راولپنڈی کچہری چوک سے ہم نے گاڑی جی ٹی روڈ پر ڈالی اور روات کا رُخ کیا۔ سؤاں کیمپ سے ذرا آگے گئے تو بائیں طرف ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کا قوی ہیکل‘ عظیم الجثہ گیٹ تھا۔ اس کے پاس ایک شخص کھڑا تھا جس کے کاندھے پر لمبا سا ڈنڈا افقی لحاظ سے رکھا تھا۔ڈنڈے کے دونوں کناروں پر دو پنجرے لٹک رہے تھے۔ان میں چڑیاں قید تھیں۔میں نے گاڑی رکوائی۔ اسے بلایا اور پوچھا کہ ان بے گناہ چڑیوں کو کیوں قید کیا ہوا ہے۔ اس نے کہا :آپ پیسے دے کر انہیں آزاد کرادیں! یہ بات اس نے اتنے عجیب اور طنزیہ لہجے میں کی کہ میں دم بخود رہ گیا۔پوچھا: کتنے پیسے لو گے۔اس نے بتایا کہ ایک پنجرے کی چڑیوں کو چھڑوانے کی یہ قیمت ہے اور دونوں پنجروں کی یہ! میرے پاس اتنی کیش نہیں تھی۔اسے کہا کہ چڑیوں کو چھوڑ دو اور میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو‘ گھر جا کر تمہیں پیسے دیتا ہوں۔اس نے پہلے ایک پنجرے کا دروازہ کھولا۔ ننھی ننھی چھوٹی چھوٹی چڑیاں ایک ایک کر کے‘ پُھر پُھر کر تی‘ کھلی فضا میں اُڑ گئیں۔پھر اُس نے دوسرا پنجرہ کھولا۔ اس سے بھی اُڑ گئیں۔ میں گاڑی میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔وہ نزدیک آیا تو میں نے اسے کہا: تمہارا علاج تو یہ ہے کہ میں تمہیں یہیں چھوڑ کر چلا جاؤں مگر چونکہ وعدہ کیا ہوا ہے اس لیے اب بیٹھو گاڑی میں۔ گھر پہنچنے تک اس سے باتیں ہوتی رہیں۔ پوچھا یہ چڑیاں کہاں سے لیتے ہو۔ کہنے لگا: سرگودھا اور اس کے نواح میں اس کام کا نیٹ ورک ہے۔ وہ لوگ شکاریوں سے خریدتے ہیں۔ پھر ہمیں دیتے ہیں۔ پوچھا: یہ کام کیوں کرتے ہو؟ کہنے لگا :اور کیا کروں؟ کہا :پھلوں کا ٹھیلہ لگا لو یا سبزی منڈی جاؤ وہاں بہت کام مل جاتا ہے۔ نہیں معلوم اس پر کچھ اثر ہوا یا نہیں۔ مگر حیرت ہے کہ یہ عجیب و غریب کاروبار یہاں ہو رہا ہے۔ جن لوگوں کا دل ان بے زبان معصوم قیدیوں کو دیکھ کر پسیج جاتا ہے‘ ان پر ایک قسم کا نفسیاتی حملہ ہے۔ وہ انہیں نہ چھڑوائیں تو بے چین رہیں گے۔ دوسری طرف چھڑوانے سے یہ قبیح کاروبار مزید چمکے گا۔ عجیب دو دھاری تلوار ہے۔ ان سخت دل لوگوں پر حیرت ہے جو یہ بیوپار کر رہے ہیں۔ اگر انہیں چھڑوانا کارِ ثواب ہے تو منطقی بات یہی ہے کہ پھر پکڑنا گناہ ہے۔ تو گناہ کا یہ کام کیوں ہو رہا ہے؟ یہ کیسا ملک ہے؟ پولیس اگر پارکوں اور سیرگاہوں میں بیٹھے جوڑوں سے نکاح نامے طلب کر سکتی ہے تو چڑیاں پکڑ اور خرید کر پنجروں میں بند کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتی ؟ یہ گھٹیا کاروبار کیوں ہو رہا ہے؟ ان سنگدل انسان نما جانوروں کا بس چلے تو چیونٹیاں اور مکھیاں بھی قید کر کے پیسہ کمائیں!
