وفاقی دارالحکومت کے رہنے والے ایک عذاب میں مبتلا ہیں! یہ عذاب کب ختم ہو گا ؟ کسی کو نہیں معلوم! جن کو معلوم ہے وہ بیورو کریسی کے دبیز ریشمی پردوں کے پیچھے گھومتی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔اکیسویں صدی کا ایک چوتھائی ختم ہونے والا ہے۔ اسلام آباد ابھی تک جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں ہے۔ نارسائی سی نارسائی ہے! انگریز آئے تو ان کا پہلا اقدام یہ تھا کہ مقامی آبادی سے فاصلہ رکھو! یہ فاصلہ اگر کسی نے آج کے دور میں دیکھنا ہے تو وفاقی دار الحکومت کو دیکھے!
تیرے فقیر حال مست تیرے امیر مال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی
جب اسلام آباد کا ایک مئیر تھا‘ اس سے بات بھی ہو سکتی تھی‘ ملاقات بھی ! مگر بیورو کریسی سے بات کرنا امریکی صدر سے بات کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ امریکی صدر سے بات کرنا صرف مشکل ہے۔ سی ڈی اے کے اربابِ قضا و قدر سے بات کرنا ناممکن ہے۔ پروٹوکول کی فلک بوس آہنی دیوار چاروں طرف تنی ہے۔ سٹاف‘ سٹاف اور سٹاف کا اتنا کڑا محاصرہ ہے کہ سی ڈی اے کے سربراہ سے بات کرنا ممکن ہی نہیں!
یہ عذاب جس سے اسلام آباد شہر کی تقریباً نصف سے زیادہ آبادی دوچار ہے‘ صرف اسلام آباد کے عوام تک محدود نہیں۔ یہ عذاب جہلم‘ چکوال‘ گوجر خان‘ دینہ‘ منگلا‘ سوہاوہ‘ مندرہ‘ کہوٹہ‘ روات اور بیسیوں قریوں اور بستیوں کے باشندوں کو اذیت دے رہا ہے۔ رہیں اسلام آباد کی اپنی آبادیاں تو خیر سے وہ اس عذاب کے عین مرکز میں ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مونچھیں داڑھی سے بڑھ گئی ہیں! تو اسلام آباد کے پرانے سیکٹروں کی نسبت ایکسپریس وے پر واقع آبادیاں زیادہ ہو چکی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اب اصل اسلام آباد وہی ہے جو اس مصروف ترین شاہراہ کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔پی ڈبلیو ڈی‘ میڈیا ٹاؤن‘ پولیس فاؤنڈیشن‘ پاکستان ٹاؤن‘ کورنگ ٹاؤن‘ ریور گارڈن‘ جناں گارڈن‘ سواں گارڈن‘ نیول اینکر یج‘ ڈی ایچ اے‘ بحریہ‘ اسلام آباد کے وہ حصے ہیں جن کی زندگی کا تمام اور مکمل انحصار اس ایک شاہراہ‘ پر ہے جسے ایکسپریس وے کہتے ہیں! اور ایکسپریس وے کی حالت یہ ہے کہ یہ پُل صراط بنی ہوئی ہے ! کب تک بنی رہے گی؟ ؟ کچھ معلوم نہیں! یاد نہیں منٹو نے کہا تھا یا شوکت تھانوی نے کہ پنڈی کا ٹانگہ کس طرف مڑ ے گا ؟ خدا کو معلوم ہے یا کوچوان کو ! مگر یہاں تو خدا ہی کا آسرا ہے کہ کوچوان کا تو پتہ ہی نہیں کہاں ہے! اسلام آباد کے حکام تو اُس کنوئیں والے سے بھی زیادہ بے نیاز ہیں جس کا ذکر مجید امجد نے اپنی شہرہ آفاق نظم میں کیا ہے :
کنویں والا‘ گادی پہ لیٹا ہے مست اپنی بنسی کی میٹھی سریلی صدا میں
کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا اور نہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
کہیں بہہ گئی ایک ہی تند ریلے کی فیاض لہروں میں کیاری کی کیاری
کہیں ہو گئیں دھول میں دھول لاکھوں‘ رنگا رنگ فصلیں‘ ثمر دار ساری
پریشاں پریشاں
گریزاں گریزاں
تڑپتی ہیں خوشبوئیں دام ِہوا میں
نظامِ فنا میں
وفاقی دارالحکومت تک پہنچنے کے لیے اس وقت تین بڑی شاہراہیں ہیں۔ ایک مری اور کشمیر سے آرہی ہے جو بارہ کہو سے گزر رہی ہے۔ اس پر حال ہی میں اوور ہیڈ پُل بنایا گیا ہے۔ جہاں تک اس کالم نگار کی معلومات کا تعلق ہے اس کی جلد تکمیل میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ذاتی توجہ کا عمل دخل تھا۔ دوسری سری نگر ہائی وے ہے جو ایبٹ آباد‘ پشاور‘ ترنول اور موٹر وے سے آنے والوں کو اسلام آباد پہنچاتی ہے۔ تیسری شاہراہ جو ایکسپریس ہائی وے کہلاتی ہے سب سے بڑی شاہراہ بلکہ شہ رگ ہے جو شروع تو روات سے ہوتی ہے مگر جہلم چکوال گوجرخان اور دیگر علاقوں سے لاکھوں انسان ہر روز اس کے ذریعے اسلام آباد پہنچتے ہیں اور پھر شام کو واپس جاتے ہیں۔ فیض آباد کے مقام پر پنڈی صدر سے آتی ہوئی مری روڈ بھی اس سے آملتی ہے اور ٹریفک میں بے حساب اضافہ ہو جاتا ہے۔ عذاب کا منبع یہ ہے کہ یہ ایکس پریس وے نام نہاد توسیع کا شکار ہے۔ یہ توسیع عرصۂ دراز سے ہو رہی ہے اور'' کام‘‘ کی رفتار بتاتی ہے کہ توسیع کا یہ کام برسوں ہوتا رہے گا۔ اس شاہراہ پر اس نام نہاد توسیعی کام کی وجہ سے چلنا اپنے آپ کو ایک اندھے کنوئیں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ کئی جگہ سے شاہراہ اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ اس کی جگہ گہرے غار‘ کھائیاں‘ گڑھے‘ ٹیلے‘ خندقیں اور گھاٹیاں وجود میں آچکی ہیں! گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی زندگیاں جس قدر یہ شاہراہ مختصر کر رہی ہے‘ اس کی مثال صرف اُس زمانے میں مل سکے گی جب پکی سڑکوں سے دنیا نا آشنا تھی۔ آپ نے اگر اپنی برینڈ نئی کار یا موٹر سائیکل کو ایک دن میں بوڑھا‘ بلکہ قریب المرگ کرنا ہے تو ایک بار‘ صرف ایک بار‘ فیض آباد سے روات چوک تک اسے چلائیے۔آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر روز دو بار آنے جانے والے کس قیامت کا سامنا کر رہے ہیں۔ بچے‘ بوڑھے‘ طلبہ‘ طالبات‘ خواتین‘ مریض‘ ملازم‘ سب ہر روز‘ اس زیر تعمیر سڑک کے پھندے میں‘ گھنٹوں بلکہ پہروں‘ پھنسے رہتے ہیں۔ اور جاں کَنی کے عالم میں رہتے ہیں۔ یہ سب جھولیاں اٹھا اٹھا کر ذمہ داروں کو بد دعائیں دیتے ہیں۔ ان کی بد دعائیں سن کر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اس اذیت کے ذمہ داروں کو خدا اپنی اس لاٹھی سے بچائے۔ دشمن ہیں مگر دشمن کو بھی مظلوم کی بد دعا نہ لگے!
تاہم صرف آہ و فغاں سے‘ ماتم سے اور سینہ کوبی سے کچھ حاصل نہ ہو گا! ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ اس صورت حا ل کی وجہ کیا ہے؟ ذمہ دار کون ہے؟ ظاہر ہے ذمہ دار والء شہر ہے۔ اور والی ٔشہر سی ڈی اے ہے۔ کوئی عوامی نمائندہ تو یہاں ہے نہیں جس کا عوام سے براہ راست تعلق ہو۔ جدید جمہوری دنیا میں اتنے بڑے شہر کی ذمہ داری مئیر پر ہوتی ہے مگر وفاقی دارالحکومت کی باگ ڈور نادیدہ ہاتھوں میں ہے۔ کوئی نہیں پوچھنے والا کہ کیا والیٔ شہر نے کبھی ایکسپریس وے کا دورہ کیا ہو؟ کب؟ کوئی نہیں جانتا! چیونٹی کی جس رفتار سے کام ہو رہا ہے اس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر والیٔ شہر کے براہ راست اور بنفسِ نفیس معائنے کا خوف ہو تو یہ کام برسوں کا نہیں‘ ہفتوں کا ہے۔ چین کا دورہ کرتے ہوئے ایک بہت بڑا ہینگر ہمیں دکھایا گیا جس میں درجنوں نہیں بیسیوں ہوائی جہاز بیک وقت کھڑے کیے جا سکتے تھے۔ بتایا گیا کہ اس کی تعمیر ایک سال سے کم عرصے میں مکمل ہوئی۔ اس لیے کہ اگر منصوبے کی تاریخ اختتام‘ فرض کیجیے‘ بارہ جون ہے تو تیرہ جون آنے سے پہلے کام ہر حال میں مکمل ہو گا ورنہ سر لڑھکیں گے اور گردنیں ماری جائیں گی! یہاں وفاقی دارالحکومت کا‘ جو حکومت کی ناک کے عین نیچے واقع ہے‘ یہ حال ہے کہ ہفتوں پہلے سی ڈی اے کی توجہ غلاظت اور نجاست کے اُس ڈپو کی طرف دلائی گئی جو اسلام آباد کے وسط میں واقع ایک مسجد کی بغل میں نمازیوں اور راہ گیروں کو ناقابل بیان آزار پہنچا رہا ہے مگر پتہ تک نہ ہلا۔ ڈپو جوں کا توں مہکار پھیلا رہا ہے!
تو پھر تعجب ہی کیا ہے اگر ہمارے ملک کو صومالیہ اور افغانستان کی صف میں گِنا جاتا ہے! مگر ٹھہریے! کیا افغانستان اور صومالیہ ہماری صف میں کھڑا ہونا پسند کریں گے؟؟