"MABC" (space) message & send to 7575

کشن گنگا اور اب وُولر بیراج

کشن گنگا سے ہاتھ دھونے کے بعد اب پاکستان نے بھارت کے وُولر بیراج کے خلاف بھی اسی ثالثی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے جس نے کشن گنگا بھارت کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ کیا پاکستانی حکام بتائیں گے کہ کشن گنگا کا کمزور کیس کس نے اور کیوں تیار کیا؟ بد قسمتی سے ہم پانی کی تقسیم پر ’’ارسا‘‘ کے جماعت علی شاہوںکے ہاتھوں اسی طرح مار ے گئے جس طرح پاکستان کی تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ نے ہمیں مارا۔ اس لیے خدشہ ہے کہ چناب پر بگلیہار اور جہلم پر کشن گنگا کے بعد اب وُولر بیراج پر بھی پاکستان میں موجود ’’بھارتی ایجنٹوں‘‘ کی سازشیں کہیں کامیاب نہ ہو جائیں۔ وکلا حضرات ویسے تو ملک میں آئین کی بالادستی کی بہت باتیں کرتے ہیں لیکن وہ ملک کی آنے والی نسلوں کی خاطر پانی کے لیے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے؟ پانی کسی بھی ملک کا اہم اثاثہ ہوتا ہے۔ بھارت نے دبائو کے تحت پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کیا جس کے تحت چناب اور جہلم پاکستان کو مل تو گئے لیکن بھارت اس کوشش میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح ان کا کنٹرول بھی حاصل کر لے تاکہ پاکستان کو بے دست و پا کر سکے۔ کشمیر اور سیاچن کا نام لینا تو دور کی بات پاکستان اس سے سرکریک کی بات کرنے کے قابل بھی نہ رہا۔ اسی منصوبے کے تحت بھارت نے وُولر بیراج کی طرف اپنے قدم تیز تر کر دیے ہیں۔ دریائے جہلم وادی کشمیر سے نکلنے کے بعد وُولر نامی قدرتی جھیل میں جا گرتا ہے اور سوپور کے مقام پر پھر دریا بن جاتا ہے۔ وُولر جھیل سری نگر سے پچپن کلومیٹر نیچے واقع ہے جہاں بھارت بیراج تعمیر کرنا چاہتا ہے تاکہ اس میں دریائے جہلم کا پانی اور تین لاکھ چھتیس ہزار ایکڑ فٹ مزید پانی جمع کیا جا سکے۔ ہندوستان کا یہ منصوبہ اچانک نہیں بنا‘ اس نے ستّر اور اسّی کی دہائی میں کئی بار پاکستان سے اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان چونکہ1960ء کے سندھ طاس معاہدے کا زخم خوردہ تھا اس لیے بھارت کی اس تجویز کو رد کرتا رہا۔ پاکستان سے نااُمید ہونے کے بعد بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی اور سینہ زوری سے وُولر بیراج کی تعمیر شروع کر دی جس پر پاکستان نے احتجاج کیا جسے بھارت نے کوئی اہمیت نہ دی۔ سندھ طاس معاہدے کی رُو سے پاکستان نے انڈس کمیشن سے رجوع کیا لیکن 1987ء میں کمیشن نے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ یہ جھگڑا ختم کرانے میں وہ اپنی نا کامی کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ عالمی ثالثی ادارے سے رجوع کرے۔ اس کے لیے پاکستان ابھی تیاریوں میں ہی تھا کہ بھارت کو خبر ہو گئی‘ وہ جانتا تھا کہ اس کا مقدمہ کمزور ہے اس لیے اس نے معاملے کو لٹکانے کے لیے آگے بڑھ کر پاکستان کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ پاکستانی حکمرانوں نے ستمبر1987ء میںاس پر رضامندی ظاہر کر دی؛ چنانچہ اکتوبر میں مذاکرات شروع ہو گئے۔ اُس وقت بھارت کا کہنا یہ تھا کہ وہ بیراج کا پانی ا ستعمال نہیں کرے گا بلکہ یہ پانی صرف وہ اپنے مواصلاتی ذرائع کے لیے استعمال میں لائے گا اور پاکستان کو پانی کی کمی نہیں ہو گی۔ پاکستان کا موقف یہ تھا کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت وُولر جھیل کے اوپر کُھدائی کر کے آبی راستہ بنا لے‘ اس کے لیے بیراج ضروری نہیں۔ اگر بھارت نے بیراج تعمیر کر لیا تو دریائے جہلم پر اُس کو مکمل کنٹرول مل جائے گا۔ ہندوستان مختلف حیلے بہانے کرتا رہا۔ کبھی کہا: پاکستان اتنا پانی راجباہوں سے لے لے‘ کبھی یہ پیشکش کی کہ وُولر بیراج کی ریگولیشن پاکستان خود طے کر لے لیکن نومبر1988ء تک پاکستان اپنے موقف پر قائم رہا۔ دیکھا جائے تو وُولر بیراج صرف تین لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا مسئلہ نہیں۔ بھارت کا یہ کہنا صرف بہانہ ہے کہ وہ پانی استعمال نہیں کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے رسل و رسائل میں آسانی کے لیے استعمال میں لائے گا۔ اگر مسئلہ واقعتاً صرف رسل و رسائل کا ہوتا تو وُولر بیراج سے کہیں کم اخراجات کرتے ہوئے وہ سڑکیں بنا سکتا تھا۔ لیکن اس کا مقصد تو پاکستان کی شہ رگ پر اپنا انگوٹھا رکھنا ہے۔ اس لیے وہ پانی کا قطرہ قطرہ پاکستان سے چھیننے پر تُلا ہوا ہے۔ بھارت کی طرف سے دریائے چناب پر سلال سے اوپر بہت سی تعمیرات ہو چکی ہیں اور کئی زیر تعمیر ہیں اور اس پر بہت سے ڈیم بنا بھی لیے گئے ہیں۔ بھارت کی چالاکی اور پاکستان کا ’’بھولپن‘‘ دیکھیں کہ جہلم کا کنٹرول بھارت کے پاس آنے تک وہ اس مسئلے کو مذاکرات کے سرد خانے میں الجھاتا آ رہا ہے۔ اس نے بڑی عیّاری سے کشن گنگا کی تعمیر وُولر بیراج سے اوپر شروع کر دی۔ کشن گنگا‘ جسے پاکستان میں دریائے نیلم کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ دریائے جہلم میں مظفر آباد (آزاد کشمیر) کے پاس آ کر گرتا ہے۔ اس طرح جہلم اور نیلم مل کر منگلا ڈیم کو پانی مہیا کرتے ہیں۔ اب اگر بھارت دریائے نیلم کے پانی کا پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی راستہ تبدیل کر دیتا ہے تو پھر اس سے نیلم وادی بنجر ہو کر رہ جائے گی جس سے آزاد کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا اور ہر وقت اچانک سیلاب کی زد میں رہے گا۔ منگلا کی گنجائش پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے اس لیے اس کی جھیل کی توسیع کا کام جاری ہے‘ اس میں اگر ایک طرف نیلم کے پانی کی کمی ہو گئی اور دوسری طرف جہلم پر وولر بیراج بن گیا تو اس میں صرف وہی پانی آئے گا جسے بھارت چھوڑے گا۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت بے شک نیلم اور وولر کے پانی کے استعمال کا حق ہے لیکن جو پانی دریائے جہلم سے آئے گا اس پر اُسے کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سا انتظام ہو گا جس کے تحت پاکستان بھارت کو جہلم کا پانی استعمال کر نے سے روک سکے گا۔ کیا کوئی عالمی فورم یا کوئی طاقت اسے اس زیادتی سے منع کرے گی؟ پاکستان کو کسی بھی صورت میں کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے جس سے وولر بیراج بن سکے۔ مسئلہ پانی کی مقدار کا نہیں‘ چناب اور جہلم پر کنٹرول کا ہے۔ پاکستان کو اپنی بقا کے لیے بھارت کے اس منصوبے کو ناکام بنانا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں