جانا پڑا رقیب کے در پر …

ایک آسودہ حال شخص اپنے محل میں دسترخوان پر بیٹھا اپنی بیوی کے ہمراہ کھانا کھا رہا تھا۔انواع و اقسام کے مشروبات اور ماکولات سامنے رکھے تھے۔ دروازے سے ایک فقیر کی صدا آئی۔ امیر شخص نے بیوی سے کہا‘ فقیر کو کھانا دے آؤ۔ بیوی بہت سا کھانا لے کر باہر گئی۔ وہاں سے اس کی چیخوں کی آواز آئی۔واپس اندر آئی تو اس کی حالت عجیب سی ہو رہی تھی۔ شوہر کے پوچھنے پر اس نے جو بات بتائی ‘ وہ ہوشربا تھی۔اس نے کہا کہ یہ فقیر تو میرا سابقہ شوہر نکلا! پھر اس نے تفصیل بتائی کہ اس کا یہ سابقہ شوہر بہت مالدار تھا۔ ایک دن کھانا کھا رہا تھا تو ایک فقیر نے دروازے پر آکر کھانا مانگا۔ یہ باہر گیا اور فقیر کو مارا پیٹا اور اس کی خوب تذلیل کی۔ کچھ عرصہ بعد اس کا ستارہ گردش میں آ گیا۔ کاروبار فیل ہو گیا۔ جائداد بِک گئی۔کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گیا۔ پھر مجھے بھی چھوڑ دیا اور غائب ہو گیا۔ آج اسے مانگتے دیکھ کر میں کانپ اُٹھی اور افسوس اور حیرت سے چیخ نکل گئی۔ جب بیوی یہ سب کچھ بیان کر چکی تو اس کے شوہر نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات بتاتا ہوں۔ میں ہی وہ فقیر ہوں جس کی اس نے تذلیل کی تھی!
یہ ایک بہت ہی مشہور حکایت ہے۔ صدیوں کے تجربے اور مشاہدے نے بتایا ہے کہ جس کی تذلیل کی جائے‘ ایک نہ ایک دن اسی کے دروازے پر جانا پڑتا ہے۔ایسے ایسے واقعات ہیں کہ انسان حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے۔ حالات یوں پلٹا کھاتے ہیں کہ سوالی سیٹھ بن جاتا ہے اور سیٹھ سوالی! جس دن خان صاحب نے اچکزئی صاحب کی توہین کی تھی اور ان کی نقل لگاتے ہوئے چادر اوڑھ کر ٹھٹھا کیا تھا‘ اُس دن کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ خان صاحب اپنے ساتھیوں کو اچکزئی صاحب کے دروازے پر صدا لگانے کے لیے بھیجیں گے۔ اچکزئی صاحب نے ماضی کی تلخیوں کا ذکر نہ کر کے‘ کچھ جتائے بغیر ‘ تحریک انصاف کے لیے گھر اور دل ‘ دونوں کے دروازے کھول دیے۔یہ ان کی کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی ہے۔ کاش ہمارے اہلِ سیاست اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں۔اس وقت سیاسی فضا جتنی مسموم ہے ‘ کبھی نہ تھی۔ پولرائزیشن سیاستدانوں سے ہو کر نیچے ‘ عوام تک پہنچ چکی ہے۔خاندان تقسیم ہو گئے ہیں۔ پرانی دوستیاں داؤ پر لگ گئی ہیں۔ یہ صورت حال پریشان کن ہے۔
اور کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ ایک دن خان صاحب کے ایلچی مولانا کی ڈیوڑھی میں کھڑے پائے جائیں گے ؟ خان صاحب نے مولانا کا نام بگاڑنے سے لے کر ان کی تضحیک کرنے تک ‘ سب کچھ کیا۔ مولانا تقی عثمانی صاحب سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک ہر بزرگ نے سمجھایا کہ نام بگاڑنا قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ''آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو! ‘‘ ( القرآن )۔ مگر خان صاحب کب کسی کی سنتے یا مانگتے ہیں! ان کا ایک مخصوص سٹائل ہے۔جس قسم کی زبان وہ استعمال کرتے ہیں‘بد قسمتی سے منڈی میں اسی کی مانگ ہے۔
وقت بھی عجیب ستم ظریفیاں دکھاتا ہے! جس کا پیٹ پھاڑنے کا اعلان کیا جائے‘ اس کے لیے‘ اپنی نگرانی میں ‘ چوہتر (74 ) ڈشیں پکوانا پڑتی ہیں ! جسے سب سے بڑا ڈاکو کہا جائے ‘ حکومت بنانے کے لیے‘ اسے ساتھ ملانا پڑ جاتا ہے۔ جسے چپڑاسی لگانے کے قابل بھی نہ سمجھا جائے اور اس کا اعلان بھی کیا جائے اسے داخلہ جیسی ٹاپ کلاس وزارت سے نوازنا پڑ جاتا ہے! کیا عجب خان صاحب کو کسی دن شریفوں اور زرداریوں کی حمایت کیلئے بھی دستِ سوال دراز کرنا پڑ جائے! بقول انشا
جذبۂ عشق سلامت ہے تو ان شاء اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے!
اسی لیے بزرگ ہمیشہ سمجھاتے ہیں کہ کسی کے بارے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہیے‘ سامنے نہ پیٹھ پیچھے‘ جس پر بعد میں معذرت کرنی پڑے! تاہم خان صاحب کی جو شخصیت ہے اور جو ان کا مزاج اور افتاد طبع ہے‘ لگتا نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی سے معذرت کی ہو !
عمر ایوب صاحب سے کسی نے ان کے دادا کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔اول تو یہ سوال ہی ناروا تھا۔دادا کے اعمال کی ذمہ داری پوتے پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے اور اس سے جواب طلبی کا کیا جواز ہے؟ ایوب خان نے مارشل لاء 1958ء میں لگایا۔ عمر ایوب اس کے بارہ سال بعد پیدا ہوئے۔ لیکن اگر کوئی ایسا سوال پوچھ ہی لے تو جواب پوری دیانتداری سے دینا چاہیے! خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر مرحوم جنرل ضیا کے ساتھیوں میں سے تھے۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے خواجہ آصف نے اس بات پر معذرت کی تھی یا اظہارِ افسوس کیا تھا۔ عمر ایوب صاحب اور اعجاز الحق صاحب کو چاہیے کہ کم از کم یہ تسلیم کر لیں کہ ایک کے دادا نے اور دوسرے کے والد نے غلطی کی تھی اور یہ کہ انہیں مارشل لاء نہیں لگانا چاہیے تھا۔
حقیقت تسلیم کر لینے سے ان دونوں حضرات کے مرتبے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ ان کی شہرت اور وقار میں اضافہ ہو گا! عوام کی نظروں میں ان کا اعتبار بڑھے گا! ویسے عمر ایوب کی استقامت پر حیرت ہوتی ہے۔ وہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے۔ ناز و نعم میں پر ورش پائی۔ ان جیسے شہزادے سے یہ توقع نہ تھی کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے پاپڑ بیلیں گے اور مصیبت اور مشقت بر داشت کر لیں گے۔ مگر انہوں نے استقامت دکھائی اور خان صاحب کا ساتھ نہ چھوڑا۔ ہم پی ٹی آئی کے حامی نہیں مگر سچ بہر طور سچ ہے۔عمر ایوب سیماب صفت ماضی کے باوجود ڈٹے رہے۔ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی! شامل تو تحریک انصاف میں اعجاز الحق بھی ہوئے تھے۔مگر وزیر اعظم کے حالیہ انتخاب میں انہوں نے ووٹ شہباز شریف کو دیا ہے۔ ماضی میں وہ مسلم لیگ (ق) میں بھی رہے ہیں۔
تحریک انصاف کو احتجاج کا حق یقینا حاصل ہے۔ مگر ان کا یہ عزم کہ اسمبلی اور حکومت کو چلنے نہیں دیں گے مبنی بر انصاف نہیں۔اس پالیسی سے بد انتظامی اور بد امنی جنم لے گی۔ نقصان عوام کا ہو گا۔(ن) لیگ اور اس کے اتحادی تو اشرافیہ میں سے ہیں۔انہیں کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔پی ٹی آئی کو سسٹم سے باہر نکل جانے پر پہلے بھی نقصان ہوا ہے‘ آئندہ بھی نقصان ہی ہو گا۔ اگر وہ اداروں سے بدظن ہیں تو پارلیمان کو تو اہمیت دیں جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں۔ مسائل حل کرنے کے لیے اور جھگڑے نمٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان کی کمیٹیاں بنائیں جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے شامل ہوں۔یہ پالیسی کہ مل کر نہیں بیٹھنااور بات نہیں کرنی بند دروازوں کی طرف جاتی ہے۔ ایک دوسرے سے جنگ کرنے والے ممالک بھی باہمی مذاکرات کر لیتے ہیں! اور یہ تو سب ہم وطن ہیں!
پس نوشت۔ بچوں کے لیے میرا لکھا ہوا ناول '' ٹِکلو کے کارنامے‘‘ ( با تصویر) شائع ہو گیا ہے۔دس سال سے لے کر اَسی سال تک کے بچے اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ کوشش کی گئی ہے کہ بچوں کو پاکستان اور دوسرے ملکوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہوں اور اُردو زبان پر بھی ان کی گرفت مضبوط ہو سکے۔ ناول کی رونمائی کی تقریب اس کے پبلشر بک کارنر جہلم کے ہاں دس مارچ کو ہو رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں