بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث سرکریک مسئلے کا حل نہیں نکل رہا بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنا دسمبر کا مجوزہ دورۂ پاکستان بغیر کوئی تاریخ دیے ملتوی کیا تو بہت سے لوگ حیران ہوئے لیکن مجھے اس پر تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ بھارتی وزیراعظم گزشتہ اکتوبر میں ایک غیر ملکی دورہ سے واپس آتے ہوئے اپنے طیارہ میں میڈیا کے چند لوگوں سے دورانِ گفتگو دو ٹوک کہہ چکے ہیں ’’بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کرتے جائو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے مقصد اور مفاد کو سرنڈر کر دیں‘‘ جب موہن سنگھ سے پوچھاگیا کہ آپ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ ’’آپ دوست جس کو چاہے بنا لیں لیکن ہمسایہ کوئی دوسرا نہیں بنا سکتے‘‘ اس کے جواب میں من موہن سنگھ نے کہا تھاTherefore, we are obliged to engage Pakistan.\'\' \"کانگریس کے جے پور میں ہونے والے حالیہ سالا نہ اجلاس میں بھی من موہن سنگھ نے ہمسایہ والا فقرہ دہرایا۔ نہرو سے لے کر موہن سنگھ تک بھارتی قیادت کا یہی وتیرہ رہا کہ اپنے سے کمزور کو باتوں میں لگائے رہو لیکن ہاتھ نہ پکڑائو اور زیرِ تصفیہ علاقوں میں اپنا قدم ایک ایک کر کے آگے بڑھاتے رہو۔ کشمیر،سیاچن اور پاکستانی دریائوں کے ایک ایک قطرے پر غاصبانہ کنٹرول کے بعد ہمارے حکمرانوں کی روایتی بزدلی سے شہ پا کر بھارت نے کئی دہائیوں سے زیر قبضہ سرکریک پر بھی مستقل قبضے کے لیے جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر تیل اور قدرتی گیس کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت سرکریک کے گرد غوطہ خوروں کی طرح زیر سمندر تیرتی ہوئی دھاتی باڑ لگانے میں مصروف عمل ہے اور یہ سر کریک کا وہ علاقہ ہے جہاں سے بھارت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبے پر کام شروع کر رہا ہے۔ کئی برسوں سے اس متنازع سمندری حصّے میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔اُس کا موقف ہے کہ اس طرح سمندری راستوں سے انسانی اور اسلحہ کی سمگلنگ کو روکا جا سکے گا اور اس کام کے لیے بھارتی حکومت کی دعوت پر جن دو کمپنیوں کو یہ غیر قانونی کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ان میں بھارت کی نیشنل بلڈنگ کنسٹرکشن کارپوریشن اور سینٹرل پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ سر کریک‘ کے گردپچھتّر کلومیٹر طویل باڑ نصب کرے گی۔ زیرِ تصفیہ سر کریک کے گرد لگائی جانے والی باڑ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ GABION BOX طرز کی باڑ ہے جو ہر موسم میں حفاظتی تاروں کا کام دیتی ہیںاور ہر قسم کے حالات میں ان میں مقناطیسی طاقت کی صلاحیت رہتی ہے۔ سر کریک تنازع کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کشمیر کی۔ اس کا پہلا نام بان گنگا تھا لیکن انگریزی دور میں ممبئی پریسیڈنسی نے اسے سر کریک کا نام دے دیا۔ 1908ء میں رائو حکمران اور سندھ حکومت میں سمندر کے اس حصّے کا تنازع جلانے کے لیے لکڑی کے حصول پر اُبھرا‘ دوسرا تنازع 1914ء میں اُبھرا اور سر کریک کا سمندری علا قہ بمبئی حکومت کے معاہدے کے تحت حل کیا گیا۔ اس معاہدہ کے پیرا9 اور10 کے تحت یہ علا قہ آج پاکستان کا حصّہ بنتا ہے اور اس قرار داد کی توثیق کرتے ہوئے حکومت سندھ اور رن کچھ کے مہاراجہ نے اس پر با قاعدہ دستخط بھی کیے تھے۔ تیسرا تنازع اپریل1965ء میں اس وقت سامنے آیا جب رن کچھ میں پاکستان اور بھارت کے مابین جھڑپیں شروع ہوئیں تو اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم ہیرلڈ ولسن نے مداخلت کرتے ہوئے ٹریبیونل قائم کیا اور اس طرح چوتھا تنازع جو فروری 1968ء میں شروع ہوا تو اس وقت انٹر نیشنل ٹریبیونل کی یہی رپورٹ سامنے آئی کہ سرکریک کا صرف دس فیصد حصّہ پاکستان استعمال کر رہا ہے اور باقی پر بھارت جبری قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ کارگل جنگ کے بعد 10 اگست1999ء کو بھارتی ائرفورس کے MIG 21 نے پاکستان کے اٹلانٹک جہاز پر حملہ کرتے ہوئے اس میں سوار پاکستان نیوی کے سولہ افراد کو شہید کر دیا لیکن اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی واجپائی سے دوستی کی وجہ سے پاک بحریہ کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکی اور بے بسی سے منہ دیکھتی رہ گئی۔ بھارت کے دوغلے پن کا اندازہ کریں کہ صوبہ گجرات سے بھارتی جنتا پارٹی کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے من موہن سنگھ حکومت کو خط لکھتے ہوئے د ھمکی دی ہے کہ اگر اس نے سر کریک کے مسئلے پر پاکستان سے کسی بھی قسم کی کوئی مصالحت یا کسی بھی قسم کے مذاکرات کیے تو جنتا پارٹی اسے تسلیم نہیں کرے گی۔ مودی کی دھمکی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس حکومت جو بہت جلد ملک کے عام انتخابات کی طرف جانے والی ہے خاموش ہو کر بیٹھ گئی۔ بھارتی حکومت نے مودی کی ہمنوائی کرتے ہوئے کہنا شروع کردیا ہے کہ اگر سرکریک پر پاکستان کا موقف تسلیم کر لیا گیا تو بھارت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا اور اس سے گجرات کی سرحد کھل جائے گی جس سے بھارت کی دفاعی لائن کو زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سر کریک کاایک سو کلومیٹر کا یہ پاکستانی علاقہ جس پر بھارت نے جبری قبضہ کیا ہوا ہے ۔بحیرۂ عرب کے قریب پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ اور بھارتی علاقہ گجرات کے بیچ واقع ہے ۔ سر کریک پر پاک بھارت مذاکرات کے نو دور ہو چکے ہیں لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی دیکھتے ہوئے پاکستان نے کئی بار اس مسئلہ کو ثالثی کے ذریعے حل کر نے کی پیش کش کی لیکن بھارت اس پر تیار نہیں ہو رہا ۔اس کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان اور بھارت کے تمام تصفیہ طلب مسائل تیسرے فریق کی بجائے باہمی بات چیت سے حل ہوں گے ۔ دوسرے لفظوں میں بھارت پاکستان کو ہر وقت انگیج رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کے سابق نیول چیف ارون پرکاش کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان سر کریک پر ہونے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو پھر کسی تیسرے فریق کو آگے آکر اس مسئلہ کو سُلجھانا پڑے گا کیونکہ بھارت بھی اب امریکی اور برطانوی سرپرستی کی وجہ سے ایشیا کا چوکیدار بننے کا خواہش مند ہے ۔