جب سے یہ خبر پڑھی ہے‘ دماغ شل ہے۔ روح کانپ رہی ہے۔ دل قاش قاش ہو رہا ہے۔کیا ہم سیاہ بختی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں ؟ کیا تحت الثریٰ سے نیچے بھی کوئی درجہ ہے؟ کیا دُور آسمان پر‘ ذلت اور ذہنی افلاس ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا؟
اگر آج بھی ہمارے حکمران‘ لیاقت علی خان کی طرح ہوتے تو یہ خبر المناک نہ ہوتی؟ مگر جب پچھلے تیس چالیس برسوں کے دوران ہمارے اہلِ اقتدار کے نوکروں کے نوکر بھی ارب پتی ہو چکے تویہ خبر ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اور ہماری تہذیبی پستی کا نشان ! ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے صاحبزادے کے گردے فیل ہو چکے ہیں۔ زندگی کے باقی دن‘ جتنے بھی قسّامِ ازل نے لکھے ہیں‘ پورے کرنے کے لیے انہیں ہر ماہ ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے درکار ہیں۔ دونوں بیٹیاں یہ ذمہ داری اٹھا رہی ہیں مگر اب معاملہ ان کی استطاعت سے باہر ہو رہا ہے۔ مدد کے لیے ان کی بیگم نے‘ مجبوراً سندھ حکومت کو خط لکھا ہے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ لیاقت علی خان نواب تھے اور بہت بڑی جائداد بھارت میں چھوڑ کر آئے تھے۔ مشہوراور محترم سفیر جمشید مارکر نے اپنی سوانح ( کور پوائنٹ) میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے چند دن بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے گھر میں چند قریبی احباب سوگوار بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ نے ایک کتاب نکالی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جمشید مارکر سے کہنے لگیں‘ یہ دیکھو‘ راولپنڈی کے سفر کے دوران لیاقت کیا پڑھ رہے تھے۔ یہ اس وقت کے معروف مصنف اور صحافی Arthur Koestlerکی کتاب The God that Failed تھی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم کا راولپنڈی کا آخری سفر اکتوبر1951ء میں پیش آیا جبکہ یہ کتاب اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جو تازہ ترین تھی!وزیر اعظم کی شہادت کے بعد کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مرحوم وزیر اعظم کی بیوہ کے لیے پنشن‘ ایک پی اے‘ ایک گاڑی مع ڈرائیور اور ایک سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی گئی۔ جن چند دوستوں نے سامان شفٹ کرنے میں مدد دی ان میں جمشید مارکر اور ان کی اہلیہ ڈیانا بھی شامل تھیں۔ جمشید مارکر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا ''سازو سامان‘‘ دیکھ کر رحم آ رہا تھا! چند کپڑے‘ کتابیں اور ایک چھوٹی سی کیبنٹ جس میں چند سگریٹ لائٹر جمع تھے! وزیر اعظم کو سگریٹ لائٹر جمع کرنے کا شوق تھا اور یہ ایک لحاظ سے ان کی ہابی تھی۔ بینک اکائونٹ میں کل سرمایہ سینتالیس (47) ہزار روپے تھا!!زمین ایک انچ بھی ان کے نام نہیں تھی۔ ان کے بیمار صاحبزادے آج بھی اپنی ساس کے دیے ہوئے مکان میں رہتے ہیں۔
رونے والے اس خبر پر روئیں گے۔مگر حقیقت کیا ہے ! حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرے کو جس نہج پر ہم لا چکے ہیں اس میں یہ خبر ہر گز‘ ہر گز‘ اچنبھا نہیں ہے۔ جس معاشرے میں اسمبلیوں تک پہنچنے کے لیے پلازوں‘ فیکٹریوں اور جاگیروں کی ضرورت ہو‘ جہاں میٹرک پاس یا میٹرک فیل کھرب پتی باقاعدہ بادشاہ گری کریں اور بادشاہ گری میں مغلوں کے عہدِ زوال کے سید برادران کو بھی مات کر دیں‘ وہاں ایک دیانت دار وزیر اعظم کی اولاد کا یہی حشر ہو گا۔ غور کیجیے۔دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے ! ہمارے ساتھ کے جو ملک ہم سے کئی نُو ری سال آگے جا چکے ہیں ان کی کابینہ میں وزیروں کی نصف تعداد پی ایچ ڈی ہوتی ہے جبکہ ہمیں اپنے مرکزی بینک کی گورنری کے لیے بھی اور وزارتِ خزانہ چلانے کے لیے بھی سامراجی اداروں کے ملازم ادھار لینے پڑتے ہیں۔ ہمارے وزرائے اعظم تازہ ترین کتابیں تو کیا‘ اہم ترین فائلیں اور عدالتی فیصلے تک نہیں پڑھتے۔ فائلوں پر لکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جبھی تو یہ حضرات پڑھی لکھی بیورو کریسی کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سعودی عرب میں ٹیکس نہیں تو یہاں کیوں ہو؟ کوئی ہار کے حوالے سے شہرت پاتا ہے۔ کوئی جاپان اور جرمنی کا مشترکہ بارڈر دریافت کرتا ہے۔ خواندگی کے جعلی اعدادو شمار سے ہم اپنے بے وقعت کاغذوں کا ہر سال پیٹ بھر تے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں کتاب سے زیادہ غیر مقبول چیز کوئی نہیں۔ پبلک لائبریریاں برائے نام ہیں۔ حکمرانوں کی دیانت اور لائبریریوں کا وجود لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ جن ملکوں میں حکمران ایک ایک پائی کے لیے جوابدہ ہیں وہاں عزت اور سٹیٹس کا حوالہ پلازے‘ شاپنگ مال اور محلات نہیں‘ کتاب ہے۔ گلوسٹر (انگلستان ) کی کاؤنٹی میں انتالیس پبلک لائبریریاں ہیں۔ جیلانگ آسٹریلیا کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں اٹھارہ پبلک لائبریریاں ہیں۔ امریکہ کے شہر ہیوسٹن کی چوالیس پبلک لائبریریوں میں چھتیس لاکھ کتابیں ہیں۔ ہاں ہمارے عوامی نمائندوں نے اب کے کتاب کا ایک نیا استعمال ضرور کیا ہے۔انہوں نے ایک دوسرے کو تاک تاک کر کتابیں ماریں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ لاکھوں روپوں کے خرچ سے بجٹ کی جو کتابیں چھاپی اور بانٹی جاتی ہیں انہیں کتنے وزیر اور کتنے ارکان پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔
ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ اقتدار کے لیے پارٹیاں بدلنا ! اور پے در پے بدلنا! کابینہ کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے! ہم وہ مرغانِ باد نما ہیں جو ہر لمحے ہوا کے ساتھ رخ بدلتے ہیں۔ عزتِ نفس کا یہ حال ہے کہ پرانے وڈیو کلپ جب دکھائے جاتے ہیں جن میں آج کے دشمنوں کی تعریف میں ہم نے زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے تو ہم آنکھ تک نہیں جھپکتے اور ایک حیران کُن دیدہ دلیری کے ساتھ ان کا جواز پیش کرتے ہیں۔ ہم گالیاں دینے کے لیے کرایے پر ہمہ وقت دستیاب ہیں۔اب ہماری پتھر کی آنکھ بھی حیا سے عاری ہو چکی ہے۔ ایک منظم پلاننگ کے تحت تعلیم یافتہ اور با کردار سیاست دانوں کو منظر سے ہٹایا گیا اور اب جو مٹیریل رہ گیا ہے اور جو آرہا ہے اس کی سطح یہ ہے کہ اکثر کے فرمودات وارشادات سن کر پڑھے لکھے لوگ منہ چھپانے لگتے ہیں۔ واعظوں کا یہ حال ہے کہ عوام کو حجامہ کی تلقین کرتے ہیں اور خود دل کی وریدوں میں سٹنٹ رکھوانے سیدھے ڈاکٹروں کے پاس پہنچتے ہیں۔ تاجر سینہ پھلاکر اعلان کرتے ہیں کہ ٹیکس دینا ہے نہ توانائی بچانے کے لیے بازار کے اوقات تبدیل کرنے ہیں۔ ہجوم گردی کا یہ عالم ہے کہ سنے سنائے الزام پر انسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ ہمیں مطلق فکر نہیں کہ عالمی برادری میں ہمارا شمار اب افغانستان اور صومالیہ کے ساتھ ہوتا ہے۔
قائد اعظم کی دختر خوش قسمت تھیں کہ باہر ہی رہیں اور وہیں وفات پائی۔ یہاں ہوتیں تو انجام لیاقت علی خان کے فرزند اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے انجام سے مختلف نہ ہوتا۔ کون نہیں جانتا کہ مادرِ ملت کی موت آج تک معمہ ہے جس پر مہیب اسرار کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے۔ سابق وزرا ئے اعظم‘ سابق صدور‘ اسمبلی کے سابق سپیکر اور بے شمار دوسرے سابق عہدیداروں پر اس قلاش ملک کے کروڑوں روپے صرف ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں کے قبیلوں کے قبیلے‘ خاندانوں کے خاندان‘سرکاری پروٹوکول سے بہرہ ور ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ کتنے ہی غیر متعلقہ افراد اور کنبوں کے محلات کے دروازوں پر پولیس کے اہلکار خیموں میں رہتے ہیں اور شفٹوں پر ڈیوٹیاں دیتے ہیں۔ اور جس شخص نے پاکستان کو اپنا خون دیا اور بااختیار ہو کر بھی بے خانماں رخصت ہوا‘ اس کا فرزند ڈیڑھ دو لاکھ روپے مہینہ کے علاج کے لیے عرضیاں دے رہا ہے !