جیلانگ( آسٹریلیا) کے جس گھر میں میرا قیام تھا وہاں سے بازار قریب ہی تھا۔ ایک شام سودا سلف لے کر واپس آرہا تھا کہ ایک مکان کے سامنے‘ راستے کے بالکل ساتھ‘ ایک رَیک سا نظر آیا۔ اس کے اوپر پلاسٹک کا پردہ اس طرح ڈالا گیا تھا جیسے کترنیں عمودی طور پر لٹکی ہوئی ہوں۔ قریب جا کر دیکھا تو ریک میں کتابیں رکھی تھیں۔ پلاسٹک کی عمودی کترنیں یقینا کتابوں کو بارش وغیرہ سے بچانے کے لیے تھیں۔ رَیک کے اوپر چھوٹا سا کارڈ رکھا تھا۔ اس پر لکھا تھا: '' یہاں سے آپ کتاب پڑھنے کے لیے لے جا سکتے ہیں۔ پڑھ کر واپس یہیں رکھ دیجیے۔ یا اس کے بدلے میں کوئی اور کتاب! یا جتنی کتابیں بھی آپ یہاں رکھ سکتے ہیں !‘‘
مجھے ریک پر رکھی کتابوں میں سے ایک کتاب پسند آئی۔ گھر لے آیا۔ دوسرے دن اپنی کچھ کتابیں جن کی جدائی برداشت ہو سکتی تھی‘ ریک میں رکھ آیا۔ بیرون ملک جا کر کوئی بھی نئی اور اچھی شے دیکھیں تو سب سے پہلے اپنے وطن کا خیال آتا ہے۔ سوچا واپس وطن جا کر گھر کے باہر‘ اپنی گلی میں ایسا ہی ایک ریک رکھوں گا جس میں کتابیں ہوں گی! معاً اپنے ہاں کے ''زمینی حقائق‘‘ نے اس سوچ کو اپنے نرغے میں لے لیا۔یہ جو لفظ ہے '' زمینی حقائق‘‘ یہ بھی ایک عجیب شے ہے۔ تلوار کی دھار سے زیادہ تیز! بال سے زیادہ باریک! آگ سے زیادہ گرم! برف سے زیادہ ٹھنڈا! زمینی حقائق بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں! یہ جوجغادری وزارتِ خزانہ میں بیٹھے ہیں اور یہ جو بزرجمہر منصوبہ بندی( پلاننگ) ڈویژن میں تشریف فرما ہیں‘ جتنی اقتصادیات باہر کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آتے ہیں‘ زمینی حقائق انہیں پٹخنی دے کر ناکام کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو گاؤں کو دیکھا ہی نہیں ہوتا! فرنگیوں نے زمینی حقائق کا ایک اور نام بھی رکھا ہوا ہے جو نسبتاً کم ہولناک ہے۔ یعنی Given Conditions۔
خیر ! یہ ایک طویل داستان ہے جس کی تفصیل پھر کبھی! کہہ یہ رہا تھا کہ زمینی حقائق کا سوچا تو گھر کے باہر کتابوں کا ریک رکھنے کا خیال ڈوبتے چاند کی طرح لگا۔اول تو کتابیں لے جانے والوں میں سے واپس کرنے والے کم ہی ہوں گے۔ پھر مسلکی کتابیں رکھی جائیں گی اور اس میں مقابلہ شروع ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کچھ بہادر افراد گھات لگا کر تاڑ بھی لیں کہ دوسرے مسلک کی کتابیں کون رکھنے آتا ہے۔ ہم پاکستانی ماشااللہ مذہب کو ہر جگہ داخل کرتے ہیں۔ نہیں داخل کرتے تو اپنے دلوں میں اور اپنی زندگیوں میں!
تقریباًایک سال کے بعد پھر جیلانگ پہنچا تو ریک اسی طرح آباد تھا۔ کتابوں کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ ریک والاقصہ میں نے کیوں چھیڑا ہے ؟ اس لیے کہ ایک خبر پڑھ کر رونے کو دل چاہا۔ایک کالم نگار اور کر بھی کیا سکتا ہے! رو سکتا ہے یا آنسوؤں کو لفظوں میں ڈھال سکتا ہے۔ شکیب جلالی کے بقول
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جو تھوڑی بہت تفتیش ہوئی‘ اُس کی رُو سے نشہ کے کسی عادی ( عرف عام میں پوڈری ) نے شیشہ توڑ کر کتابیں چرائیں۔ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ لائبریری دوبارہ قائم کریں گے اور ساتھ ہی لوگوں میں شعور پیدا کریں گے کہ پبلک مقامات پر کتابوں کی حفاظت کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی کوئی بتانے یا سکھانے کی بات ہے کہ یہ کتابیں سرکار کی‘ دوسرے لفظوں میں عوام کی‘ امانت ہیں اور انہیں چرانا یا خراب کرنا اخلاقی‘ قانونی اور قومی جرم ہے! پھر تو کل کو اس بات کا بھی شعور دینا پڑے گا کہ نوالہ کان میں نہیں‘ منہ میں ڈالنا ہے‘ بال کٹوانے کے لیے بڑھئی کے پاس نہیں‘ حجام کے پاس جانا ہے اور مسواک سے ناک نہیں دانت صاف کرنے ہیں! شعور ؟ کون سا شعور؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟ شعور ہوتا تو پارکوں کے بنچوں پر اور درختوں پر نام نہ کھودے جاتے۔ عوامی بیت الخلاؤں کی دیواروں پر ناشائستہ باتیں نہ لکھی جاتیں! ٹریفک دیکھ کر یہ احساس نہ ہوتا کہ ہم سے زیادہ شعور جنگل کے جانوروں میں ہے۔ وہ بھی ایک ترتیب سے‘ قطار میں چلتے ہیں اور ایک دوسرے کو ٹکریں نہیں مارتے!
ایک تھیوری یہ ہے کہ ہمارے ہاں غربت زیادہ ہے اس لیے لوگ چوری کرنے پر مجبور ہیں! کچھ دوست ناخواندگی اور تعلیم کی کمی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں! ایک بار سنگاپور‘ آسٹریلیا اور چند خوشحال ملکوں میں کرنسی سے بھرے بٹوے سڑکوں پر پھینکے گئے۔ کسی نے بھی نہ اٹھائے! اس سے بھی یہی نتیجہ نکالا گیا کہ چوری کی وجہ غربت ہے! مگر معاف کیجیے گا یہ قاعدہ کلّیہ ہمارے ہاں نہیں چل سکتا۔ یہاں تو غریب اور امیر یکساں طور پر چور ہیں۔ ہاں! چوری اپنی اپنی استطاعت اور اوقات کے مطابق کرتے ہیں۔غریب چھوٹی چوری کرتا ہے۔ امیر بڑی چوری کرتا ہے۔ چوری کے کئی نام ہیں۔کِک بیک‘ کمیشن‘فی صدی (percentage ) خدمت‘ نذرانہ‘ شیئر۔ ان خوبصورت ناموں کے ساتھ چوری فقط امیر کرتے ہیں۔ غریب آبدوزیں خریدتے ہیں نہ شاہراہیں بنواتے ہیں نہ پروجیکٹ منظور کرتے ہیں نہ لندن‘ پیرس اور نیویارک میں گراں بہا اپارٹمنٹ ''خریدتے‘‘ ہیں نہ کابینہ میں پُر اسرار‘ بند‘لفافے لہراتے ہیں۔یہ چوریاں غریب نہیں کرتے۔غربت اور امارت کی بات ہی نہیں! یہاں تو ساخت ہی ٹیڑھی ہے۔ یہاں تو مینو فیکچرنگ نقص ہے! کیا ترک خاتونِ اول کا دیا ہوا ہار رکھنے والے غریب تھے؟ کیا توشہ خانہ سے گاڑیاں اور گھڑیاں اُڑا لے جانے والے مفلس تھے ؟ شاید یہ ہمارا ٹریڈ مارک ہے! ہر کوئی حسبِ معمول لگا ہوا ہے۔جس کے پاس ایک لاکھ کا موٹر سائیکل ہے وہ بھی قانون کو پاؤں تلے روند رہا ہے۔ جو دو کروڑ کی لینڈ کروزر میں بیٹھا ہے وہ بھی موٹر سائیکل والے کی پیروی کر رہا ہے! ہو سکتا ہے کتابیں چرانے والا پوڈری ہو۔ مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چور پڑھا لکھا ہو اور کتابیں چوری کرنے کے بعد انہیں پڑھنا چاہتا ہو!
بیرون ملک‘ پڑھی لکھی قوموں کے ہاں‘ ایسی ایسی لائبریریاں ہیں کہ ان کا ممبر بننے کے بعدبیس بیس تیس تیس کتابیں بیک وقت ایشو کرا سکتے ہیں۔کمپیوٹر کے سامنے کتابیں رکھیے۔ رسید باہر نکل آئے گی۔ رسید پر تاریخ اور کتابوں کے نام درج ہوں گے۔ کتابیں واپس کرتے وقت ایک لیڑ بکس نما سوراخ میں ڈال دیجیے۔ کسی مرحلے پر لائبریری کے کسی ملازم سے سابقہ نہیں پڑتا۔ کوئی ایسی کتاب درکار ہو جو لائبریری میں موجود نہیں‘ ای میل کیجیے۔ کتاب منگوا کر آپ کو باقاعدہ اطلاع دی جائے گی۔جاکر لے لیجیے۔ لائبریری کی ممبرشپ آسان ہے۔ آپ اس ملک کے شہری ہیں یا مسافر ہیں‘ پانچ منٹ میں ممبرشپ مل جائے گی۔ ممبرشپ کے ساتھ ہی کمپیوٹر استعمال کرنے کے لیے پاس ورڈ بھی دے دیا جائے گا۔ایک ایک قصبے میں پندرہ پندرہ‘ بیس بیس لائبریریاں ہیں۔ ایک لائبریری کی ممبرشپ کا مطلب ہے کہ قصبے کی کسی بھی لائبریری سے کتابیں لے سکتے ہیں اور کسی بھی لائبریری میں واپس کر سکتے ہیں! کوئی کلرک آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ کسی سرخ فیتے‘ کسی نوکر شاہی کا وجود نہیں! لا ئبریری کا ماحول اتنا خوشگوار اور مہربان ہے کہ وہاں سے جانے کو دل نہیں کرتا۔
جہاں مسجد کے بلب کو تاروں کے غلاف میں لپیٹنا پڑتا ہے‘ جہاں گٹر کے ڈھکنے غائب ہو جاتے ہیں‘ جہاں نماز ادا کرتے ہوئے‘ نمازی کو جوتوں کی فکر لاحق ہوتی ہے اور جہاں سڑک پر پڑے کولر کے گلاس کو جانور کی طرح رسی سے باندھنا پڑتا ہے وہاں آپ سٹریٹ لائبریریاں بنانا چاہتے ہیں! آپ کمال کرتے ہیں!