آندھرا پردیش میں چوالیس‘بہار میں چوبیس‘ گوا میں پانچ‘ گجرات میں دس‘ہریانہ میں آٹھ‘ ہماچل پردیش میں نو‘ جموں اور کشمیر( مقبوضہ) میں آٹھ‘ کیرالہ میں بیالیس‘ مہاراشٹر میں دو سو چھہتر‘ تامل ناڈو میں انیس‘ تلنگانہ میں پچھتر۔ یہ ڈیم ہیں اور یہ صرف چند بھارتی ریاستوں کی فہرست ہے۔ ان میں سے نوّے فیصد سے زیادہ ڈیم وہ ہیں جو تقسیم کے بعد تعمیر ہوئے۔ کُل ڈیم پانچ ہزار سے زیادہ ہیں۔ اس ضمن میں چین اور امریکہ کے بعد بھارت کا دنیا میں تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان میں کُل ڈیم ایک سو پچاس سے زیادہ نہیں!
ظاہر ہے یہ لازم نہیں کہ ایک ملک میں زیادہ ڈیم ہیں تو دوسرے ملک میں بھی اتنی ہی تعداد میں ہوں! بہت سے عوامل ہیں اور وجوہات‘ جو ڈیموں کی تعداد کا فیصلہ کرتی ہیں۔ بارشیں کتنی ہوتی ہیں؟ دریا کتنے ہیں؟ پہاڑوں سے پگھلی ہوئی برف اور گلیشیروں کا کتنا پانی نیچے اترتا ہے؟ زرعی ضرورت کتنی ہے ؟ یہ طے ہے اور اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں جتنے ڈیموں کی ضرورت تھی اور ہے‘ اتنے ڈیم بالکل نہیں تعمیر کیے گئے۔ بھارت کے ساتھ سندھ طاس کا جو معاہدہ ایوب خان کے عہد میں ہوا تھا اس کی رُو سے مشرقی دریا ( بیاس‘ ستلج راوی ) بھارت کے حصے میں آئے تھے اور مغربی دریا ( چناب‘ جہلم‘ سندھ ) پاکستان کے حصے میں۔ ایک معینہ مدت میں پاکستان کو ڈیم بنانے تھے جو نہیں بنے۔
یہ جو سیلاب کا مسئلہ ہے تو سیلاب ہر سال آتا ہے اور دہائیوں سے آرہا ہے۔ اگر اس قلمکار کا خیال غلط نہیں تو موجودہ پاکستان میں سیلاب‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آنا شروع ہوئے۔ اسے آپ توہم پرستی سے تعبیر کیجیے یا کسی اور چیز سے‘ ہم مغربی پاکستانی‘ مشرقی حصے میں ہر سال آنے والے سیلابوں سے بے نیاز ہی رہا کرتے تھے۔ کہیں یہ اُس لا تعلقی‘ اُس بے نیازی اور اُس سخت دلی کی سزا تو نہیں ؟ بہر طور اتنے عرصے سے سیلاب آرہے ہیں۔ ان کے راستے کم و بیش متعین ہیں۔ موسم کا بھی پتا ہے۔Patternsبھی نئے نہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی مجرمانہ غفلت ہے کہ روک تھام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ڈیم بنائے گئے نہ پشتے! لوگوں کو متنبہ کرنے کا نظام تک وضع نہیں کیا گیا۔وفاقی سرکار اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی اس معاملے میں کبھی بھی نہیں رہی۔ یہ ہماری عادت بن چکی ہے کہ مصیبت آئے تو شور مچاتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ آئندہ کے لیے کوئی منصوبہ بنائیں اور مستقبل کو محفوظ کرنے کی فکر کریں۔ ایک طرف پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہیں‘دوسری طرف کروڑوں گیلن پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ سٹور کرنے کا بندو بست صفر ہے!
