مستقیم بچہ نہیں تھا۔ بڑا تھا۔مگر دماغی خلل میں مبتلا تھا۔ کئی کئی دن تک غائب رہتا پھر واپس گھر آجاتا۔ جب بھی کچھ دن نظر نہ آتا‘ گھر والوں کو اطمینان ہوتا کہ ہمیشہ کی طرح کچھ دن بعد آجائے گا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ کوئی رشتہ دار‘ یا محلے والے ‘ یا دوست احباب میں سے کوئی اسے کہیں دیکھتا تو پکڑ کر گھر لے آتا! پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ گیا مگر واپس نہ آیا۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ اس کے بچے اسے یاد کر کر کے روتے رہے۔ اس کی ماں اسے گلی گلی گاؤں گاؤں شہر شہر ڈھونڈتی رہی! یہاں تک کہ سات سال گزر گئے!
سات سال! چوراسی مہینے! تین سو چھتیس ہفتے‘اڑھائی ہزار دن ! کہنا آسان ہے مگر اس ماں سے پوچھیے جس نے یہ سات سال سُولی پر لٹک کر گزارے۔ راتیں جاگ کر بسر کیں ! دن بیٹے کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے گزارے! کلیجہ اُس کا شق ہوتا رہا! ہر روز مرتی رہی۔ہر روز جیتی رہی! دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے!سات سال بعد گم شدہ بیٹے کے ایک دوست نے بتایا کہ اس نے اسے بھیک مانگتے دیکھا ہے۔ ماں جیسے اُڑ کر وہاں پہنچی! اس نے لختِ جگر کو پہچان لیا۔ وہ بھیک مانگ رہا تھا۔ ذہنی بیماری تو اسے تھی ہی‘ مافیا نے اسے جسمانی طور پر بھی اپاہج کر دیا تھا۔ اس کے ذہنی عدم توازن کو بد تر کرنے کے لیے اسے انجکشن بھی لگائے جاتے رہے! جب ماں اسے گلے سے لگا کر رو رہی تھی تو وہیں بھکاری مافیا کے ارکان بھی موجود تھے۔ انہوں نے اسے پیٹنا شروع کردیا اور گالیاں دینے لگے۔ تاہم لوگوں کے جمع ہونے پر وہ بھاگ گئے۔ مافیا کے کچھ گماشتوں کو پولیس نے گرفتار بھی کیا۔
یہ واقعہ پنجاب کے ایک بڑے شہر کا ہے۔ اسی پر پورے ملک کو قیاس کر لیجیے۔ہر شہر‘ ہر قصبے ‘ ہر بازار‘ ہر چوک‘ ہر بازار میں بھکاری موجود ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ پاؤں توڑے جاتے ہیں۔پھر انہیں بھیک مانگنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ عام مشاہدہ ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ گاڑیاں آتی ہیں۔ بھکاریوں کو مختلف ‘ مقررہ‘ مقامات پر اتارتی ہیں۔ پھر انہیں مقررہ اوقات پر واپس لے جایا جاتا ہے۔ پولیس کو سب کچھ معلوم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پولیس کیا کرے؟ فرض کیجیے پولیس ایک شہر کے تمام بھکاریوں کو گرفتار کر لیتی ہے اور حوالات میں بند کر دیتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ حوالات میں ان ہزاروں بھکاریوں کو کب تک رکھا جائے گا؟ان کے کھانے پینے کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ ان کا چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا تو عدالتیں کیا کریں گی ؟ اصل مجرم تو کہیں اور ہوں گے!کچھ ہفتے پہلے لکھا تھا کہ ایک شام اسلام آباد کے سب سے پرانے بازار‘ آبپارہ‘ سے گزر رہا تھا۔ ایک عورت پوری قوت سے چیخ رہی تھی کہ اس کی بچیوں کو پولیس اٹھا کر لے گئی۔ ہجوم جمع تھا اور وہ دہائی دیے جا رہی تھی۔پاس کھڑے ہوئے ایک دکاندار سے پوچھاکہ کیا ماجرا ہے۔اس نے بتایا کہ بچیاں بھیک مانگ رہی تھیں۔ پولیس نے بھکاریوں پر کریک ڈاؤن کیا تو انہیں بھی پکڑ کر لے گئی۔ دکاندار سے پوچھا کہ ان کا کیا بنے گا؟ دکاندار ہنسا اور کہنے لگا :صاحب! بننا کیا ہے۔ پیسے لے کر چھوڑ دیں گے۔ اصل سوال یہی ہے کہ پولیس کب تک رکھے ؟
