کراچی کے چڑیا گھر میں امریکہ کی طرف سے تحفے میں بھیجے گئے امریکی اژدہے دیکھنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔بتایا گیا ہے کہ یہ اس قدر خوبصورت ہیں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔کراچی چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ان کی دیکھ بھال کیلئے خاصے اہلکار مقرر کردیئے ہیں۔ انہیں پینے کے لیے منرل واٹر فراہم کیاجارہا ہے ؛البتہ چڑیا گھر کی انتظامیہ پریشان ہے کہ یہ امریکی اژدہے کھاتے بہت ہیں، پیزا اور برگر کے علاوہ کسی دیسی شے کو منہ ہی نہیں لگاتے۔پہلے دن جب انہیں پاکستانی جانوروں کاگوشت، پانی، دودھ، پھل اور سبزیاں کھانے کو دیے گئے تو اُنہوں نے چھوڑ دیا جس پر مجبوراََ شہر کے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹوروں سے ان کے لیے غیر ملکی خوراک اور پانی کا انتظام کیا گیا جس سے انتظامیہ کو بے تحاشا اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں ۔ دوسری طرف ان اژدہوں کو دن رات کھانے پینے کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔ چند دنوں میں ہی ان سانپوں کی چڑیا گھر میں دھاک بیٹھ گئی۔ ہر کوئی ان سے ڈرنے لگا ہے کیونکہ یہ کھاتے بھی ہیں اور حکم بھی چلاتے ہیں اگر ان کے حکم کی تعمیل میں چند لمحوں کی بھی دیر ہو جائے یا ان کی پھُنکار پر توجہ نہ دی جائے تو یہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں ۔ابھی تک یہ بھید نہیں کھل سکا کہ ان سانپوں کو پاکستان بھیجنے کی درخواست کس کی طرف سے کی گئی تھی کیونکہ جب ان سے ملتے جلتے اژدہے اس سے پہلے ہی اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے تو ان کی مزید ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔چڑیا گھر کی انتظامیہ کا سارے کا سارا بجٹ ان کی خوش خوراکی کی نذر ہونا شروع ہوگیا تو فیصلہ ہُوا کہ ان اژدہوں کا پیٹ بھرنے کیلئے چڑیا گھر کے باقی جانوروں اور پرندوں کے حصے کا بجٹ کم کردیاجائے لیکن چند دن کی اس راشن بندی کا چڑیا گھر کے دوسرے جانوروں کی صحت و تندرستی پر بُرا اثر پڑا۔کئی ایک نے بھوک سے تنگ آکر خود کشیاں بھی کرلیں۔ اس کی خبر جب باہر پھیلی تو اژدہوں کا تحفہ دینے والوں (امریکیوں ) نے تسلی د ی کہ گھبرائو نہیں اگر انہیں کھلانے پلانے کیلئے فنڈز کی کمی کا کوئی مسئلہ ہے تو اس کیلئے بیرونی قرضے کا بندو بست کر دیتے ہیں لیکن سب سے پہلے ہمارے ماہرین ان سانپوں کی موجو دہ حالت کا معائنہ کر کے ان کی صحت اور خوراک کا چارٹ دیکھنے کے بعد جو رپورٹ مرتب کریں گے اس رپورٹ کی روشنی میں عالمی بینک، آئی ایم ایف یا ایشائی ترقیاتی بینک سے قرضہ دلائیں گے۔ انتظامیہ نے جب امریکی ماہرین کی آمدو رفت اور قیام و طعام کا تخمینہ لگایا تو وہ چڑیا گھر کے سالا نہ بجٹ سے تھوڑا ہی کم تھا اس پر تجویز دی گئی کہ بجائے اس کے امریکی ماہرین یہاں آئیں کیوں نہ پاکستان سے کوئی اعلیٰ وفد امریکہ بھیجا جائے۔ معاملہ چونکہ امریکی اژدہوں کی دیکھ بھال اور صحت کا تھا اس لیے یہ تجویز فوری منظور کر لی گئی کہ پاکستانی ماہرین کو امریکہ بھیجا جائے تاکہ وہ خود جا کر دیکھیں کہ امریکی اپنے اژدہوں کی کس طرح دیکھ بھال کرتے ہیں ان کی خوراک اور رہائش کا معیار کیا ہے اور پاکستانی ماہرین یہ بھی دیکھیں کہ ان اژدہوں کو دن میں کتنی بار اور کتنے عرصے کیلئے ان کی آرامگاہ سے باہرلایا جاتا ہے۔ ان اژدہوں کے بارے میں دکھائی جانے والی میڈیا کی مختلف رپورٹوں کو سامنے رکھیں تو اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نئی نسل ان میں زیا دہ دلچسپی لے رہی ہے ۔وہ حیران ہیں کہ اژدہے اس قدر خوبصورت بھی ہو سکتے ہیں اب ان بچوں کو کون سمجھائے کہ یہ اژدہے جو دیکھنے میں اس قدر پیارے اور اپنے اپنے سے لگتے ہیں ان کے قریب ہونے ان کے پاس بیٹھنے اور ان کے رینگنے کی سر سراہٹ حیران سی کر دیتی ہے سامنے بیٹھا ہوا ان سے اس قدر مسحور ہو جاتا ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے ۔پتہ اس وقت چلتا ہے جب اژدہے کے تیز اور نوکیلے دانت اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں کہ پھر نہ تو وہ کوئی حرکت کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی آواز نکلتی ہے۔ کراچی کے چڑیا گھر میں بطور تحفہ بھیجے گئے ان اژدہوں کو دیکھنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹُوٹ پڑنے والے ان بچوں کو کوئی یہ بتانے کی کوشش کرے کہ جنہوں نے یہ اژدہے کراچی بھیجے ہیں ان کی طرف سے کراچی والوں کو ایک اور تحفہ دینے کے لیے مڈل ایسٹ میں موجود یو ایس آرمی کی کور آف انجینئرز \'\'TCOC\'\' کے زیر نگرانی ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول فورس منشیات کی عالمی سمگلنگ کا قلع قمع کرنے کے نام پر کراچی کے جناح ائر پورٹ پر اپنا ایک اڈّہ بنانے جا رہی ہے اور اس کے لیے اس نے ایک رپورٹ بھیجی ہے جس کے مطابق کراچی ائر پورٹ پر سات ہزار مربع فٹ کا ایک کمپائونڈ اور900مربع فٹ کی عمارت تعمیر کی جائے گی ۔لگتا ہے کہ یہ اسی طرح ہو گا جیسے امریکی میرین نے چند سال پہلے اینٹی ڈرگ آپریشن کی آڑ میں بلوچستان مکران کے ساحل پر بھی \'\'MARINE AMPHIBIANS DIVN. اُتارنے کی کوشش کی تھی۔ ابھی تو کراچی کے چڑیا گھر کو تحفے میںملنے والے امریکی اژدہے قابو میں نہیں آ رہے اگر خدا نخواستہ…!