"MABC" (space) message & send to 7575

مُک مکا کیسے ہوتا ہے

واقعات ثابت کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان کو مُک مکا کے تحت نامزد کیا گیا کیا یہ حیران کُن نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی تقرری تو تیرہ جولائی2012 ء کو ہوتی ہے لیکن الیکشن کمیشن کے باقی چار ارکان کا تقرر ایک سال قبل جون2011 ء میں کیا گیا۔ ان چار اراکین کی کارکردگی‘ ہو سکتا ہے کہ کسی بھی قسم کے شک و شُبہ سے با لاتر ہو لیکن کچھ لوگ یہ کہہ کر ان کی طرف انگلیاں اُٹھا رہے ہیں کہ ہائر ایجو کیشن کمیشن نے انسٹھ اراکین پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی قرار دی تھیں لیکن الیکشن کمیشن نے (نہ جانے کس کے کہنے پر) ان میں سے ستائیس ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے انہیں کلیئر کر دیا۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابرہیم کی ایمانداری ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہے لیکن اصل سوال باقی چار ارکان کا ہے جن کے لیے دیکھنا ہو گا کہ ان کا تقر ر کب، کس نے اور کس طرح کیا ؟۔ آئین کی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے لیے چاروں صوبوں سے ایک ایک رُکن لیا جائے گا جو ہر متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو اور ان کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اوراپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد ہر ایک صوبے سے تین تین نام منتخب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جو ان میں سے ایک نام منتخب کرے گی ۔اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک فہرست پر آپس میں متفق نہیں ہوتے تو دونوں کی طرف سے ہر رکن کے لیے علیحدہ علیحدہ فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائے گی جو ہر صوبے کے لیے ایک ایک نام کی منظوری دے گی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی جس کے چار چار ممبران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے متعلق ہوں گے لیکن بعد میں آئین میں انیسویں ترمیم کرتے ہوئے اس کمیٹی میں سینٹ سے بھی چار رکن شامل کرتے ہوئے اس کی تعداد بارہ کر دی گئی۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو اختیار تھا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن اٹھارویں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو حاصل تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیے گئے۔دوسرے لفظوں میں اب چیف الیکشن کمشنرکے اختیارات بھی وہی ہیں جو باقی چار اراکین کو حاصل ہیں۔ اب اگر فخرو بھائی کوئی حکم یا فیصلہ دینا چاہتے ہیں تو نہیں دے سکتے کیونکہ ان کا بھی باقی چار اراکین کی طرح اپنا صرف ایک ہی ووٹ ہو گااورباقی چار رکن ان کے خلاف جو چاہے فیصلہ دے سکتے ہیں۔اور اگر کسی بھی اجلاس کے وقت وہ موجود نہیں ہیں تو کسی بھی طرح کسی فیصلہ یا حکم کیلئے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے ۔ ملک میں ہونے والے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری صرف اور صرف چیف الیکشن کمشنر سمیت ان پانچ اراکین پر عائد ہوتی ہے اور اگر اراکین کی تعیناتی قابلِ اعتماد نہ رہے تو انتخابات منصفانہ کیسے ہو سکیں گے؟ یہی وہ نکتہ تھا جسے طاہر القادری صاحب نے اُٹھایا تھا لیکن اسے منظم طریقے سے اوجھل کر دیا گیا۔ حقیقت تک پہنچنے کیلئے الیکشن کمیشن کی تعیناتی کے سارے عمل کو ایک ایک کر کے دیکھنا ہو گا :آٹھ اپریل2010ء کو صدر آصف علی زرداری اورمیاں نواز شریف کی مو جود گی میں اٹھارویں ترمیم کے بل پر دستخط کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ آج ہم نے فوجی آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے ٭ بائیس فروری2011 ء کو اس ترمیم کی منظوری کے ایک سال بعد قومی اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تاکہ وہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کر سکے جس میں آٹھ ارکان قومی اسمبلی سے اور باقی چار سنیٹ سے لیے جائیں گے۔ان بارہ ممبران میں پی پی پی کے تین، مسلم لیگ نواز کے تین، مسلم لیگ ق کے دو اور متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت العلمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور فاٹا سے ایک ایک رکن لیا گیا٭ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے ایک سال بعد 26 اپریل2011ء کو سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر حکم جاری کیا کہ بہت ہو چکا‘ اب حکومت فوری طور پر آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی تشکیل کرے٭19 مئی 2011ء کو سپریم کورٹ نے حکومت کو مہلت دیتے ہوئے کہا کہ تین ہفتوں کے اندر الیکشن کمیشن کی تشکیل کی جائے٭اس دوران چھبیس ارکان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوچکے تھے جس پر سپریم کورٹ نے کہا ’’ یہ ضمنی انتخابات آئینی نہیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد یہ انتخابات چیف الیکشن کمشنر نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے تھے جو نہیں ہوئے٭30 مئی 2011ء کو پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ بیسویں ترمیم پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے چھبیس ارکان کو قانونی حیثیت دی جا سکے۔ سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی پانچ میں سے چار نشستیں ابھی مکمل نہیں ٭یکم جون کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے جسٹس فضل الرحمن‘ خیبر پختونخوا سے جسٹس شہزاد اکبر خان‘ پنجاب سے جسٹس ریاض کیانی اور سندھ سے جسٹس روشن عیسانی کے ناموں کی سفارش کر دی٭دس جون کو الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی منظوری دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کر دی گئی۔ اب ایک نہایت ہی اہم اور وضاحت طلب نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے لیے جو کچھ ہوا وہ تیس مئی سے یکم جون کے اس مختصر عرصے میں کیا گیا اور انہی دو دنوں کی پیش رفت میں مُک مکا ہوا ؟ کیا مجوزہ آئینی اورقانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر صوبے سے کمیشن کی تشکیل کیلئے نامزد کیے گئے تیرہ ارکان کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے انٹر ویو کے لیے بلایا؟کیا آئین اور قانون کی رو سے پارلیمانی کمیٹی نے سماعت کی؟ (جو میرے علم کے مطابق نہیں کی گئی ۔اس کی تصدیق سپریم کورٹ ان اراکین سے کر سکتی ہے) واقعات ثابت کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ان چار ارکان کو مُک مکا کے تحت نامزد کیا گیا اور انہیں تشکیل دی گئی بارہ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کی بجائے آٹھ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی نے نامزد کیا۔اس طرح یہ تاثر اُبھرنا قدرتی بات ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے مطا بق نہیں کی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں