طبیعت ان کی کئی دنوں سے عجیب سی ہو رہی تھی۔خراب بھی نہیں کہہ سکتے مگر ٹھیک بھی نہیں تھی!
دفتر سے آتے تو بیزار دکھائی دیتے۔ کچھ ہفتوں سے نماز بھی مسجد کے بجائے گھر میں پڑھنے لگے تھے۔سوشل لائف ان کی تقریباً ختم ہو گئی تھی۔ خاندان کی تقاریب میں جانا چھوڑ دیا تھا۔دوستوں سے گریزاں رہنے لگے تھے۔کوئی ملنے گھر آجاتا تب بھی خاموش ہی رہتے حالانکہ زندگی بھر خوش مزاج اورہنس مکھ رہے۔ احباب اور اقارب کی دعوتیں بہت کرتے تھے۔ اب ان کی یہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ کھانا پینابالکل کم کر دیا تھا۔ سگریٹ زیادہ پینے لگے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ زندگی بھر‘ صبح اٹھنے کے بعد‘ بے تابی سے اخبار کاانتظار کرتے رہے مگر اب اخبارپڑھنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پر خبریں سننے کا بہت شوق تھا۔گاڑی میں ہمیشہ ریڈیو پر خبریں سنا کرتے تھے۔ مگر اب ٹی وی‘ ریڈیو سب کچھ بھلا بیٹھے تھے۔ اکثر چائے کی فرمائش کرتے اور میں بنا کر دیتی مگر اب یہ حال ہو گیا تھا کہ خود کہنا تو دور کی بات‘ میں پوچھتی کہ چائے بنا لاؤں تو کہتے '' نہیں! جی نہیں چاہتا‘‘۔ میں اور بچے بہت پریشان تھے کہ انہیں کیا ہوا ہے۔ مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ہم پوچھتے کہ جو معاملہ بھی آپ کے ساتھ پیش آیا ہے‘ ہم سے شیئر کیجیے تا کہ اور کچھ نہیں تو آپ کا کتھارسس ہی ہو جائے مگر کوئی جواب نہ دیتے۔ ہم زیادہ اصرار کرتے تو کہتے مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ بڑے بیٹے نے کئی بار منت کی کہ ماہرِ نفسیات کے پاس چلتے ہیں مگر ان کا جواب یہ ہوتا کہ اس نے کیا کرنا ہے؟ وہ کچھ نہیں کر سکتا!
جس دن یہ واقعہ پیش آیا ہے اس دن صبح پہلے ملازم ان کے لیے ناشتہ لے کر گیا۔ ہمیشہ ناشتہ سب گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر کرتے تھے مگر جب سے تنہائی کو اپنایا تھا اور مردم بیزاری طاری ہوئی تھی‘ ناشتہ اوردوپہر اور رات کا کھانا کمرے میں کھانے لگے تھے۔ ملازم نے آکر بتایا کہ صاحب دروازہ نہیں کھول رہے۔ میں نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لے لیا اور خود گئی۔ کئی بار دستک دی مگر دروازہ انہوں نے نہ کھولا۔ بیٹے کو بتایا تو اس نے کمرے کی عقبی کھڑکی کو چیک کیا۔ اتفاق سے وہ کھلی تھی۔ کھڑکی کے راستے وہ کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ کھولا۔ وہ سوئے ہوئے تھے۔ میں نے کہا: اٹھیے‘ ناشتہ کر لیجیے۔ انہوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔ میں نے ان کے منہ سے چادر ہٹائی تو گردن ایک طرف لڑ ھکی ہوئی تھی۔ نہ معلوم رات کو کس وقت جان پروردگار کے سپرد کی اور مجھے بیوہ اور بچوں کو یتیم کر کے چلے گئے۔
تدفین کے چار پانچ دن بعد جب میرے اوسان کچھ بحال ہوئے تو میں نے ان کا بستر ٹھیک کیا۔ میرے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ جب بھی بستر ٹھیک کرتی‘ کہتے کہ ہر روز بیڈ شیٹ جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔تم بیکار میں تھکتی رہتی ہو۔ تکیے کے نیچے سفید رنگ کا لفافہ نظر پڑا۔اس پر میرا نام لکھا تھا۔ کھولا تو ان کا خط تھا۔ اُس پر ایک ہفتہ پہلے کی تاریخ درج تھی۔ خط تھا یا درد کی تفسیر تھی! میں نے پڑھنا شروع کیا:
'' میری زندگی کا چراغ بجھنے کو ہے۔ ہو سکتا ہے تم جب یہ خط پڑھو‘ مجھے گزرے ہوئے کئی دن ہو چکے ہوں! مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے!‘‘