اب جو بات میں کرنے لگا ہوں بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئے گی۔ پسند نہ کرنے والوں میں میرے قریبی اعزہ بھی شامل ہوں گے! ایک غریب طوطے کو پنجرے میں بند کر کے گھر میں رکھنے سے کون سی خوشی حاصل ہوتی ہے؟ پالتو جانور رکھنے کی اور بات ہے۔ بلی رکھی جاتی ہے۔ کتا پالا جاتا ہے۔ مگر انہیں پنجروں میں قید نہیں کیا جاتا۔ بلی گھر بھر میں دندناتی پھرتی ہے۔ کتے کو تو سیر بھی کرائی جاتی ہے۔پچاس ساٹھ سال پہلے کبوتر رکھنے کا عام رواج تھا۔ علامہ اقبال کو بھی یہ شوق تھا۔میرے گاؤں میں درجنوں لوگ تھے جن کے پاس کبوتر تھے۔ تب پکانے کے لیے ایک کبوتر ایک روپے میں مل جاتا تھا۔ مگر ان کبوتروں کو بھی پنجروں میں قید نہیں کیا جاتا تھا۔ ایک کنواں نما چیز کھودی جاتی تھی۔اسے ہماری مقامی زبان میں کُھڈی کہتے تھے۔اس میں خانے بنے ہوتے تھے۔ ہر کبوتر کا ایک خانہ ہوتا تھا۔یہ اس کا گھر ہوتا تھاجسے وہ کبھی نہیں بھولتا تھا۔ مالک ان کبوتروں کو اڑاتے تھے۔یہ اُڑ کر دور دور چلے جاتے تھے اور پھر خود ہی اپنے ٹھکانوں کو واپس آ جاتے تھے۔ یہ ظلم جو طوطوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ میرے ادھورے علم کی رُو سے کسی جانور یا پرندے کے ساتھ نہیں ہو رہا۔ بعض اہلِ مذہب سے منقول ہے کہ اگر پرندے کو ایذا نہ دی جائے اور اس کے دانے پانی کا خیال رکھا جائے تواسے پنجرے میں بند کر کے رکھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسے قید کرنا ایذا نہیں ہے؟ یہی تو ایذا ہے!! اسے اس قید سے اذیت ہوتی ہے۔ وہ تکلیف میں ہے۔ اسے قید و بند کی اذیت دے کر خوش ہونا یا اپنے بچوں کو خوش کرنا ایسا کام ہے جو کسی بھی نرم دل اور رحم دل انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں! ہم علامہ اقبال کی وہ دلگداز نظم شاید بھول چکے ہیں جس میں ایک قیدی پرندہ یوں فریاد کر تا ہے۔
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی؍ اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا؍ لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم؍ شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا؍ وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت؍ آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانا؍ آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں؍ ہوتی مری رہائی اے کاش میرے بس میں؍ کیا بد نصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں؍ ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں؍ آئی بہار کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں؍ میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں؍ اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سناؤں؍ ڈر ہے یہیں قفس میں میں غم سے مر نہ جاؤں؍ جب سے چمن چُھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے؍ دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے؍ گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے؍ دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے؍ آزاد مجھ کو کر دے او قید کرنے والے؍ میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے
بچپن میں ایک کہانی سنی تھی۔ ایک تاجر نے طوطا قید کر رکھا تھا۔ دور دراز کے تجارتی سفر پر جانے لگا تو طوطے کو خدا حافظ کہا۔ طوطے نے کہا: مالک ! میرا ایک کام کر دیجیے گا۔ فلاں ملک کے فلاں جنگل میں فلاں درخت پر میرے قبیلے سے تعلق رکھنے والے طوطے بیٹھے ہوں گے۔ جب آپ کا وہاں سے گزر ہو تو انہیں میرا سلام پہنچا دیجیے گا۔ تاجر نے وعدہ کیا کہ وہ خاص طور پر وہاں جا کر یہ کام کرے گا۔ وہاں پہنچ کر اس نے طوطوں کو اُن کے بچھڑے ہوئے بھائی کا پیغام دیا۔ طوطوں نے تفصیل پوچھی۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ قید میں ہے تو سب کے سب درخت کی شاخوں سے نیچے گرے اور مر گئے۔ تاجر یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ واپس آکر اس نے طوطے کو سارا واقعہ سنایا۔سُن کر طوطا بھی پنجرے میں گرا اور مر گیا۔ مالک نے اسے بیکار سمجھ کر باہر پھینک دیا۔ طوطے نے اڈاری بھری اور درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ اس نے مالک سے کہا کہ وہ طوطے مرے نہیں تھے۔ انہوں نے مجھے یہ ترکیب بتائی تھی کہ مرنے کا ڈراما کرو تاکہ اس ظالم کی قید سے رہائی ملے۔ جب تم نے سارا واقعہ سنایا تو میں اس خفیہ پیغام کو سمجھ گیا اور جھوٹ موٹ مر گیا!!
انسان نے انسانوں کا تو خون بہایا۔ کبھی مذہب کے بہانے‘ کبھی وطنیت کے نام پر۔ کبھی مال وزر کی لالچ میں اور کبھی سلطنتوں کو وسیع کرنے کے لیے!! افسوس! اس کے ظلم سے پرندے اور جانور بھی نہ بچ سکے!!