وہ کیا آیا کہ سیا ست کے میدان میں بھونچال تو لایا ہی تھا‘ پنجاب کے نوجوانوں کے لیے ڈھیروں خزانے بھی لے آیا۔ ہر طرف یوتھ کی پکار شروع ہو گئی۔ ہر کوئی نوجوانوں کے نخرے اس طرح اٹھانے لگاجیسے بڑھاپے کی اکلوتی اولاد کے۔ اس سے پہلے ہم اسی پاکستان اور پنجاب میں رہتے تھے لیکن ہمیں اضافی اور بے کار مخلوق سمجھتے ہوئے کوئی گھاس ڈالنے تک کو تیار نہ ہوتا تھا۔ حالت یہ تھی کہ 30اکتوبر 2011ء سے پہلے‘ وہ لوگ جو اقتدار میں تھے‘ ہمارے نام تک سے واقف نہ تھے۔ ان کی نظر میں ٹوانے، کھوسے اور ان جیسے بڑے بڑے بت ہی ملک کی انتخابی سیا ست کے ستون تھے۔ وہ سمجھتے تھے مضبوط اقتدار کی عمارت کے لیے یہی ستون کافی ہیں جن کی بنیادوں میں کروڑوں اربوں کا سرمایہ ہے۔ لیکن تیس اکتوبر نے ہماری تقدیر بدل کررکھ دی۔ 20اپریل 2008ء سے جو اقتدار میں تھے وہ ہماری جانب دھیان نہیں دیتے تھے لیکن 30اکتوبر2011ء کا آنا تھا کہ عرصہ دراز سے بند کان کھلنے لگے، اقتدار کے نشے میں نیم وا آنکھیں جو ہمیں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتی تھیں اچانک کھُل گئیں۔ جب انہیں سامنے کا منظر واضح طور پر دکھائی دینے لگا تو پہلے انہوں نے ممی ڈیڈی اور بر گر فیملی کہہ کر ہمارا مذاق اڑیا۔ لیکن پھر ہمارے لیے مدتوں سے بند دروازے کھلنا شروع ہو گئے۔ ہم حیران تھے کہ یہ اچانک انقلاب سا کیسے آ گیا۔ وہ دل جو ہماری بے چارگی پر کبھی نہیں پسیجے تھے اُنہیں ہماری محرومیاں اور مجبوریاں نظر آنے لگیں۔ انہیں یک دم ہم پر پیار آنا شروع ہو گیا۔ پتہ چلا کہ یہ 30اکتوبر کو مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والے عمران خان کے جلسے کی مہربانی ہے۔ رائے ونڈ میں ’’اعلیٰ دماغ‘‘ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ مینار پاکستان اور ملک کے دوسرے میدانوں میں جمع ہونے والے نوجوانوں کو کیسے قابو کیا جائے؟ 30 اکتوبر کے جلسے کی وجہ سے جو دما غ ’’خراب‘‘ ہو رہے ہیں انہیں کیسے ’’سیدھا‘‘ کیا جائے؟ زندہ دلانِ لاہور کو کس طرح پھر اپنی طرف مائل کیا جائے؟ بہترین اور تیز دماغ نے فیصلہ کیا کہ کاہنہ سے مزنگ چونگی تک پانچ ارب روپے کی لاگت سے جو سڑک تین سال میں مکمل ہوئی تھی اسے اکھاڑ کر ریپڈ بس سروس شروع کی جائے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ فیروز پور روڈ کے دونوں جانب دکانیں، مارکیٹیں، پٹرول پمپ اور برسوں پہلے بنے ہوئے گھر گرانے شروع کر دیئے۔ پنجاب کے خزانے سے مبینہ طور پر پچاس ارب روپے سے بھی زائد اس منصوبے میںجھونک دیئے گئے۔ جب یہ کام شروع ہوا تو ایک ’’عالی دماغ‘‘ نے مشورہ دیا کہ لاہوری تو میٹرو بس سے آپ کے مرید بن جائیںگے لیکن پورے پنجاب کے نوجوانوں کو قابو کرنا ہے تو اس کے لیے فرسٹ ائر سے ایم اے تک کے طالب علموں کو موٹر سائیکل اور ماہانہ ایک ہزار روپے کا پٹرول کارڈ جاری کیا جائے‘ لیکن سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ موٹر سائیکلوں کی بجائے نوجوانوں کو ’’لیپ ٹاپ‘‘ دیئے جائیں۔ اس اچھوتے خیال کو سب نے پسند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پنجاب کے خزانے سے نو ارب روپے کے لیپ ٹاپ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ یہ لیپ ٹاپ ہمیں عطا کرنے کے لیے پنجاب کا شاہی خاندان بھاری سکیورٹی کے حصار میں تعلیمی اداروں میں قدم رنجہ فرمانے لگا۔ ابھی لیپ ٹاپ کی تقسیم جاری تھی کہ انہوں نے ہمارے نام سے’’ یوتھ میلہ‘‘ سجانے کا اعلان کر دیا۔ بس پھر کیا تھا‘ ہمارا دل لبھانے کے لیے پانچ ارب روپے پورے پنجاب میں تقسیم کر دیے گئے۔ پھر نہ جانے حکمران کے دل میں کیا خیال آ یا کہ پانچ ارب روپوں کا نگران اپنے ایک خادم خاص کو بنا دیا۔ یوتھ کنونشن اور میلوں کے نام پر یہ خطیر رقم ضائع کردی گئی اور پنجاب کے غریب عوام کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔ ضلع قصور کے صرف ایک سکول کی مثال ملاحظہ کریں جس کے طلبہ کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم تک لانے کے لیے 80 ائر کنڈیشنڈویگنیں اور بسیں بھیجنے کے علا وہ دو ہزار پانی کی بوتلیں اور دو ہزار لنچ باکس مہیا کیے گئے۔ یوتھ میلوں کے بعد اعلیٰ دماغ دانشور ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے گہرے سوچ بچار کے بعد نتیجہ نکالا کہ بچے ایک ہی چیز سے جلد اچاٹ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے کوئی اور لالی پاپ تلاش کی جائے۔ ایک دو عالی دماغوں نے مشورہ دیا کہ لیپ ٹاپ اور یوتھ کنونشن کے بعد نوجوانوں کو قابو کرنے کے لیے مئی 2013ء کو ہونے والے انتخابات تک صوبے کے خزانے سے پانچ ارب روپے تقسیم کیے جائیں۔ یہ تجویز بھی پسند کی گئی۔ چنانچہ ہر ماہ دس ہزار روپے نوجوانوں کی جیبوں میں ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ مشورہ دینے والوں کا کہنا تھا کہ ہر ماہ جب انہیں گھر بیٹھے دس ہزار روپے ملیں گے تو ان کے سارے انقلابی نعرے نئے نوٹوں کے آگے ڈھیر ہو جائیں گے۔ نو جوانوںکو متاثر کرنے اور اس وظیفے کی ادائیگی کے لیے یہ بندو بست کیا گیا کہ آخری قسط الیکشن کی مقررہ تاریخ سے صرف دو دن پہلے دی جائے تاکہ مہر لگاتے وقت وہ کچھ تو خیال کریں۔ تیس اکتوبر کے بعد پنجاب کے نو جوانوں کے سوئے بھاگ جاگ اٹھے۔ ان کے لیے کبھی لیپ ٹاپ، کبھی میلے ٹھیلے اور کبھی ماہانہ وظیفے مقرر ہو گئے لیکن ہمارے اعلیٰ حکام پھر بھی مطمئن نہ ہوئے۔ ایک دن وہ ایک بار پھر غورو خوض کرنے کے لیے بیٹھ گئے کہ ان مچھلیوں کا اور کس طریقے سے شکار کیا جائے۔ فیصلہ ہوا کہ لیپ ٹاپ لینے والے نوجوانوں کو پھر اکٹھا کرکے انہیں’’شرم دلائی‘‘ جائے اور ان کی آنکھوں کو’’ چمک‘‘ سے خیرہ کرنے کے لیے ایک ایک سو لر لیمپ دیا جائے۔ کیا کبھی کوئی سوچے گا کہ میٹرو بس،لیپ ٹاپ، دانش سکولوں ،وظیفوں اور سولر لیمپس پر خرچ کیے جانے والے 100 ارب روپے سے زائد بجلی پید اکرنے کے منصوبوں پر خرچ کیے جاتے تو کتنے پاور پلانٹ لگ سکتے تھے!