عمران خان پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسا حملہ کسی عام آدمی پر بھی نہیں ہونا چاہیے چہ جائیکہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر پر ! جب نوبت بندوق کی گولی تک جا پہنچے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس نوبت تک پہنچنے کے لیے بہت سا کام کیا گیا ہے ! اس سے پہلے بہت سے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے الزام کا مرحلہ آتا ہے ! الزام کے بعد اگلا منطقی مرحلہ قانونی کارروائی کا ہونا چاہیے۔ مگر جب قانونی کارروائی کے بجائے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے تو اگلا مرحلہ دھمکی کا ہو تا ہے۔ پھر گالی دی جاتی ہے۔اور آخر میں بندوق کی گولی چلتی ہے!
اس ملک میں سیاست کچھ سالوں سے الزام‘ دھمکی اور گالی کے گرد طواف کر رہی ہے۔ قانون کی کوئی اہمیت نہیں ! عدالت حق میں فیصلہ کرے تو اچھی ہے۔ خلاف فیصلہ کرے تو بری ! ادارے ساتھ دیں تو قابلِ قبول ہیں۔ چوں چرا کریں تو قابلِ نفرت! جب خود پر لگے کسی الزام کو درخور اعتنا نہ گردانا جائے اور دوسروں پر الزامات کی بارش کر دی جائے‘ جب دوسرے کی بات نہ سنی جائے اور اپنی بات مسلسل سنائی جائے‘ جب دلیل کے بجائے گالی لڑھکائی جائے تو بندوق کی گولی کو کوئی نہیں روک سکتا !
ایک سیاسی لیڈر میں اور محلے کے ایک ناراض نوجون میں فرق ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ جب سیاسی لیڈر کا تکیہ کلام یہ ہو کہ ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ یا '' اوئے کان کھول کر سن لو‘‘ تو سیاست محلے کے لڑاکا نوجوانوں کی سطح پر آجاتی ہے۔ جب لیڈر‘ لڑکوں کی طرح چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہے کہ '' نہیں چھوڑوں گا‘‘ تو عوام اس سے بھی دو ہاتھ آگے جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست ابتذال اور پستی کا شکار ہو چکی ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا دور دورہ ہے۔ دلیل کونوں کھدروں میں چھپی زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔
اگر یہ حملہ سیاسی مخالفوں کی سازش ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ تفتیش ہونی چاہیے اور اصل ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔اگر یہ مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ ہے تو سوچنا چاہیے کہ اس کے اسباب و علل کیا ہیں۔ مذہب کے نام پر جو انتہا پسندانہ سوچ پیدا کی جارہی ہے اس کے آگے بند باندھنا ہو گا ورنہ سب کچھ اس میں بہہ جائے گا۔ اس سے پہلے احسن اقبال صاحب پر حملہ ہوا۔ سیالکوٹ میں ایک غیر ملکی غیر مسلم کو بے دردی سے مار دیا گیا۔ بدنامی ہوئی اور جگ ہنسائی ! بے شمار واقعات ایسے ہوئے ہیں جو باعثِ ندامت ہیں اور عالمی برادری میں ہماری شرمساری کی وجہ بنے ہیں۔ افسوس! ہم نے ان سے کوئی سبق سیکھا نہ کوئی لائحہ عمل ہی طے کیا۔اس انتہا پسندی کی ذمہ داری معاشرے کے کسی ایک طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی! صرف مدارس اور علما کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک لایعنی تسہیل (oversimplificatin)ہے۔ اس کی پشت پر اقتصادی سچائیاں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ کیا پالیسی سازوں نے کبھی سوچا ہے کہ انہی علاقوں میں انتہاپسند کیوں زیادہ ہیں جہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ؟ جہاں جاگیرداروں‘ خانوں اور سرداروں کی حاکمیت ہے ؟ جہاں سکول کالج اور یونیورسٹیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ اور بات کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں نے بھی انتہا پسند خاصی تعداد میں پیدا کیے ہیں!