ورلڈ بینک کی رپورٹیں کچھ اور کہتی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطابق تقریباً چالیس ممالک ایسے ہیں جہاں پانی پاکستان سے بھی کم ہے مگر ان کی واٹر مینجمنٹ(Management )بہتر ہے۔ ان کے انتظامات کا معیار اعلیٰ ہے۔ ہمارے ہاں پانی کے ضیاع کی کوئی حد نہیں۔ نہانے میں‘ کپڑے اور گاڑیاں دھونے میں‘ وضو کرنے میں‘ کفایت شعاری سے کام نہیں لیا جاتا۔ دنیا کے کئی ملکوں میں بارش کا پانی گھروں میں جمع کیا جاتا ہے جو گاڑیاں دھونے اور باغبانی کے کام آتا ہے۔ کچھ ملکوں میں بیسن کا پانی فلش کی ٹینکیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور عامل بہت اہم ہے۔ ہم سکولوں‘ کالجوں میں بالخصوص‘ اور عوام کو بالعموم‘ ترغیب ہی نہیں دے رہے کہ پانی کفایت شعاری سے استعمال کریں۔ لوگوں کو پانی کی قدرو قیمت کا احساس ہے نہ خبر! مستقبل کے خطرات سے بھی آگاہی نہیں! ہر سال چار ارب افراد‘ یعنی دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ‘کم از کم ایک ماہ‘ پانی کی شدید کمی کا سامنا کرتا ہے۔ دو ارب افراد اُن ملکوں میں رہ رہے ہیں جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔2025ء تک دنیا کی آدھی آبادی پانی کی قلت کا سامنا کرے گی۔2030ء تک ستر کروڑ افراد کو پانی کی قلت کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں سے ہجرت کرنا پڑے گی۔2040ء تک ہر چار بچوں میں سے ایک بچہ اپنے علاقے میں پانی کی شدید کمی کا سامنا کرے گا۔ ان مصائب کا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ مستقبل کی ضروریات سامنے رکھ کر مضبوط منصوبہ بندی کی جائے۔ پانی سے متعلق انفرا سٹرکچر پر توجہ دی جائے۔ نئے منابع تلاش کیے جائیں اور آن لائن ذرائع کو استعمال کر کے لوگوں کو پانی ضائع نہ کرنے کی تلقین کی جائے۔
یہ سطور لکھی ہی جارہی تھیں کہ ایک افسوسناک‘ انتہائی افسوسناک‘ خبر ملی۔ یہ کہ خیموں کی قیمتیں‘ مبینہ طور پر‘ بڑھا دی گئی ہیں۔ جو ہمارا‘ بطور قوم‘ کردار ہے اُس کے پیش نظر اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ ہم ہمیشہ یہی کرتے آئے ہیں۔رمضان میں کفار کے ممالک میں چیزیں مسلمانوں کے لیے ارزاں کر دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں روزہ داروں کو نوچا اور بھنبھوڑا جاتا ہے۔ غیر مسلم ملک‘ اپنی عید‘ یعنی کرسمس‘ پر سیل لگاتے ہیں جوہمارے ہاں کی جعلی سیل نہیں ہوتی بلکہ اصل سیل ہوتی ہے۔ مگر یہاں عید پر جو مصنوعی مہنگائی کی جاتی ہے اس سے انسانیت شرما کر منہ چھپانے لگتی ہے۔ اس وقت جب ہولناک سیلاب نے قیامت برپا کی ہوئی ہے‘ اور بے گھر خاندانوں کو خیموں کی شدید ضرورت ہے‘ خیموں کی قیمتیں بڑھانا سنگدلی کی انتہا ہے۔ سفاکی‘ بذاتِ خود‘ اس رویے پر رو رہی ہو گی! دنیا سے ہم بھیک مانگ رہے ہیں اور خود متاثرین کی‘ جو زندہ ہیں‘ کھالیں کھینچ رہے ہیں! تُف ہے اس سوچ پر اور ہلاکت ہے اس مائنڈسیٹ پر! کوئی اور ملک ہوتا تو خیمے سستے کر دیے جاتے! کبھی کبھی ذہن میں بلبلہ اُٹھتا ہے کہ سعودی عرب میں کتنے عرصہ سے چائے کے کپ کی‘ پانی کی بوتل کی اور روٹی کی قیمت وہی ہے جو تھی۔ حرمین کے قرب و جوار میں کھانا کھائیں تو ایک فرد کا کھانا دو انسان آسانی کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔ مکہ مکر مہ میں تو‘ اکثر و بیشتر ریستورانوں میں‘ زردہ ساتھ مفت دیتے ہیں۔ لوگوں کی اتنی تعداد اگر ہمارے ملک میں آ جائے تو ہم تو ناروا منافع خوری کی دھن میں باؤلے ہی ہو جائیں۔ وہی کچھ کریں جو رمضان میں اور عید پر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ کچھ وڈیروں نے اپنی زرعی زمینیں بچانے کے لیے‘ پانی کا رُخ آبادیوں کی طرف موڑ دیا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ انسان پستی کے اس درجے تک گر سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ خبریں درست ہیں تو ایسے لوگ زندگی ہی میں اس ظلم کا نتیجہ بھگتیں گے۔ قدرت کے قوانین کسی جاگیردار کے لیے تبدیل ہوتے ہیں نہ کسی صنعتکار کے لیے نہ کسی حکمران کے لیے۔ بدی کا بدلہ بدی ہی سے ملے گا۔ نظیر اکبر آبادی یاد آگئے؎
دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی سات لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دکھ درد دے آفات لے
ہم‘ شاید‘ من حیث القوم‘ تضادات اور اضداد کا مجموعہ ہیں۔ ہم میں سے کچھ‘ سیلاب زدگاں پر سب کچھ نچھاور کرنے پر تیار ہیں۔ لوگ اپنی قیمتی رضائیاں اور گراں بہا پوشاکیں ایسے مواقع پر دے دیتے ہیں۔ مگر ہم میں سے کچھ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے انسانی جسم سے گوشت تک کاٹ لینا چاہتے ہیں! آخر ہم کیسی قوم ہیں! آسمانوں پر فرشتے بھی حیران و پریشان ہوں گے!