے کہ تحریک کی قیادت جن ہاتھوں میں تھی‘ انہی ہاتھوں میں ہے۔ مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں کہ یہ جماعت یورپ‘ امریکہ یا دوسرے جمہوری ملکوں کی طرح‘ پارٹی کے سربراہ کو تبدیل کر سکے حالانکہ وعدے وعید اور بیان کردہ عزائم اسی قبیل کے تھے۔ صرف جماعت اسلامی ہی ہے جس کی قیادت موروثی نہیں اور انتخابات کے ذریعے تبدیل ہوتی ہے مگر ملکی سیاست میں جماعت کوئی فیصلہ کُن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی وجوہ کیا بیان کی جائیں۔ کالم کی تنگ دامانی آڑے آتی ہے۔ جماعت کے اصحابِ قضا و قدر‘ وجوہ سننے کی تاب بھی کہاں رکھتے ہیں!
جمہوریت کا دعویٰ تو ہے مگر جمہوریت کی منزل دور ہے‘ بہت دور! اتنی دور کہ حدِ نگاہ تک کسی بستی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ ایک دلیل خاندانی تسلط کی یہ دی جاتی ہے کہ ارکان کو صرف شریف خاندان یا زرداری صاحب یا چودھری یا باچا خان کی اولاد ہی متحد رکھ سکتی ہے ورنہ تتر بتر ہو جائیں! یہ دلیل ہی غیر جمہوری مائنڈ سیٹ کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ وہ جماعت ہی کیا جو ایک خاندان کی گَلّہ بانی کی محتاج ہو! یہ تو بھیڑ بکریاں ہوئیں جنہیں لیڈر نہیں‘ گڈریا درکار ہے۔ مائنڈ سیٹ کے اعتبار سے سب سیاسی جماعتیں ایک جیسی ہیں خواہ اقتدار میں ہیں یا اقتدار سے باہر! لیڈر سے برملا اختلاف کی کسی میں جرأت نہیں۔ سب کا منشور آمنّا و صدّقنا ہے۔ جو کچھ پی ڈی ایم کہہ رہی ہے یا جو نکات میڈیا اٹھا رہا ہے ان میں سے کچھ‘ اگر کابینہ یا پارٹی کے ارکان‘ اپنے لیڈر سے کہہ دیتے تو اصلاحِ احوال ہو چکی ہوتی۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت ذرا مختلف ہے۔ یہاں بندوں کو صرف گننے سے کام نہیں چلتا‘ ان کی نگرانی بھی کرنا پڑتی ہے۔ انہیں کمروں‘ گیسٹ ہاؤسوں‘ کنٹینروں اور ہوٹلوں میں مقفل بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ان پر پہرے بھی بٹھانے پڑتے ہیں۔ ان کے ''اعمال‘‘ کو محفوظ رکھنے کے لیے خفیہ کیمرے بھی لگانے پڑتے ہیں۔ اتنا کڑا پہرا قیدیوں پر بھی نہیں دیا جاتا۔ پھر یہ حضرات اپنے چرواہوں کے سامنے قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ یقین دہانیاں بھی کرتے ہیں۔ صفائیاں بھی پیش کرتے ہیں! اس ساری ''عزت افزائی‘‘ کے باوجود یہ حضرات معززین میں شمار ہوتے ہیں۔ کس کی مجال ہے کہ اوقات یاد دلائے۔
منزل‘ اگر کہیں ہے تو‘ بہت دور ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں