23 مارچ کو شہر لاہور میں دو جلسے تھے ۔صبح گیارہ بجے مسلم لیگ کے صدر جناب نواز شریف کا تو دوسرا شام کوتحریک انصاف کے عمران خان کا۔ جامعہ نعیمیہ میں میاں نواز شریف کے جلسے میں دینی مدرسوں سے متعلق طلبا ء وطالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ان کے خطاب کے دوران ان کے عقب میں بجلی کا ایک طاقتور بلب اچانک پھٹ جانے سے تھوڑی دیر کے لیے بجلی کی فراہمی میں تعطّل پیدا ہوا تو میاں نواز شریف کے خطاب کا رُخ خود بخود بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی طرف ہو گیا ۔سامعین میں موجود مسلم لیگ لاہور کے ایک اہم لیڈر نے بلند آواز سے کہا کہ شہباز شریف صاحب دو سال میں یہ لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے تو میاں نواز شریف اس دعوے پر حیران رہ گئے ۔مسلم لیگ لاہور کے اس لیڈر کااشارہ شاید پانچ دن قبل پنجاب کے و زیر اعلیٰ شہباز شریف کی ایک تقریر کی طرف تھاجس میں انہوں نے اپنے دونوں بازو بلند کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ لوگوں نے نواز شریف کو ووٹ دے کر کامیاب کرایا تو اگر دو سال میں وہ لوڈشیڈنگ ختم نہ کر سکے تو ان کا نام شہباز شریف نہیں ۔ان کی اس تقریر کی گونج ابھی فضا ہی میں تھی کہ بڑے بھائی نے اس بلند بانگ دعوے کو ہوا میں اُڑا دیا۔ہوا یوں کہ 23 مارچ کو جناب نواز شریف جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو میں مولانا نعیمی مرحوم کی یاد میں ایک تقریب کے مہمان خصوصی تھے ۔انہوں نے جب دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اپنی جماعت کا نعرہ سنا تو اپنی صدارتی تقریر کے دوران یہ کہہ کر حشر اُٹھا دیاکہ ’’ چند دن ہوئے میں نے ایک اخبار میں کسی کی تقریر پڑھی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر دو سال میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو ختم کر دے گا تو یہ بالکل غلط دعویٰ ہے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کے وعدے نہیں کرنے چاہئیں جن کا کوئی سر پیر نہ ہو‘‘۔ انہوں نے شرکا ء سے خطاب میں واضح کیا کہ ’’اگر حقائق کو سامنے رکھیں تو لوڈ شیڈنگ پانچ سال میں بھی ختم نہیں ہو سکتی‘‘۔اب چونکہ یہ معاملہ دو بھائیوں کے درمیان ہے تو اس بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں ۔ اب بات کرتے ہیں 23مارچ کو مینارِ پاکستان میں ہونے والے تحریکِ انصاف کے جلسے کی۔ تین بجے میں سید علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ کے دربارِ عالیہ سے پید ل مینارِ پاکستان جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوا تو میرے ساتھ دو منا ظر بھی محوِ سفر تھے ۔ایک جلسہ گاہ سے واپس آنے والوں کا تو دوسرا جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کا ،جس نے ایک لمحے کے لیے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ شاید جلسہ ختم ہو گیا ہے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مینارِ پاکستان سے داتا دربار چوک کی طرف آرہے تھے جبکہ دوسری طرف بھاٹی سے مینارِ پاکستان کی طرف جانے والی سڑک بھی قافلوں سے اٹی پڑی تھی ۔ساڑھے تین سے پانچ بجے تک میں جلسہ گاہ سے ملحقہ سرکلر روڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل گھومتا رہا اور اگر انتہائی غیر جانبداری سے بات کی جائے تو 30اکتوبر اور 23مارچ کے جلسوں میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ سٹیج سے عوامی جوش کو اُبھارنے اور عوام کو ہمہ وقت اپنی طرف متوجہ رکھنے کے جو انتظامات مارچ میں کیے گئے ،وہ اکتوبر کے جلسے کی نسبت انتہائی کم تھے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ جس قدر لوگ جلسہ گاہ اور اس کے ارد گرد موجود تھے اتنے ہی لوگ جلسہ گاہ سے داتا دربار کی طرف رواں دواں تھے ۔