اس وقت سیاسی حوالے سے ہم تباہی کے گڑھے کے عین سامنے کھڑے ہیں۔ ایک ہیبت ناک ڈیڈ لاک‘ سروں پر تنا ہوا ہے۔ ہم کیا اور ہماری بساط کیا! تاہم ایک دردمند پاکستانی کی حیثیت سے چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں کہ بقول احمد ندیم قاسمی :
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے
٭ وفاقی حکومت کی طرف سے وزرا اور ارکان ِاسمبلی پرمشتمل فی الفور ایک وفد ترتیب دیاجائے۔ یہ وفد عمران خان صاحب کی عیادت کے لیے ان کے پاس جائے۔ نیک خواہشات کا اظہار کرے اور ان کی صحت کے لیے دعا کرے۔ خان صاحب وفد کو ملیں یا نہ ملیں‘ حکومت کو اس ضمن میں اپنا اخلاقی فرض ضرور سرانجام دینا چاہیے۔
٭ تحریک انصاف اور اس کی مخالف جماعتوں کے درمیان گفت و شنید کا دروازہ ہر حال میں کھلنا چاہیے۔ شائستگی اور تہذیب کا تقاضا یہی ہے۔ فریقین کو سمجھنا چاہیے کہ مسائل بیٹھ کر بات چیت کرنے سے طے ہوتے ہیں۔ للکارنے اور آوازے کسنے سے معاملات مزید بگڑتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں‘ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے دوسری صف کے رہنما ملاقات کریں۔ گفت و شنید کا ایجنڈا طے کریں۔ برف پگھلائیں۔کسی درمیانی نقطۂ اتصال تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
٭ تحریک انصاف کے معتدل عناصر اپنے لیڈر کو قائل کریں کہ آخر کار انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہی ہوگا۔ اس کام میں وہ لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں جو تحریک انصاف میں شامل نہیں مگر خان صاحب سے بات کر سکتے ہیں۔ عمران خان جنہیں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کہتے رہے ہیں‘ اگر حکمرانی کا تاج اپنے ہاتھوں سے ان کے سر پر رکھ سکتے ہیں تو جن دوسرے افراد کو وہ ڈاکو اور چور کہتے ہیں‘ ان سے بات کیوں نہیں کر سکتے ؟
٭ آخری مرحلے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے سربراہ اور عمران خان مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور تمام متنازع امور طے کریں۔ ایک درمیانی راستہ ہر مسئلے کا‘ کہیں نہ کہیں‘ موجود ہوتا ہے! اس درمیانی راستے تک پہنچنے کے لیے ہر رکاوٹ کو عبور کرنا چاہیے ! اس کے سوا جو تدبیر بھی کی جائے گی وہ خرابی پر منتج ہو گی! ایجی ٹیشن کا راستہ جس جنگل کی طرف جاتا ہے وہاں عافیت نہیں‘ تباہی ہے! اس تباہی کی ایک جھلک ملک دیکھ چکا ہے۔ املاک جلانا اور ملکی اور انفرادی اثاثے برباد کرنا‘ غیر ملکی ایجنڈا تو ہو سکتا ہے‘ کسی محب وطن پاکستانی کا نہیں ہو سکتا! معظم گوندل نامی شخص جوایک ماہ پہلے کویت سے وطن واپس آیا تھا‘ فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا۔ اس کا کیا قصور تھا؟ اس کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کون کرے گا؟اسلام آباد‘ فیض آباد کے مقام پر ایک بے گناہ نوجوان‘ مشتاق‘ کی موٹر سائیکل کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اس سے پارٹی کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ بہت سے دعوے کرنے والی اس پارٹی کے کارکن بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو دوسرے لوگ کرتے رہے ہیں۔ یہ موٹر سائیکل اس غریب شخص کا واحد ذریعۂ روزگار تھا جس سے وہ اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا تھا اور اپنی تعلیم کے اخراجات بھی پورے کر رہا تھا۔
آخر کب تک ہم عوام‘ سیاست دانوں کو اقتدار میں لانے کیلئے‘ ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے ؟دریاں بچھانے‘ کرسیاں سَیٹ کرنے‘ نعرے لگانے اور جلوس نکالنے کی حد تک تو لیڈروں کی خدمت ٹھیک ہے مگر دوسروں کی املاک تباہ کرنا کون سی خدمت ہے؟ بر صغیر کی بھی عجیب قسمت ہے۔ پہلے ہم لوگ بادشاہوں کیلئے لاشوں کے ڈھیر لگاتے رہے۔اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ آج جب نام نہاد جمہوریت کا زمانہ ہے تو صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ تخت نشینی کی جنگیں آج بھی لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہی ہیں۔ خانوادے آج بھی حکمرانی کر رہے ہیں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ پر کئی عشروں سے مخصوص خاندانوں کا قبضہ ہے تو تحریک انصاف بھی ربع صدی سے ایک ہی شخصیت کے ہاتھ میں ہے۔ جمہوریت بھی یہاں آکر کانِ نمک میں نمک ہی ہو گئی۔انجم رومانی نے کہا تھا:
انجمؔ غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے