تین سطروں پر مشتمل منیر نیازی کی ایک نظم کئی کتابوں پر بھاری ہے:
بندے نئیں سن، جانور سن
روٹیاں کھائی جاندے سن
تے رَولا پائی جاندے سن
پنجابی کی اس نظم کا ترجمہ یوں ہے:
انسان نہیں، یہ جانور تھے
روٹیاں کھائے جا رہے تھے
اور شور مچائے جا رہے تھے
جہاں تک یاد پڑتا ہے، اس نظم کا عنوان ریستوران ہے‘ مگر اس کا عنوان ہونا چاہیے شادی ہال۔ ہمارے شادی ہال مویشیوں کے باڑے سے بدتر منظر پیش کرتے ہیں۔ پہلے تو بیٹھتے وقت باقاعدہ جنگی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے کہ ایسی جگہ بیٹھا جائے جہاں سے کھانا کُھلنے کے بعد حملہ کرنے میں پہل ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کھانا نہیں کُھلتا، مویشی کُھلتے ہیں۔ پورے ہال میں ایک افراتفری کا سماں ہوتا ہے۔ سات ماہ پہلے کچھ وڈیو کلپ وائرل ہوئے جو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں۔ ایک بڑے شہر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، جو ایک ٹاپ کے پروفیشن سے تعلق رکھتے تھے، کھانے پر ٹوٹ پڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک مارکی تھی جہاں اس پروفیشن کے الیکشن منعقد ہوئے تھے۔ خدا کی پناہ! چمچے پڑے ہوئے تھے مگر ہر شخص پلیٹ ڈونگے سے براہ راست بھر رہا تھا۔ بے پناہ شور تھا۔ اس کالم نگار نے اس تنظیم کے سربراہ سے بات کی تو ان کے علم ہی میں یہ کلپ نہیں تھے۔ معلوم نہیں انہوں نے بعد میں دیکھے یا دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی مگر دیکھ بھی لیں تو کیا کر سکیں گے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے ۔ جاتے جاتے جائے گی۔ مگر ٹھہریے ! کروڑوں کے خرچ سے پیش کیے گئے ان کھانوں پر بھکاری یا قلاش تو مدعو ہی نہیں کیے جاتے! سب کھاتے پیتے لوگ بلائے جاتے ہیں۔ آداب کا تعلق غربت یا امارت سے نہیں ہوتا، ایک قوم کی مجموعی اخلاقی حالت سے ہوتا ہے۔ جس طرح باتھ روم اور بیت الخلا کسی قوم کے اطوار کو جانچنے کا ذریعہ ہیں، جس طرح ٹریفک بتاتی ہے کہ یہ قوم کتنی مہذب ہے، اسی طرح کھانا کھانے کا عمل بھی ایک آئینہ ہے جس میں اس قوم کا رویّہ، سبھاؤ اور برتاؤ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل میں صبح کا ناشتہ کرتے ہو ئے دیکھا کہ غیر ملکی مہمان جوس کا گلاس لے کر اپنی میز کی طرف جا رہے تھے مگر ہمارے بھائی وہیں پر کھڑے ہو کر دو دو تین تین گلاس غٹاغٹ پیے جا رہے تھے اور وہاں سے ہِل نہیں رہے تھے۔
شادی ہالوں میں اس بھاگ دوڑ، افراتفری اور نفسا نفسی کی ایک وجہ پکوانوں کی کثرت ہے۔ اندازہ لگائیے۔ بریانی، چکن قورمہ، مٹن قورمہ، چکن روسٹ، پالک، نہاری،کوفتے، کئی طرح کے کباب، مچھلی، ساتھ ہی چینی کھانے، اور نہ جانے کیا کچھ ! ارے بھائی! مقصد تو یہ تھا کہ بچے یا بچی کی شادی پر کچھ مخلص دوست احباب، اعزّہ و اقارب آئیں۔ مل بیٹھیں۔ بچی کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کریں یا دُلہا کی آئندہ زندگی خوشگوار ہونے کی نیک تمنا کریں۔ چونکہ کھانے کا وقت بھی ہو گا اس لیے کھانا بھی کھا لیں‘ مگر یہاں تو دُلہا دلہن کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ پس منظر سے لے کر پیش منظر تک کھانا ہی کھانا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ایک سالن ڈال کر اس کے ساتھ نان یا روٹی کھا لی جائے۔ جتنے بھی پکوان ہیں سب کھانے ضروری ہیں جیسے زندگی میں پہلی بار دیکھے ہوں۔ پلیٹوں پر کھانوں کے پہاڑ ہیں۔ پسینہ آرہا ہے۔ ایک ہاتھ میں کولڈ ڈرنک کی بوتل پکڑے ہیں۔ دنیا و ما فیہا سے بے خبر، گوشت کھائے جا رہے ہیں۔ کئی کئی بار پلیٹ بھری جا رہی ہے۔ بہت زمانہ گزرا، اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں کوئی ادبی تقریب تھی۔ کھانا کُھلا تو حسب معمول کُشتوں کے پُشتے لگ گئے۔ ہال کے ایک کونے میں سراج منیر مرحوم پلیٹ پکڑے کھانا کھا رہے تھے۔ پلیٹ میں صرف سلاد تھا۔ پوچھا: کچھ لا دوں؟ کہنے لگے: نہیں یار! ایسے مواقع پر بس پیٹ بھر لینا کافی ہوتا ہے اور میرا پیٹ سلاد سے بھر گیا ہے۔