''زندگی بہت مزے کی گزر رہی تھی۔ ترتیب بھی تھی۔ تہذیب بھی! دوستوں کے ساتھ شائستہ گفتگو ہوتی تھی۔ اعزّہ و اقارب کے ساتھ محفلیں بر پا ہوتی تھیں۔ دفتر میں رفقائے کار کے ساتھ خوب نبھتی تھی۔ بیٹے اور بیٹیاں ساتھ مل بیٹھتے تھے تو خوب رونق ہوتی تھی۔ فلسفہ‘ تاریخ‘ اور اقتصادیات پر بات چیت ہوتی تھی۔ میرؔ‘ غالبؔ اور اقبالؔ کی شاعری پر بحث ہوتی۔ پڑوسیوں سے خلوص کا رشتہ تھا۔ نماز ادا کر کے مسجد سے نکلتے تو ایک دوسرے سے اہل و عیال کی خیریت دریافت کرتے۔ ایک دوسرے کی باغبانی کا پوچھتے۔ محلے کے فلاحی کاموں پر بات ہوتی۔‘‘
'' پھر نہ جانے کیا ہوا۔ سب کچھ بدل گیا۔ ہر طرف سیاست پر بات ہونے لگی۔ یہ سیاست بھی عجیب سیاست تھی۔ اس میں ملکی اور قومی ترقی کے منصوبوں پر بات نہیں ہوتی تھی۔ صرف'' میرا لیڈر‘ تیرا لیڈر‘‘ پر گفتگو ہوتی۔ دفتر کا ماحول گندہ ہو گیا۔ سارا دن ایک دوسرے کے لیڈروں کے کچے چٹھے کھولے جاتے۔ اونچی آوازوں میں تلخ لہجے نمایاں ہوتے۔ دوستوں کی منڈلی میں بھی یہی کچھ ہوا۔ جو دوست ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے‘ ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ بحث ہوتی۔ پھر جھگڑا شروع ہو جاتا۔ میں اس زندگی سے تنگ آگیا۔ مسجد سے باہر‘ نمازی‘ جو چند منٹ پہلے‘ کندھے سے کندھا ملا کر‘ سجدہ ریز تھے‘ چلّا چلّا کر‘ طعن و تشنیع کر رہے ہوتے۔ شادی کی تقریب ہوتی یا تعزیتی اکٹھ‘ ایک دوسرے کے لیڈروں کے لتے لیے جا رہے ہو تے۔لڑکے بالے‘ جو پہلے ادب احترام کرتے تھے‘ اب منہ کو آنے لگے تھے۔ گھر میں کوئی دوست یا رشتہ دار آتا تو ابتدائی علیک سلیک کے بعد‘ گفتگو کا رخ اسی نام نہاد سیاست کی طرف مُڑ جاتا۔ ٹی وی لگاتا تو ہر چینل پر وہی نام‘ وہی دشنام‘ وہی الزام‘ وہی لڑائیاں۔ ایک کہتا تمہارا لیڈر ڈاکو ہے۔ دوسرا کہتا تمہارا لیڈر چور ہے۔ لاؤنج میں بیٹھتا تو بیوی کی آواز آتی۔ کسی سہیلی سے فون پر بات کر رہی ہوتی۔ وہی بحث! وہی اپنے لیڈر کی توصیف اور دوسرے کے لیڈر کی چیر پھاڑ! ریل کار میں پنڈی سے لاہور گیا تو تمام راستہ ایک عذاب میں کٹا۔ لوگ بحث کر رہے تھے۔ لوگ چیخ رہے تھے‘ لوگ چلّا رہے تھے۔ لوگ چنگھاڑ رہے تھے۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے تھے۔ اخبار دیکھ کر ابکائی آنے لگتی۔لمبے لمبے زہریلے بیانات۔ ایک دوسرے کے خلاف عدالتی مقدمے۔ پھر جوابی مقدمے! اداریوں اور کالموں میں بھی وہی لڑائی جھگڑے! انتہا یہ ہوئی کہ ایک دوسرے کے لیڈر کے مرے ہوئے والدین کو بھی نہ بخشا گیا۔
یہ زندگی نہیں! یہ پانی پت کا میدان ہے۔ یہ شاہجہان کے بیٹوں کی جنگِ تخت نشینی ہے۔اس ماحول میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ شدید ذہنی تناؤ اور دباؤ میں ہیں۔ سوشل میڈیا کا عفریت آہستہ آہستہ انہیں کھا رہا ہے۔ نگل رہا ہے۔ پورا ملک ایک ہیجان‘ ایک خلجان‘ایک خلفشار‘ ایک اختلاج میں مبتلا ہے۔ یوں لگتا ہے خلقِ خدا کے جسموں کے اعضا پھڑک رہے ہیں اور کسی بھی لمحے ان کے گُردے‘ انتڑیاں‘ جگر‘ دل اور پھیپھڑے اچھل کر باہر آ جائیں گے۔ میں اب یہاں مزید نہیں رہ سکتا۔ کسی سے ملنا ممکن ہے نہ کسی کو بلانا۔ کئی مہینوں سے میں ایک قیدی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میری عمر زیادہ ہے نہ مجھے کوئی خطرناک مرض ہی لاحق ہے۔ میں محض اپنی قوتِ ارادی سے مر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ لحد میں ماحول اس سے کہیں بہتر ہو گا۔منکر نکیر کے سوالات جتنے بھی مشکل ہوں‘ یہاں کی نہ ختم ہونے والی مکروہ بحثوں کی نسبت آسان ہی ہوں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں اس طرح چھوڑ کر جا رہا ہوں مگر سچ یہ ہے کہ تمہیں بھی مجھ سے زیادہ دلچسپی اب ان بحثوں میں تھی۔ میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اپنی سہیلیوں کو صرف اس لیے بلاک نہ کرو کہ ان کا لیڈر تمہیں اچھا نہیں لگتا مگر تم نے برسوں پرانے تعلقات کو تکبیر پڑھے بغیر ذبح کر دیا۔ خیر! مجھے اس سے کیا!
میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا
میری بلا سے بُوم رہے یا ہما رہے