آئی پی پیز (بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں) کے ساتھ یہ معاہدے کس کس نے کیے؟ ملکی خزانہ ان کمپنیوں کو ان کے کارخانوں کی مکمل استعداد کے مطابق ادائیگی کر رہا ہے۔ حقیقی پیداوار کے مطابق نہیں! فرض کیجئے ایک کارخانہ پوری استعداد کے ساتھ چلے تو ہزار روپے کی بجلی پیدا کر سکتا ہے‘ مگر بجلی پانچ سو کی پیدا کر رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت سے وہ ہزار روپے ہی وصول کر رہا ہے۔ اس لیے کہ یہ معاہدے عوام کے فائدے کیلئے یا ملکی مفاد کے لیے نہیں کیے گئے۔ یہ دوست نوازی کیلئے کیے گئے یا اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے کیے گئے۔ عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر ان نجی کمپنیوں کا پیٹ بھرا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ معاہدے کس کس کی‘ کون کون سی حکومت میں کیے گئے؟ کوئی تفتیش؟ کوئی انکوائری؟ کوئی مقدمہ؟ کوئی سزا؟ اور اب سولر انرجی پیدا کرنے والے گھروں پر ٹیکس لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بظاہر سرکاری تردید ہو رہی ہے مگر یہ بہت پرانا نسخہ ہے۔ جب بھی عوام پر نیا بوجھ ڈالنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو پہلے ایک Feeler چھوڑا جاتا ہے۔ لوگوں کا ردِعمل دیکھا جاتا ہے۔ پھر تردید جاری ہوتی ہے اور آخر میں بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ سولر بجلی پر ٹیکس لگنا ہی لگنا ہے!
تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں پھر بھی مراعات یافتہ طبقات کی سامراجی‘ اندھی‘ لوٹ مار جاری ہے۔ بینکوں سے لیے گئے قرضے کس کس کے معاف ہوئے؟ نام بتانے سے انکار کرنیوالوں کو کوڑے کیوں نہیں مارے جاتے؟ جیل کیوں نہیں بھیجا جاتا؟ یہ بینکوں کے افسر‘ یہ اہلکار‘ لوٹ مار کرنے والوں کے گماشتے کیوں بنے ہوئے ہیں؟ عام شہری قرض نہ واپس کرے تو بینک اس کے تن سے کپڑے اتار لیتے ہیں۔ سامان قرق کرا دیتے ہیں۔ دو اڑھائی لاکھ روپے کی واپسی کیلئے سالہا سال تک تعاقب کرتے ہیں۔ مگر کروڑوں‘ اربوں روپے باپ دادا کی جائداد سمجھ کر بانٹ دیے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ کیسا قانون ہے جو ناجائز فائدے اٹھانے والوں کے نام چھپاتا ہے؟ کیا یہ قانون آسمان سے اُترا ہے؟ یہ ڈھکوسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ یہ قارون کب تک چھپے رہیں گے؟ ان سے پائی پائی کب وصول کی جائے گی؟ ان کی جائدادیں‘ عام شہریوں کی جائدادوں کی طرح کب نیلام ہوں گی؟ حساب کا دن کب آئے گا؟
کیا صرف قومی ایئر لائن اور سٹیل مل سفید ہاتھی ہیں؟ یہ تو ضرور ہیں مگر اور بھی ہیں! یہ کب تک ہمارا خون چوسیں گے؟ پولیس پر ہر ماہ کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ کون سا شہر ہے‘ کون سا قصبہ ہے جس میں ہر روز‘ ہر رات ڈاکے نہیں پڑ رہے؟ چوریاں نہیں ہو رہیں؟ عوام کی جانیں محفوظ ہیں نہ اموال‘ نہ عزتیں! صرف ایک دن کی خبریں دیکھیے اور پولیس کی افادیت پر سر دھنیے!
اسلام آباد پنڈی کے جڑواں شہروں کے مختلف علاقوں سے چار گاڑیاں‘ سترہ موٹر سائیکل‘ طلائی زیورات اور موبائل فون چوری ہوئے۔ گن پوائنٹ پر20 تولے زیورات چھین لیے گئے۔ لاہور میں اچھرہ‘ راوی روڈ‘ ماڈل ٹاؤن‘ نولکھا‘ سمن آباد اور شاہدرہ میں لوٹ مار کی وارداتیں۔ ملتان میں شہری لاکھوں کے زیورات‘ کیش اور دوسرے مال و متاع سے محروم کر دیے گئے۔ ممتاز آباد‘ قطب پور‘ صدر اور دیگر علاقوں میں ڈاکے‘ چوریاں اور وارداتیں! یہ صرف سرخیاں ہیں دو دن پہلے کی جو مختلف اخبارات میں چھپی ہیں۔ جو وارداتیں رپورٹ نہیں ہوئیں وہ ان کے علاوہ ہیں! کوئی ہے جو پولیس کے متعلقہ ذمہ داروں سے ان وارداتوں کی پوچھ گچھ کرے۔ کتنے روپے ہر ماہ انکی تنخواہوں‘ مراعات‘ ٹی اے ڈی اے اور ان کے سرکاری محلات کی آرائش کیلئے ادا کیے جاتے ہیں؟ پولیس افسران کی چمکتی وردیاں اور کاندھوں پر چاند ستارے دیکھیے اور ان کے علاقوں میں ڈاکوؤں‘ چوریوں اور وارداتوں کی تعداد دیکھیے۔ لوگوں نے گھروں میں اپنے ذاتی خرچ پر سکیورٹی الارم لگوائے ہوئے ہیں۔ کیمرے نصب کرائے ہوئے ہیں۔ گارڈز رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس اپنے فرائض سرانجام دیتی تو الارم کی‘ کیمروں کی اور نجی گارڈز کی یہ اربوں کی انڈسٹری وجود میں نہ آتی۔ گاڑیاں انشورنس نہ کرانا پڑتیں۔ گاڑیوں میں ٹریکر نہ لگانا پڑتے۔ کوئی ہے جو پوچھے کہ پولیس کے کتنے افراد محلات پر پہرے دے رہے ہیں؟ یہ کس کس کے گھر ہیں؟ پولیس کے کتنے ریٹائرڈ افسروں کے گھروں کے باہر پولیس کے خیمے نصب ہیں اور شفٹوں پر چوکیداریاں ہو رہی ہیں؟ کتنے ریٹائرڈ افسران اب بھی سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور استعمال کر رہے ہیں؟ کوئی حساب کتاب؟ کوئی سوال جواب؟ کوئی شرم و حیا! کتنا نچوڑو گے؟ خلجیوں اور سوریوں کے زمانے میں قتل اور چوری کی ذمہ داری پولیس کے داروغوں اور کوتوالوں پر عائد ہوتی تھی۔ انگریز ایس پی واردات والے گاؤں میں آکر پڑاؤ ڈال لیتا تھا اور تب رخصت ہوتا تھا جب مجرم پکڑا جاتا تھا! چوروں ڈاکوؤں اور قاتلوں کو کھلی چھٹی صرف مملکتِ خداداد میں ملی ہے۔
کچہریوں میں جانے والوں کے کپڑے اُتارے جا رہے ہیں! نائب تحصیلداروں‘ تحصیلداروں اور پٹواریوں کے معیارِ زندگی کا ان کی جائز آمدنی سے کیا نسبت تناسب ہے؟ تمام گردن بلند ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کو چیلنج ہے کہ بھیس بدل کر‘ عام آدمی کی حیثیت سے اپنے علاقے کی کسی ایک کچہری میں بھی رشوت یا سفارش کے بغیر زمین یا جائداد کا انتقال کرکے دکھائیں! ایک پروفیسر دوست نے زندگی بھر کی جائز کمائی سے ایک زرعی فارم بنایا ہے۔ یہ دو ماہ پہلے کی بات ہے کہ اس سے گرداوری کیلئے چار لاکھ روپے رشوت مانگی گئی۔ بیٹے کا مکان باپ کے نام کرانے کیلئے پچیس ہزار روپے مانگے گئے۔ کون سی ڈپٹی کمشنری! کہاں کی کمشنری! غارتگری ہے اور دن دہاڑے غارتگری ہے۔ راہزنی ہے اور وہ راہزنی ہے جو راہزنی روکنے والوں کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔ زندگی بھر کیلئے تکیۂ کلام ہے ''میں جب ڈپٹی کمشنر تھا‘‘۔ ارے میاں! جب تم ڈپٹی کمشنر تھے تو تمہارے ماتحت تحصیلدار‘ گرداور‘ پٹواری اور ریڈر کیا کر رہے تھے؟ ہم گاؤں سے جڑے ہوئے لوگ ہیں! ہمیں معلوم ہے زرعی زمین کی نشاندہی کرانے کا کیا مطلب ہے؟ اُس پروردگار کی سوگند! جس نے حلال کو حرام سے الگ کرکے رکھا ہے‘ ایک ایک کام کیلئے کئی آتش خوروں کے پیٹ میں سلگتے انگارے ڈالنا پڑتے ہیں! پارلیمان کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو پوچھتی کہ ملک میں سرکاری گاڑیوں کی کل تعداد کتنی ہے؟ ہر ماہ سرکاری خزانے سے پٹرول اور ڈرائیوروں پر خرچ ہونے والی رقم کتنی ہے؟ مگر پارلیمنٹ کیا پوچھے گی! اس میں تو خود وی وی آئی پی بیٹھے ہیں! نام لینا تو دور کی بات ہے‘ جن کی طرف دیکھنا بھی جرم ہے انہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی مفت گاڑیوں‘ مفت پٹرول‘ مفت بجلی‘ مفت گیس اور مفت سٹاف پر ہر ماہ عوام کے ٹیکسوں سے کتنا روپیہ خرچ ہو رہا ہے؟ صرف ایک سمت نہیں‘ دائیں بائیں‘ آگے پیچھے‘ اوپر نیچے ہر طرف دیکھ کر بتائیے! اتنی متعیشانہ زندگی کا تو انگریز حکام نے بھی کبھی نہ سوچا تھا۔ کیا یہ ہم میں سے ہیں؟ یہ ہمارے مسائل کیا حل کریں گے! یہ تو خود مسائل کا حصہ ہیں! وہی پرانی کہاوت کہ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو وہاں کھیت کی کیا حالت ہو گی؟
ثروت حسین نے کہا تھا:
تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم؍یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟
کب تک؟ یہ بازار کب تک چلتا رہے گا؟ رشوت‘ سفارش‘ اقربا پروری‘ سرخ فیتہ ہر طرف عفریت بن کر ناچ رہے ہیں! عوام کی قسمت جن کے ہاتھوں میں ہے وہ خصوصی جہازوں کے بغیر کہیں آنے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے! اس صحرا سے جب کبھی کوئی سیاح گزرے گا تو ہر طرف ٹوٹی طنابیں‘ ہڈیاں اور کاسہ ہائے سر دیکھ کر پوچھے گا ''کون لوگ تھے جو یہاں بے موت مارے گئے؟‘‘۔