یہ کوئی مبالغہ آمیز رپورٹ نہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو مر حوم کے بہت سے جلسوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ جونہی بھٹو مر حوم جلسہ گاہ پہنچتے تو ان کی آمد کے فوراً بعد پی پی پی کے کسی مرکزی لیڈر کی تقریر نہیں ہوتی تھی بلکہ بھٹو اسٹیج پر پہنچتے ہی چاروں طرف بیٹھے ہوئے عوام کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ،عوام کے فلک شگاف نعروں کی گونج کا جواب دینے کے لیے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھی بنا کر عوام سے یک جہتی کا اظہار کرتے اور پھر چند منٹوں بعد بھٹو صاحب کا پُر جوش خطاب شروع ہو جاتا ۔عمران خان کی جماعت کو بھی اس طریقے پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ اس طرح جلسہ کے سامعین اِدھر اُدھر نہیں ہوتے ۔علاوہ ازیں اس جلسے کے انتظامات بھی تسلّی بخش نہیں تھے۔یہ سائنس اور سیٹلائٹ کا جدید ترین دور ہے جس سے آپ کو ہر دوسرے تیسرے گھنٹے موسم کی کیفیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور تحریکِ انصاف کے ماہرین کی ٹیم یقیناََ اس سے بے خبر نہیں تھی ۔3بجے کے قریب جب تیز بار ش کا پہلا سلسلہ شروع ہوا تو چاہیے یہ تھا کہ جلسہ گاہ میں عمران خان کے بعد کی مرکزی قیادت عوام کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی اوراگر ایسا ممکن نہیں تھا تو پھر عمران خان جلد جلسہ گاہ پہنچنے کی کوشش کرتے ،لیکن ایسا نہیں کیا گیا، جس کا خمیازہ انہیں بعد میں طوفانی بارش کا مقابلہ کرتے ہوئے بھگتنا پڑا۔ 30اکتوبر کو مینارِ پاکستان میں حاضری کے اعتبار سے بڑے جلسہ کے بعدعمران خان کے مخالفین اور ناقدین کی ایک ہی تکرار تھی کہ یہ لوگ ایجنسیوں نے بھیجے ہیں ۔ ایک ماہ تک ٹی وی چینلز اور اخبارات اس جلسے کی کامیابی کا کریڈٹ اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشا کو دیتے رہے۔ اس جلسے کے بعد سیاستدانوں کی بہت بڑی تعداد نے جب تحریکِ انصاف کا رُخ کیا ،تب بھی نواز لیگ کی طرف سے یہی کہا جاتا رہا کہ ان سب کو تحریکِ انصاف کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔بہرحال مارچ کے جلسے نے ثابت کردیا ہے کہ تحریکِ انصاف ملک کے نئے لاکھوں ووٹروں کی غالب اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کرچکی ہے کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے اس جلسہ کے شرکاء کو اپنی آنکھوں سے دیکھاہے ،اچھی طرح جان چکے ہیں کہ نوجوان اب تبدیلی کے ایک نقطے پر متفق ہو چکے ہیں۔ اس جلسہ میں ایک نظارہ دیکھ کر مجھے حضرت قائد اعظم کی یاد آ گئی جب وہ اسی گرائونڈ میں اسی تاریخ کو قرار داد پاکستان پیش کرتے ہوئے انگریزی میں تقریر کر رہے تھے تو دورانِ تقریر لوگ بے تحاشا نعرے بھی لگاتے رہے ۔ وہاں موجود ایک غریب مزدور سے کسی نے پوچھا ’’تمہیں پتہ ہے یہ کیا کہہ رہے ہیں ‘‘مزدور بولا’’مجھے انگریزی کا کیا پتہ لیکن اتنا یقین ہے کہ جو یہ کہہ رہے ہیں بالکل سچ اور درست کہہ رہے ہیں‘‘۔ سرکلر روڈ پر نو جوانوں کا ایک گروپ عمران خان کے منشور\'\'WE WANT CHANGE\'\'کے نعرے لگاتے ہوئے گزر رہا تھا تو ساتھ ہی چلنے والا ایک ان پڑھ دیہاتی بزرگ بھی اُچھل اُچھل کر سمجھ میں نہ آنے والی انگریزی زبان کے یہی نعرے لگا رہا تھا ۔میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں پتہ ہے یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟تواس کا بھی کہنا تھا ’’ یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ انگریزی میں کیا کہہ رہے ہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ عمران خان نے ان سے جو کہا ہے صحیح کہا ہے۔‘‘