کئی ملکوں میں دعوتیں کھانے کے مواقع ملے۔ سرکاری بھی، نجی بھی! تین یا زیادہ سے زیادہ چار ڈشیں ہوتی ہیں۔ سلاد۔ پھر ایک مرکزی (Main) ڈش جیسے مرغی یا مچھلی۔ بعد میں ایک قسم کا میٹھا۔ کبھی پوچھ بھی لیتے ہیں کہ چاکلیٹ یا کیک میں سے کیا پسند کریں گے؟ ہماری دعوتوں میں پکوانوں کی جو کثیر تعداد ہوتی ہے، معاف کیجیے اسے فرنگی زبان میں Vulgarity کہتے ہیں یعنی اوچھا پن، نا شائستگی بلکہ گنوار پن! کئی حکومتی کوششوں کے باوجود ون ڈش کا رواج جڑ نہیں پکڑ پایا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومتی عمائدین خود ہی اس قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں! سعدی نے کہا تھا کہ کھانا اس لیے ہے کہ زندہ رہا جائے، زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ کھاتے رہیں! ہمارے شادی ہالوں میں تین چیزیں کبھی نظر نہیں آتیں۔ سبزی، دال اور شائستگی!
یہ سب تو تمہید تھی۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو جو کچھ پتوکی کے قصبے میں ہوا، اس پر تعجب کیسا! شادی ہال میں پاپڑ بیچنے والا آ گیا۔ اس سے پاپڑ خریدتے ہوئے جھگڑا ہوا یا اس پر جیب تراشی کا الزام لگا۔ جو بھی وجہ بنی، اس پر براتیوں نے تشدد کیا۔ مکے اور ٹھوکریں ماریں۔ یہاں تک کہ اس کی سانس کی ڈوری کٹ گئی۔ وہ ایک بے جان لاش میں تبدیل ہو گیا‘ مگر اصل المیہ یہ نہیں! اصل المیہ یہ ہے کہ اس کی لاش شادی ہال میں سب کے سامنے پڑی رہی۔ آنکھیں کُھلی تھیں۔ منہ بھی کُھلا تھا‘ اور لوگ اس لاش کی موجودگی میں کھانا اس شد و مد سے اور اس سرگرمی اور قوّت سے کھاتے رہے جیسے مقابلہ ہو کہ لاش کی موجودگی میں جو سب سے زیادہ کھاناکھائے گا اسے پہلا انعام ملے گا۔ یہ خبر ملکی میڈیا میں تو آئی، اسے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں نے بھی نشر کیا۔ گویا ہماری انسانیت پر واہ واہ پوری دنیا میں ہو رہی ہے!
اب تک تو ہمارا طرۂ امتیاز یہ تھا کہ ہم ہجوم گردی کے لیے مشہور تھے۔ کئی اپنے ہم وطنوں کو زندہ جلانے اور پیٹ پیٹ کر ختم کرنے کے بعد ہم نے ایک غیر ملکی کو بھی مار مار کر ہلاک کیا اور پوری دنیا میں شہرت پائی‘ مگر بقول منو بھائی مرحوم، ابھی قیامت نہیں آئی تھی! ہم نے قیامت برپا کرنے کی کوشش میں یہ کارنامہ بھی سرانجام دے دیا۔ ہم نے ایک انسان کو قتل کیا۔ پھر مقتول کی موجودگی میں دعوت اڑائی۔ اب ایک کسر باقی رہ گئی ہے۔ اگلا تماشا یہ ہونا چاہیے کہ بندے کو ہلاک کریں، اس کے بعد اس کی لاش کے اُوپر بیٹھ کر کھانا کھائیں یا اس کی لاش کو میز کے طور پر استعمال کریں۔ اس پر کھانا رکھیں اور تناول فرمائیں!
اور اس میں صرف پتوکی اور اہل پتوکی کو قصور وار نہ ٹھہرائیے۔ پتوکی کوئی جزیرہ نہیں۔ ہمارا ہی قصبہ ہے۔ سچ کڑوا ہے مگر پھر بھی سچ ہے۔ ہم سبھی ایسے ہیں! شادی کی تقریب میں پورے معاشرے کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات بھی ہوتے ہیں، کم تعلیم یافتہ بھی، تاجر بھی ہوتے ہیں، سرکاری ملازم بھی، امرا بھی ہوتے ہیں اور مڈل کلاس کے نمائندے بھی! مذہب سے بے نیاز بھی ہوتے ہیں اور مذہبی لوگ بھی ہوتے ہیں۔ جو ہوا وہ ہمارے پورے معاشرے کی، ہمارے پورے ملک کی، ہماری پوری قوم کی تصویر دکھا رہا ہے! ہمیں آج بھی اُس کوّے کی ضرورت ہے جس نے ہمیں مردے کو دفن کرنا سکھایا تھا!