شبر زیدی کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی نہیں سنا کہ وہ مسلم لیگ نون یا قاف کا حصہ رہے۔ جے یو آئی کی قربت کا اعزاز بھی انہیں حاصل نہیں! جس عہدِ ہمایونی میں بڑے بڑے لوگ خاک کے فرش پر بیٹھ کر الطاف بھائی کے فنِ خطابت سے مسحور ہوتے تھے اور ناک پر بیٹھی مکھی اڑانے کا خطرہ بھی مول نہیں لیتے تھے‘ شبر زیدی کو وہاں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ عبوری دور میں سندھ کے وزیر خزانہ رہے۔ ٹیکس کے جملہ امور کے ماہر ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنے دورِ اقتدار میں انہیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کا سربراہ بنایا۔ نیت خان کی نیک تھی کہ ٹیکس کا دائرہ وسیع تر کیا جائے مگر شبر زیدی ناکام ہوئے۔ یا ناکام کر دیے گئے۔
اب شبر زیدی نے تحریک انصاف کی انقلابی حکومت کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔ عمران خان نے‘ بقول عمران خان کے‘ امریکہ کے سامنے تو Absolutely not کا نعرہ لگایا مگر اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے سامنے جب یہ نعرہ لگانے کا وقت آیا تو خان صاحب کو ہنسی آگئی۔ شبر زیدی نے جو کچھ بتایا ہے اس سے اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ثبت ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف اور دوسری پارٹیوں کی حکومت میں کچھ خاص فرق نہیں تھا اس لیے کہ وزیر‘ امیر اور مشیر وہی تھے جو ہر حکومت میں حصہ دار رہے! وہی شیخ رشید! وہی چودھری پرویز الٰہی‘ وہی زبیدہ جلال‘ وہی حفیظ شیخ‘ وہی فواد چودھری‘ وہی فہمیدہ ریاض‘ وہی غلام سرور خان‘ وہی عمر ایوب‘ وہی اعظم سواتی‘ وہی ڈاکٹر عشرت حسین اور وہی فردوس عاشق اعوان! آپ دیکھ لیجئے گا مستقبل میں بھی یہی عمائدین‘ یہی امرا‘ یہی معززین حکومت کریں گے۔ اب محاورہ یہ نہیں ہے کہ نئی بوتل میں پرانی شراب! اب محاورہ یہ ہے کہ نئے وزیراعظم کی کابینہ میں وہی پرانے وزیر! وزیراعظم ہمارے ہاں کیا ہے؟ مکان کے اوپر لگی نام کی تختی ہے۔ مکان وہی ہے۔ مکین بدل جاتا ہے۔ کابینہ کم و بیش وہی رہتی ہے۔ وزیراعظم بدلتا رہتا ہے۔ مستقبل میں بھی حکومت جس کی بھی ہوئی‘ پی پی پی کی یا مسلم لیگ (ن) کی یا تحریک انصاف کی‘ کابینہ میں یہی لوگ ہوں گے۔ اس لیے کہ سوسائٹی کا ڈھانچہ وہی ہے۔ ووٹ انہی کو ملتے ہیں جنہیں ملتے آئے ہیں۔ شبر زیدی کہتے ہیں انہوں نے ''ملتان کے ایک بڑے زمیندار کو نوٹس بھیجا تو قریشی صاحب کی قیادت میں 40 اراکینِ اسمبلی آگئے‘ دریشک صاحب نے کہا کہ اس چکر میں مت پڑو‘ یہ تمہارے بس کا کام نہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایم این ایز سے لڑ کر کوئی حکومت رہ نہیں سکتی!‘‘۔ بالکل درست! سو فیصد درست! اس لیے کہ ایم این ایز ہر اسمبلی میں یہی ہوں گے اور ان کے مطالبات‘ ان کی امیدیں‘ ان کے مقاصد‘ ان کا مائنڈ سیٹ کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔ جب تک سوسائٹی کا فیبرک تبدیل نہیں ہوتا یہی حضرات منتخب ہوتے رہیں گے۔ سوسائٹی کا فیبرک کب تبدیل ہو گا؟ جب جاگیر دار‘ وڈیرے‘ فیوڈل‘ پیر‘ سردار‘ قریشی‘ گیلانی‘ کھوسے‘ لغاری‘ کھر‘ مہر اور دوسرے طاقتور عناصر پیش منظر سے ہٹیں گے۔ جب زرعی اصلاحات‘ حقیقی زرعی اصلاحات‘ وجود میں آئیں گی۔ جب تعلیم عام ہو گی۔ سیاسی شعور ذہنی غلامی پر غالب آجائے گا اور اس سب کچھ کے بعد سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی روایت نہ صرف پڑے گی بلکہ پختہ بھی ہو جائے گی۔ اس سارے عمل میں ہمارے ہاں پچاس سال بھی لگ سکتے ہیں‘ سو سال بھی اور اس سے زیادہ بھی! آخر خواب دیکھنے پر پابندی تو نہیں ہے نا!!
شبر زیدی بتاتے ہیں کہ انہوں نے تمباکو مافیا کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوشش کی تو اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایم این ایز کو لے کر آگئے کہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ قبائلی علاقوں میں سٹیل ری رولنگ ملز پر ہاتھ ڈالا تو فاٹا کے سینیٹرز چیئرمین تحریک انصاف کے پاس پہنچ گئے۔ شبر زیدی کی یہ تشخیص سو فیصد درست ہے کہ ''شٹر پاور‘‘ ٹیکس کے راستے میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس ضمن میں ہم صرف یہ ترمیم کریں گے کہ یہ شٹر پاور نہیں شٹر مافیا ہے!! ہمارے مستقل قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک عرصہ سے ہم اس شٹر مافیا‘ یعنی تاجر حضرات کی خود سری‘ لاقانونیت اور دھاندلی کے خلاف لکھ رہے ہیں! ٹیکس چوری تو ایک مسلّمہ حقیقت ہے جس میں یہ مافیا ملوث ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس مافیا کے بہت سے جرائم ہیں! اوقات کار کا ایشو ہی دیکھ لیجئے۔ ہر حکومت نے کوشش کی کہ بازار سر شام بند ہوں اور صبح سویرے کھلیں تاکہ توانائی بچ سکے۔ مگر ہر بار اس مافیا نے حکومت کو زچ کیا۔ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں بازار دن کے ایک بجے کھلتے ہیں نہ آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی معاشی اور سماجی نحوست ہے جو اس ملک پر چھائی ہوئی ہے! مستقبل قریب میں اس کا کوئی حل نہیں دکھائی دے رہا۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آہنی ہاتھ درکار ہیں جو کم از کم لمحۂ موجود میں کہیں نظر نہیں آرہے!
اس کے بعد تجاوزات کے مسئلے پر غور کیجئے۔ شٹر مافیا نے پورے ملک کو ناجائز تجاوزات سے بدصورت کر رکھا ہے۔ فٹ پا تھ‘ راستے‘ گلیاں‘ سڑکیں سب پر ان کا قبضہ ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں بھی یہ برائی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ اس میں ترقیاتی ادارے کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ اسلام آباد کے تمام بازار دیکھ لیجئے۔ آبپارہ‘ سپر مارکیٹ‘ جناح سپر‘ مرکز ایف ٹین‘ جی ٹین کے بازار‘ میلوڈی‘ سب کے سب مکروہ تجاوزات سے اَٹے پڑے ہیں۔ جو بازار کسی زمانے میں مثالی ہوتے تھے‘ آج راجہ بازار اور ٹنچ بھاٹہ کا نمونہ بنے ہوئے ہیں! ایک اور برائی یہ ہے کہ تاجر حضرات پاکستان میں کسی قسم کی ''ریفنڈ پالیسی‘‘ نہیں چلنے دیتے۔ پوری دنیا میں خریدا ہوا مال واپس کر دیا جاتا ہے اور واپس لے لیا جاتا ہے مگر ہمارے ملک میں یہ ناممکنات میں سے ہے! بہت احسان چڑھائیں گے تو کہیں گے کہ اس کے بدلے میں کوئی اور شے لے لیجئے‘ تجوری کو ہاتھ نہیں لگائیں گے۔
اس لکھنے والے نے ایک معروف مقامی برانڈ کی دکان سے کچھ ملبوسات لیے۔ پہنے گئے تو ان میں سے کچھ مناسب نہ محسوس ہوئے۔ دوسرے دن واپس کرنے گیا تو بتایا گیا کہ ریفنڈ کی اجازت نہیں۔ بس یہ ہے کہ اتنی ہی مالیت کی کوئی اور چیز لے لیجئے۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس برانڈ کا ہیڈ آفس تلاش کیا اور انہیں ای میل کی کہ اگر اشیا واپس لے کر رقم نہ لوٹائی گئی تو میں (1) سوشل میڈیا پر مہم چلاؤں گا (2) عدالت جاؤں گا اور (3) پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس سینہ زوری کو برہنہ کروں گا! تیسرے دن جواب آیا کہ آپ کو رقم خصوصی احکام کے تحت واپس کی جاتی ہے۔ اور واپس ہوئی۔ اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ حالات احتجاج سے بدلتے ہیں‘ بکری بننے سے نہیں بدلتے۔ ہاں! احتجاج قانونی حدود کے اندر ہو اور تشدد سے پاک ہو! یہاں شے کا نقص بتانے سے بھی موت پڑتی ہے۔ بیرونی دنیا میں شے کا نقص صاف صاف بتایا جاتا ہے اور یہ رہنمائی بھی کر دیتے ہیں کہ مطلوبہ شے فلاں دکان میں ملے گی مگر ہمارے ہاں گاہک کو یوں جال میں پھنسایا جاتا ہے جیسے مکڑا مکھی کو پھنساتا ہے کہ آگیا ہے تو اب جانے نہ پائے۔ کوالٹی کے بارے میں پوچھیں گے تو لگا بندھا جواب ملے گا کہ ''کوئی شکایت اس شے کی نہیں آئی‘‘۔ شکایت کرنے کا کلچر ہی کہاں ہے؟ عزت بچانے کی خاطر گاہگ دکاندار کے پاس واپس جاتا ہی نہیں! شکایت کیا خاک کرے گا؟
اس میں کیا شک ہے کہ شٹر پاور یہاں بہت بڑی پاور ہے۔ منظم اور مضبوط پاور!! کاش کوئی ایسی حکومت آجائے جو اس پاور کو زیر کر سکے!