یہ سارا معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں! اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلے ریاست کا فلاحی تصور درکار ہے۔ ایک فلاحی ریاست بیروزگاروں‘ اپاہجوں ‘ بے سہارا لوگوں کی کفیل ہوتی ہے۔ انہیں چھت اور خوراک مہیا کرتی ہے۔ پھر ایسے مافیاز کو پکڑ کر انہیں جڑ سے اکھاڑتی ہے۔ اول تو ایک فلاحی ریاست میں اس نَوع کے مافیا کا وجود ہی ناممکن ہے۔ اگر بہ امرِ محال واقع ہو بھی جائے تو ریاست اس کا قلع قمع کر دے گی۔ہمارے ہاں فلاحی ریاست کا تصور ہی ناپید ہے۔ بے سہارا‘ بیروزگار شہری یا بیکس بوڑھا یا بیوہ عورت مر بھی جائے تو ریاست کے کان پر جوں نہیں رینگتی! ہماری ریاست سیکورٹی سٹیٹ ہے۔ اس سے نچلی سطح پر یہ ایک پولیس سٹیٹ ہے۔بھکاری کم از کم بھوکے تو نہیں مر رہے۔مافیا انہیں ر ات گزارنے کے لیے چھت بھی مہیا کرتا ہے۔ بیمار پڑ جائیں تو یقینا علاج بھی کراتے ہوں گے کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ یہ جو خبر آئی تھی کہ لاہور میں ایک سگنل خراب تھا اور سرکار ٹھیک نہیں کرا رہی تھی۔گاڑیاں رُکتی نہیں تھیں۔بھکاریوں کا نقصان ہو رہا تھا تو ‘ خبر کی رَو سے‘ انہوں نے سگنل خود ٹھیک کرا لیا۔ مگر سوچنے کی بات ہے! بھکاریوں نے کیا ٹھیک کرایا ہو گا‘ مافیا نے ٹھیک کرایا ہو گا۔ تو بھکاریوں سے زیادہ قابلِ رحم اور ریاست کی مدد کے حقدار وہ بے سہارا اور بے کس لوگ ہیں جو بھکاری نہیں اور ان کی مدد بھی کوئی نہیں کر رہا! بہت سے بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں جو گھروں سے نکال دی جاتی ہیں۔ نجی اولڈ ہومز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس ساری بے گھری‘ بیکسی اور بے بسی میں ریاست کہیں نہیں دکھا ئی دے رہی!! تو بھکاریوں کو بنانے اور چلانے والے مافیا سے کون نمٹے گا! یہ تو ریاست کی ہزارویں ترجیح بھی نہیں!
اس مسئلے کے دو پہلو ہیں۔ یہ مسئلہ سمجھنے اور حل کرنے کے لیے کسی پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے نہ راکٹ سائنس جاننے کی ! بچے کو بھی حل معلوم ہے! پہلا حل مافیا کا خاتمہ ہے۔ بظاہر یہ ممکن نہیں نظر آرہا! بھکاریوں کو چلانے والے مافیا سے بہت زیادہ بڑے مافیااس ملک میں یوں محفوظ ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان!سمگلنگ مافیا‘ شوگر مافیا‘ آٹا مافیا‘اسلحہ مافیا‘ لینڈ مافیا‘ گردہ مافیا‘پٹرول مافیا‘ ایرانی پٹرول مافیا‘ اور بے شمار اور!اس غدر میں بھکاریوں کے ایشو پر کون توجہ دے گا! بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ باقی مافیاز کی طرح یہ مافیا بھی چلتا رہے گا!
مگر فرض کیجیے کہ کوئی معجزہ رونما ہوتا ہے اور ریاست اس مافیا کو کچل دیتی ہے‘( جو ریاست کے لیے مشکل نہیں)تو بھکاریوں کی بحالی کا کیا بنے گا؟ اس کے لیے ریاست کو پہلے پناہ گاہیں ( شیلٹر ہومز )بنانا ہوں گی جن میں بھکاریوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ ساتھ ہی ساتھ ہر بھکاری کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھا نا ہو گا تاکہ ہنر سیکھنے کے بعد وہ ایک نارمل شہری کی طرح زندگی گزار سکے‘ اور اپنی چھت‘ لباس اور خوراک کا بند و بست خود کر سکے!
یہ جو خواجہ سرا ہر چوک پر مانگتے پھرتے ہیں‘ افسوس! ریاست ان کے لیے بھی کچھ نہیں کر رہی! یہ تو اپاہج بھی نہیں!ذہنی طور پر بھی معذور نہیں! نفسیاتی علاج کے بعد ان کی بحالی نسبتاً آسان ہونی چاہیے! کم از کم دو گھروں میں دیکھا کہ خواجہ سرا ایک کامیاب باورچی کی طرح کام کر رہا تھا اور معقول معاوضہ پا رہا تھا۔ خواجہ سرا وکیل بھی بن چکے ہیں اور غالباً ڈاکٹر بھی ! اس معاملے میں ریاست کی مداخلت اس لیے بھی لازم ہے کہ عوام اس طبقے کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے۔ مذاق اُڑاتے ہیں ! ملک کے کچھ حصوں میں انہیں جان سے بھی مار دیا جاتا ہے! غالباً کوئی ایسا فلاحی ادارہ نجی شعبے میں بھی موجود نہیں جس کا مشن خواجہ سراؤں کی بحالی ہو!
کس کس بات کا رونا رویا جائے! تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم۔سارا جسم زخموں سے چور ہو تو پٹی کہاں کہاں کریں گے ؟