فارسی کا ایک مشہور مصرع ہے :
قیاس کن ز گلستان من بہارِ مرا
یعنی‘ میرا باغ دیکھ کر اندازہ لگا لو کہ میری بہار کیسی ہو گی !
خبر ایک ہے مگر ایسی ہشت پا خبر ہے کہ آکٹوپس بھی شرما جائے۔ گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ کسی نے پاکستان کی حقیقت دیکھنی اور جاننی ہو تو وزیر آباد سیالکوٹ سڑک پر سفر کرے۔ مگر یہ خبر‘ اُس سڑک کی بھی ماں ہے! اس خبر سے بھی کسی تشریح کے بغیر پاکستان کی حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ اب ہمارا ملک اس اعلیٰ درجے پر فائز ہو چکا ہے کہ اس کی حقیقت سمجھانے کے لیے لفظ ناکافی ہیں اور بے بس ! اب تقریر یا تحریر سے کام نہیں چلتا۔ کتنا بولیں گے ؟ گھنٹوں ؟ پہروں ؟ کتنا لکھیں گے ؟ دفتر کے دفتر بھر دیں گے ؟پھر بھی ما فی الضمیر واضح نہیں کر سکیں گے! مگر ایک سڑک‘ یا ایک خبر‘ میں بسا اوقات اتنا ابلاغ ہوتا ہے کہ نہ صرف بات سمجھ میں آجاتی ہے بلکہ چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں!
اب دل تھام کر خبر کا سامنا کیجیے۔ خبر بھی کسی دور افتادہ ضلع یا کسی قصبے یا کسی گاؤں کی نہیں‘ عین وفاقی دارالحکومت کی ہے! یہ بائیس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ سال2000ء تھا۔اسلام آباد کے ایک شہری کے گھر کے باہر بجلی کے محکمے نے بھاری ٹرانسفارمر نصب کر دیا۔ بجلی کا ادارہ جو اسلام آباد کو بجلی فراہم کرتا ہے( یا نہیں کرتا ) آئیسکو کہلاتا ہے۔ شہری نے فریاد کی کہ وہ ملک سے باہر رہتا ہے‘گیٹ پر اتنا ہیوی ٹرانسفارمر اس کے گھر والوں کے لیے نہ صرف خطرہ ہے بلکہ آمد و رفت میں بھی پریشانی کا باعث ہے۔ آئیسکو نے ٹرانسفارمر ہٹانے کے لیے چارجز یعنی اخراجات کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ اس پر شہری وفاقی محتسب کی عدالت میں چلا گیا۔وفاقی محتسب نے آئیسکو کو مسئلہ حل کرنے کا حکم دیا۔ اب یہاں ایک اور کھلاڑی کھیل میں داخل ہوا۔ اس کا نام نیپرا ( یعنی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ) ہے۔ بجلی اور پانی کی ایک باقاعدہ وزارت ہے۔ یہ اتھارٹی اس کے علاوہ بجلی کے معاملات طے کرتی ہے۔ پھر وزارت کا کیا فائدہ اور کیا کام ؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے گا۔ بہر طور‘ نیپرا نے اٹھارہ برس کے بعد یعنی2018ء میں شہری کی درخواست نامنظور کر دی۔ اب یہاں ایک اور مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے اور وہ ہے وفاقی محتسب کا کردار! سینکڑوں ایسی مثالیں ہوں گی جن سے اس ادارے کی حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ یہ کالم نگار بھی ایک بار وفاقی محتسب کی عدالت میں فریاد کرنے گیا تھا۔ میرا مقدمہ وفاقی وزارت ِ ہاؤسنگ کے خلاف تھا۔ وفاقی محتسب نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کو وفاقی وزارت اور اس زمانے میں جو‘ اس وزارت کا سیکرٹری تھا اس نے جو اہمیت دی اس پر پنجابی کی ایک مثال صادق آتی ہے لیکن اگر اس مثال کو لکھا گیا تو میرا ایڈیٹر اس کی اشاعت کی ہر گز اجازت نہیں دے گا‘ اس لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ وفاقی محتسب کے فیصلے کو وزارت نے ہوا میں تحلیل کر دیا۔ اس مقدمے کی تفصیل پھر کبھی! اصل میں وفاقی محتسب کے فیصلے Recommendatoryہوتے ہیں یعنی یہ مشورہ ہوتا ہے یا تجویز یعنی سفارش۔ یہ فیصلے Mandatoryنہیں ہوتے یعنی ان فیصلوں کی نوعیت لازمی حکم کی نہیں ہو تی۔ کروڑوں کا بجٹ اور فیصلے محض سفارش کے درجے کے ! یعنی محض آنیاں جانیاں!! ہاں ایک فائدہ اس ادارے کا ضرور ہے کہ اونچی پہنچ رکھنے والا کوئی ریٹائرڈ افسر اس کا سربراہ لگ جاتا ہے اور یوں پانچ سال کے لیے سم سم کھل جاتا ہے۔
کبھی جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ سربراہ کے نیچے بھی ریٹائرڈ افسروں کی اس ادارے میں بھرمار ہے۔ یوں یہ ادارہ دارالامان کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ہم ہیوی ٹرانسفارمر کے معاملے کی طرف پلٹتے ہیں۔ نیپرا نے جب شہری کی درخواست مسترد کر دی تو شہری ہائی کورٹ چلا گیا۔ ہائی کورٹ میں آئیسکو نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسفارمر سی ڈی اے( وفاقی ترقیاتی ادارہ) کے منظور شدہ پلان کے مطابق نصب کیاگیاتھا۔عدالت نے سی ڈی اے کو طلب کیا۔ سی ڈی اے نے عدالت کی خدمت میں عرض کیا کہ عالی جاہ! ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اس ہیوی ٹرانسفارمر کی تنصیب تو سی ڈی اے پلان کی خلاف ورزی ہے! عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ادارے (آئیسکو اور سی ڈی اے ) ایک ماہ کے اندر اندر اس مصیبت کو شہری کے دروازے سے ہٹا کر کسی مناسب جگہ پر نصب کریں اور شہری کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کریں! یہ فیصلہ اب‘ یعنی ستمبر2022ء میں ہوا ہے۔ اندازہ لگائیں‘ بائیس برس بعد۔ جو بچہ اس کیس کے دائر ہوتے وقت پیدا ہوا وہ اب بائیس سال کا گبرو جوان ہو چکا ہے۔ یقینااس اثنا میں فریاد کرنے والے شہری کی کمر یقینا جھک گئی ہو گی۔ بال سفید ہو چکے ہوں گے۔ بائیس سال اس کے ٹھوکریں کھاتے گزر گئے۔ کبھی آئیسکو‘ کبھی وفاقی محتسب‘ کبھی نیپرا۔ کبھی سی ڈی اے اے کبھی ہائی کورٹ! میرا لکھنا اور آپ کا پڑھنا آسان ہے مگر اُس شہری کی بے بسی‘ بے کسی اور حالتِ زار کا اندازہ لگائیے جو انصاف کی تلاش میں بائیس سال‘ پورے بائیس سال‘ دروازوں پر دستک دیتا رہا۔
اب اس کیس کا جائزہ لیجیے۔ یہ ایک پیاز ہے۔ ایک ایک چھلکا اتارتے جائیے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے جائیے۔ اوّل: کیا ہیوی ٹرانسفارمر نصب کرتے وقت‘ نصب کرنے والوں اور تنصیب کا حکم دینے والوں کی آنکھوں میں کالا موتیا اترا ہوا تھا کہ ان کو شہری کا مکان اور مکان کا گیٹ نہیں نظر آیا؟ دوم: یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ٹرانسفارمر ہٹانے کے اخراجات‘ مدعی‘ بھرے؟کیا اُس نے لگایا تھا؟ کتنا بھونڈا مذاق ہے یہ! جس افسر یا جس کارندے نے یہ مطالبہ کیا‘ اسے عبرت ناک سزا ملنی چاہیے! سوم: شہری وفاقی محتسب کے دربار میں حاضر ہوا۔ کیا اس کا مسئلہ حل ہوا؟ نہیں! کیوں؟ اس پر غور ہونا چاہیے! اس صورتحال کا مداوا ہونا چاہیے! حضور! عالی جاہ! متعلقہ قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے! یہ تبدیلی کر ڈالیے۔ چہارم: نیپرا نے شہر ی کی درخواست کس بنیاد پر مسترد کی؟ پنجم: عدالت کے سامنے جھوٹ بولا گیا کہ ٹرانسفارمر کی تنصیب سی ڈی اے کے پلان کے مطابق تھی۔ سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ یہ تو پلان کی خلاف ورزی تھی۔ جھوٹ بولنے والے افسر یا کارندے کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ جھوٹ بول کر عدالت کے تقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی! ششم: ایک لاکھ روپے کی رقم پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ یہ عدالت کا حکم ہے اور ہمیں‘ ہر حال میں‘ عدالت کا احترام ملحوظِ خاطر ہے!
اُن ماہ و سال کا حساب کون دے گا جو شہری نے انصاف کی تلاش کرتے ہوئے دستکوں میں دفن کر دیے۔ ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک! دوسرے دروازے سے تیسرے دروازے تک! تیسرے دروازے سے چوتھے دروازے تک! وہ بھی عین وفاقی دارالحکومت میں! اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ دور کے شہروں‘ قصبوں اور قریوں میں کیا ہو رہا ہے!
سکولوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں میں ایک مضمون ''مطالعہ پاکستان‘‘ (پاکستان سٹڈیز) کے نام سے پڑھایا جا رہا ہے۔ اس خبر کو اس کورس کا حصہ بنا دیجیے۔ طالبات اور طلبہ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ پاکستان کیا ہے! کیسا ہے؟ اور کیوں ہے؟ بقول جون ایلیا ؎
اس شہر کی حفاظت کرنی ہے ہم کو جس میں
آندھی کی ہیں فصیلیں اور گرد کا مکاں ہے