ایک چھوٹا سا پاکستان

میں جب اپنے اُن احباب سے اُکتاتا ہوں جو گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں‘ کوٹ پتلون پہنتے ہیں یا کلف زدہ کھڑ کھڑاتے شلوار قمیض! بڑے بڑے مناصب پر رہے ہیں اور اپنے کارنامے فخریہ سناتے ہیں! زرعی پیداوار سے حاصل شدہ‘ حیران کن آمدنی کا ذکر کرتے ہیں‘ بلغراد‘ ویانا اور سکینڈے نیویا کے سفر کے حالات سناتے ہیں اور پلاٹوں کی خرید اور ان پر تعمیر کردہ محلات کا ذکر کرتے ہیں تو میں ایسے مقامات کا رُخ کرتا ہوں جہاں ان گردن بلندوں کا گزر نہیں ہوتا! حافظ شیرازی نے کہا تھا ؎
غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہرِ خود روَم و شہر یارِ خود باشم
کہ مسافرت کے غم جب برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں تو اپنے شہر کو جاتا ہوں اور اپنا مالک و مختار خود بنتا ہوں!
سبزی منڈی میں جیسے ہی داخل ہوا تو نوٹ کیا کہ چودہ پندرہ سال کے ایک لڑکے نے میری گاڑی کو اور مجھے غور سے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹی ریڑھی تھی جس میں سودا رکھا جاتا ہے اور ڈھویا جاتا ہے۔ اس ریڑھی کا ایک ہی پہیہ ہوتا ہے۔ فرنگی زبان میں اسے wheelbarrowکہتے ہیں! منڈی میں بے تحاشا رش تھا۔ مزدور سروں پر ٹوکرے رکھے ادھر اُدھر تیزی سے آجا رہے تھے۔ سڑک پر سوزوکیاں‘ ٹرک‘ ٹرالیاں‘ کاریں۔‘ موٹر سائیکل‘ سبھی گاڑیاں موجود تھیں۔ ارد گرد بازار لگا تھا۔ پھل اور سبزیاں بیچنے والے آوازے لگا رہے تھے۔ میری گاڑی ایک ایک انچ آگے بڑھ رہی تھی۔ریڑھی والا لڑکا ساتھ ساتھ آرہا تھا۔ جہاں ہم بری طرح پھنس جاتے‘ وہ آگے چل کر ٹریفک کلیئر کراتا۔ جس جگہ میں رکنا چاہتا تھا‘ وہاں تک پہنچنے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔میں گاڑی سے اُترا تو اس سے ہاتھ ملایا اور کہا‘تم اتنی دیر سے ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہے ہو! تم نے ٹریفک بھی ہمارے لیے کلیئر کرائی!وہ مسکرایا! اس کا نام عرفان تھا اور سوات سے تھا۔ کمائی کا پوچھا تو کہنے لگا :صبح سے تین سو کمائے ہیں! کہنے لگا: ایک بجے تک کام کرتا ہوں۔ اس کا باپ اسی منڈی میں تھا۔ وہ بھی ریڑھی بان تھا۔ عرفان میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ ہم باتیں کرتے رہے۔ مجھے اخلاق کے پاس پہنچنا تھا جو میوہ فروش ہے اور میرا دوست ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والا اخلاق‘ خوش اخلاق ہے! پھلوں کے خالی کریٹ جوڑ کر اس نے ایک چبوترہ سا بنایا ہوا ہے۔ اس کے اوپر کھیس اور کھیس کے اوپر کپڑا بچھا کر بیٹھنے کی جگہ بنائی ہوئی ہے۔ ساتھ ایک کرسی بھی رکھی ہوئی ہے مگر میں چبوترے پر اس کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ وہ پھلوں کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا رونا رو رہا تھا۔اس کی زندگی ایک سخت معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ نیلامی میں بولی دے کر پھل خریدنے کے لیے اسے بہت جلد اُٹھ کر منڈی پہنچنا ہوتا ہے۔میں سوچ رہا تھا کہ سارا دن اور ساری شام اس سخت چبوترے پر بیٹھنا آسان کام نہیں! وہ میرے لیے کھانا منگوانا چاہتا تھا مگر یہ کھانے کا وقت نہیں تھا۔ابھی تو دن کے گیارہ بجے تھے؛چنانچہ اس نے قہوہ منگوایا۔میرے کہنے پر اس نے عرفان کے لیے بھی قہوہ منگوایا!
