آپ کا کیا خیال ہے ایک اچھے بھلے پڑھے لکھے انسان کو جب ڈاکٹر سرجری کے لیے کہتا ہے اور وہ انکار کرتا ہے اس بنیاد پر کہ اس کے کسی بزرگ نے‘ جن کا وہ عقیدت مند ہے‘ سرجری سے منع کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ وہ کسی عمل سے اسے ٹھیک کر دیں گے! تو اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ شخص اپنی باقی عملی زندگی میں حقیقت پسند ہے اور منطق اور سائنس کو بروئے کار لاتا ہے! وہ صبح اُٹھ کر دکان کھولتا ہے۔ دفتر جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ اس کے بزرگ‘ جن کا وہ عقیدت مند ہے‘ اسے گھر بیٹھے‘ کام کیے بغیر‘ خوشحال کر دیں گے۔ وہ پودے لگاتا ہے تو ان کی حفاظت بھی کرتا ہے‘ آبیاری بھی کرتا ہے اور انہیں دھوپ اور طوفان سے بھی بچاتا ہے۔ بچوں کی شادیاں‘ مکان کی تعمیر اور زندگی کے باقی سب کام وہ عقل کو استعمال کر کے کرتا ہے۔ سوائے علاج کے معاملے میں‘ جہاں وہ اپنے بزرگ کے فرمان پر عمل کرتا ہے۔ یہاں وہ عقل کا استعمال کرتا ہے نہ منطق کا! وہ بزرگ سے نہیں پوچھتا کہ اس بیماری میں مبتلا کتنے مریضوں کا وہ پہلے ''علاج‘‘ فرما چکے ہیں‘ نہ اسے ایسے ''شفا یافتہ‘‘ مریضوں کو ملنے کا خیال آتا ہے۔
اس صورتحال کو اب سیاست پر اپلائی کیجیے۔ یہاں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے ذہن کی سب کھڑکیاں کھلی ہیں سوائے ایک کھڑکی کے‘ وہ اپنے پسندیدہ لیڈر کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار ہیں نہ ماننے کے لیے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ جس لیڈر پر تم فدا ہو‘ اس کی اتنی جائدادیں ملک سے باہر ہیں۔ اس کا لائف سٹائل ایسا ہے۔ اس کے پاس دولت کے جو انبار ہیں‘ ان کا حساب کتاب مشکوک ہے۔ ان اندھی عقیدت رکھنے والوں کو لندن کے فلیٹ‘ سرے کا محل‘ فرانس کی جائداد‘ بزدار کا کردار‘ فرح خان‘ جمیل گجر‘ کابینہ میں پیش کیا جانے والا بند لفافہ‘ انتہا درجے کی تلوّن مزاجی‘ جوشِ انتقام کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا۔ اچھا بھلا معقول آدمی اپنے لیڈر کے بارے میں بات سنتے وقت یوں ہو جاتا ہے جیسے اس کا ذہن مفلوج ہو چکا ہے۔ اس طرف کھلنے والی کھڑکی بند ہے۔ ذہن کا یہ حصہ منجمد ہے۔ کام ہی نہیں کر رہا۔
اس کی ایک بڑی وجہ سیاسی پارٹیوں پر شخصی اجارہ داری ہے۔ پارٹیوں کے اندر جمہوریت مکمل طور پر مفقود ہے۔ اگر جماعتوں کے اندر صحیح طور پر انتخابات ہوں تو شخصیت کا سِحر ٹوٹ جاتا ہے۔ کوئی نواز شریف‘ آصف زرداری‘ عمران خان اور مولانا فضل الرحمان کے خلاف پارٹیوں کے اندر صدارت کی نشست کے لیے کھڑا ہوگا تو ان شخصیات کے کمزور پہلو‘ ان کی ناکامیاں اور ان کی غلطیاں اور جرائم گنوائے گا۔ یہی ان ملکوں کا وتیرہ ہے جہاں اصل جمہوریت کارفرما ہے۔ کوئی شخص پارٹی لیڈر کو تنقید سے بالا نہیں سمجھتا۔ اس کی ذرا سی کمزوری بھی نوٹ کی جاتی ہے۔ لیڈرشپ کی تبدیلی وہاں کوئی بڑی بات نہیں!!
اندھا اعتقاد‘ عقیدے کے لحاظ سے یا سیاست کے حوالے سے‘ کوئی نئی بات نہیں۔ حسن بن صباح کی لوگوں نے اندھی اطاعت کی۔ اس کے کہنے پر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ جو لوگ سامری کی باتوں کو‘ چپ چاپ‘ کٹھ پتلیوں کی طرح مانتے چلے گئے وہ معمولی لوگ نہیں تھے۔ وہ ایک پیغمبر کے ساتھی رہے تھے۔ پیغمبر کی صحبت سے فیض اٹھا چکے تھے۔ مگر اندھی عقیدت نے ان کے ذہن کو اپاہج کر دیا۔ کھڑکی بند ہو گئی‘ سوال پو چھنے کی‘ اعتراض کرنے کی ذہنی سکت ختم ہو گئی۔ اگر ایک پیغمبر کے ساتھی اندھی عقیدت کا شکار ہو سکتے ہیں تو آج کل کے لوگ کس کھیت کی مولی ہیں! فروری 1983ء میں اڑتیس ( 38) افراد کے ایک گروپ نے کراچی کے سمندری مقام ''ہاکس بے‘‘ پر اپنے آپ کو لہروں کے حوالے کر دیا۔ چکوال کے ایک گاؤں کے سید ولایت حسین شاہ اس گروپ کے رہنما تھے۔ کچھ خواتین اور بچوں کو ٹرنکوں میں رکھا گیا تھا۔ شاہ صاحب نے گروہ کو یقین دلایا تھا کہ جب وہ سمندر میں داخل ہوں گے تو وہاں راستہ بن جائے گا اور وہ بصرہ پہنچ جائیں گے۔ نصف تعداد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ باقی کو بچا لیا گیا۔ نومبر 1978ء میں جنوبی امریکہ کے ملک گویانا میں ایک گروہ کے نو سو اٹھارہ افراد نے اجتماعی خودکشی کی۔ اس کا حکم ان کے روحانی رہنما جم جونز نے دیا تھا۔ اس واقعہ نے امریکہ سمیت دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ جم جونز 1931ء میں امریکی ریاست انڈیانا میں پیدا ہوا۔ چرچ آنے جانے میں شروع ہی سے دلچسپی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے پادری بننے کا فیصلہ کیا۔ خطابت کا ملکہ تھا۔ جلد ہی یہ بات مشہور ہو گئی کہ وہ بیماروں کو تندرست کر دیتا ہے اور مافوق الفطرت طاقتیں اس کے قبضے میں ہیں۔ سماجی سرگرمیاں اس کے علاوہ تھیں۔ پھر اس نے اپنی ریاست چھوڑی اور سان فرانسسکو کو ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ اب اس کے پیروکاروں کی تعداد اڑھائی ہزار ہو چکی تھی۔ اس کے فرقے کا نام ''پیپلز ٹیمپل‘‘ پڑ گیا۔ جم جونز کی دلچسپی لینن اور سٹالن میں بھی تھی۔ وہ ایک سوشلسٹ جنت بنانا چاہتا تھا جہاں اس کے پیروکار سوشلزم کے اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ آخری سچائی کا نام ''مقدس اصول‘‘ (Divine principle) ہے۔ یہ اصول ہی بقول اس کے‘ خدا تھا۔ اس اصول کا دوسرا نام محبت تھا اور محبت اصل میں سوشلزم تھی۔ جم جونز نے اعلان کیا کہ وہ خدا کی طرف سے نجات دہندہ بن کر آیا ہے۔ اور اسے لوگوں کے مسائل اور مصائب دور کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ''مقدس اصول‘‘ کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ یسوع مسیح کے ساتھ صلیب پر کھڑے ہیں جو بہت بڑا اعزاز تھا۔ میڈیا نے فرقے کے اندر جھانکنا شروع کیا تو جم جونز نے امریکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے فرقے کو جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک گویانا میں منتقل کر دیا۔ جونز ٹاؤن نامی شہر میں اس نے اپنا مرکز بنا لیا! نو سو پیروکار اس کے ساتھ آئے۔ ان کے ساتھ اس نے وعدہ کیا کہ یہ جنت بیرونی آلائشوں سے پاک ہو گی۔ دوسری طرف ان لوگوں کے رشتہ داروں نے شور مچایا ہوا تھا کہ انہیں زبردستی رکھا جا رہا ہے۔ نومبر 1978ء میں اس نے اپنے پیرو کاروں کو حکم دیا کہ زہر پی کر ''انقلابی خودکشی‘‘ کا اقدام کریں۔ نو سو اٹھارہ افراد ہلاک ہوئے جن میں دو سو چھہتر بچے بھی شامل تھے۔
اندھی عقیدت کی اس مثال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیاست اور مذہب کا ملغوبہ بنا کر اگر ایک سیاسی اطاعت کو عملاً فرقے میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔کوئی بھی شخصیت اپنی کرشماتی کشش کو بروئے کار لا کر تھوڑا سا مذہبی ٹچ دے کر‘ لوگوں کو اپنے پیچھے لگا سکتی ہے۔ ان پیروکاروں کے ذہن منجمد کر دیے جاتے ہیں۔ ذہن کی کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اگر اس قسم کی بات سننے میں آتی ہے کہ میں فلاں کے حکم پر اپنے بچے کو بھی قربان کر سکتا ہوں تو اس میں کوئی تعجب نہیں! لوگ ایسی طلسماتی اور کرشماتی شخصیت کے سامنے روبوٹ بن جاتے ہیں یا Zombie ہو جاتے ہیں۔ اسے سیاسی ہپناٹزم بھی کہہ سکتے ہیں۔ حملہ کر دو۔ لوگ حملہ کر دیتے ہیں! آگ لگا دو۔ لوگ آگ لگا دیتے ہیں۔ گالی دو‘ لوگ‘ حسبِ منشا‘ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ لیڈر کو اس زبردست اتھارٹی سے نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ عقل اور منطق سے وہ خود دور ہوتا ہے۔ پیروکاروں کو بھی دور کر دیتا ہے۔