جس سے پیاز خریدے وہ سیالکوٹ سے تھا۔ ساڑھے سات سو روپے دھڑی یعنی پانچ کلو۔ آج کل کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ دھڑی کیا ہوتی ہے! پیاز چھانٹ چھانٹ کر‘ صاف کر کر کے‘ ڈھیریاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کر کے وہ سخت تھکا ہوا تھا اور تقریباً ہانپ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے بھاؤ کم کر نے کا کہوں مگر اس کا لباس اور اس کی حالت دیکھ کر ہمت نہ ہوئی۔ وہ پیاز کے ڈھیروں سے اٹھنے والی گرد اور زمین سے اٹھنے والی مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ دکان کے بجائے ریڑھی والوں سے سودا خریدوں! ایک ریڑھی والا آخر کتنا کما لیتا ہو گا! لوگ بڑے بڑے مال میں جاتے ہیں اور سپر سٹوروں سے مہنگا سودا خریدتے ہوئے چُوں بھی نہیں کرتے۔ شاپنگ بیگ کے پیسے الگ دیتے ہیں مگر ریڑھی سے کچھ لیتے ہیں تو کاروباری رگ پھڑکنے لگتی ہے اور بھاؤ تاؤ یوں کرتے ہیں جیسے دو کلو گوبھی اور ایک درجن کیلے نہیں‘ پلاٹ خریدنے لگے ہیں۔ ایک سفید ریش‘ عمر رسیدہ پٹھان تھا جس سے ٹماٹر خریدے۔ وہ ایک پیالے سے کچھ کھا رہا تھا۔ میں نے کہا چاچا ! بڑے مزے ہیں! کیا کھا رہے ہو؟ کہنے لگا: کھیر کھا رہا ہوں! پھر پوچھا: آپ کے لیے منگواؤں ؟ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا‘ مسکرایا اور شکریہ ادا کیا !!
یہ سبزی اور فروٹ منڈی چھوٹا سا پاکستان ہے! یہاں پٹھان بھی ہیں اور پنجابی بھی ! کشمیری بھی اور سندھی بھی! کوئٹہ والے بھی ہیں اور گلگت والے بھی ! مگر یہ ایسا پاکستان ہے جہاں زبان اور نسل کی بنیاد پر کوئی جھگڑا ہے نہ سیاست! یہ سب آپس میں مل کر کا روبار کر رہے ہیں۔ مل کر کھانا کھاتے ہیں۔اکٹھے چائے پیتے ہیں ! ایک کسی کام کو جاتا ہے تو دوسرا اس کی دکان‘ اس کا ٹھیلا‘ اس کی ریڑھی سنبھال لیتا ہے۔ یہ ٹوکرے سروں پر اٹھائے بوڑھے‘ یہ ریڑھیاں دھکیلتے لڑکے‘ یہ آوازیں لگاتے سبزی فروش! یہ کیچڑ! یہ چھلکوں اور کوڑے سے بھری گلیاں! یہی اصل پاکستان ہے!!
یہاں پانی کے نکاس کا نظام ہوتا! یہاں کوئی ترتیب‘ کوئی تنظیم ہوتی! اتنی صفائی ہوتی کہ خواتین بھی آکر خریداری کر سکتیں! بارش نہ بھی ہو تو یہاں ٹخنوں تک کیچڑ ہوتا ہے۔ جو حال بارش میں ہوتا ہے‘ وہ ناقابلِ بیان ہی نہیں‘ ناقابلِ تصور ہے! شہر میں سی ڈی اے کے نام سے ایک ترقیاتی ادارہ ہے! اس میں اعلیٰ افسروں کی بھرمار ہے۔ کیا کبھی سی ڈی اے کے چیئر مین صاحب نے اس منڈی میں قدم رنجہ فرمایا ہے ؟ چلئے ! افسر شاہی سے تو امید بھی نہیں رکھنی چاہیے!کیا منڈی میں بیٹھنے والے دکانداروں اور تاجروں میں اتنا شعور نہیں کہ سی ڈی اے کے چیئر مین کے پاس جا کر اپنے حقوق کا مطالبہ کریں! یہ دکاندار‘ یہ تاجر‘ جو لاکھوں گھرانوں کو سبزی اور پھل مہیا کرتے ہیں‘ کیا ان کا حق نہیں کہ انہیں صاف ستھری جگہ مہیا کی جائے؟ کسی چینل کو بھی کبھی خیال نہیں آیا کہ یہاں کی حالتِ زار کو ٹی وی پر دکھائے! پورا علاقہ بے توجہی کا شکار ہے ! یہاں سے لوگوں کو غذا فراہم کی جاتی ہے۔ اس جگہ کی صفائی مثالی ہونی چاہیے تھی مگر افسوس! یہ گندگی اور کثافت کا گڑھ ہے !
'' صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ پیدائش سے یہی بتایا اور سنایا جا رہا ہے! مگر سچ یہ ہے کہ ہم گندے ہیں! ہمارا صفائی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! جس ملک میں چلتی گاڑیوں سے چھلکے اور آئس کریم کے خالی ڈبے باہر پھینکے جائیں‘ اور پھینکنے والوں کو کوئی سزا نہ دی جائے وہاں کیا صفائی ہو گی ! کہیں ایسا تو نہیں کہ کوڑا کرکٹ ہمارے ذہنوں میں بھرا ہوا ہے؟ کہیں ہم ذہنی طور پر تو کثیف نہیں؟ لگتا ہے اس سوال کا جواب اثبات میں ہے! ہمارا باطن صاف نہیں اس لیے ہمارا ظاہر بھی گندا ہے! ہمارے باتھ روم بتاتے ہیں کہ ہم غیر مہذب ہیں! ہمارے بازار‘ ہماری منڈیاں‘ ہمارے چوک‘ ہمارے بسوں کے اڈے‘ ہمارے ریستوران‘ یہاں تک کہ ہماری عبادت گاہیں بھی صفائی سے محروم ہیں! جس دن ہم اندر سے صاف ہو گئے‘ امید ہے کہ باہر سے بھی ہو جائیں گے !!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں