"MABC" (space) message & send to 7575

افغانستان کا نیا ظاہر شاہ

2011 ء میں اوکلاہاما کی کیمرون یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں افغانستان میں امریکی جنگ اور خطّے کی علاقائی صورت حال پر کئے گئے سوال پر چیک ہیگل کا کہنا تھا ’’بھارت کو جب بھی موقع ملا اس نے افغانستان کی حدود کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے اندر مداخلت کرنے کی کوشش کی اوراس کی طرف سے یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعدہو گیا۔اب بھی بھارت افغانستان میں بیٹھ کر افغان ایجنسیوں کی مدد سے پاکستان کے اندر مسلح مداخلت کرر ہا ہے اور اگر اس پر قابو نہ پایا گیا توجولائی 2014 ء کے بعدافغانستان سے امریکی، ایساف اور نیٹو فوجوں کے انخلا ء کے بعد افغانستان بھارت اور پاکستان کی کشمکش کا شکار ہو کر رہ جائے گا جو اس خطّے سمیت عالمی امن کیلئے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے‘‘ ہیگل کے یہ الفاظ سامعین تک ہی محدود رہے اور میڈیا تک اس کی خبر نہ پہنچی ،لیکن جب اوبامہ نے دوسری ٹرم کے لیے چک ہیگل کو امریکہ کے24 ویں ڈیفنس سیکرٹری کے عہدے کے لیے نامزد کیا تو امریکہ کے دائیں بازو کے وہ شدت پسند ، جن کاواضح جھکائو بھارت کی طرف ہے ،اس تقریر کو کیمرون یونیورسٹی کی و یب سائٹس کے ذریعے میڈیا اور پبلک کے سامنے لے آئے ۔ لیکن سچائی کیسے چھپ سکتی تھی اور ہیگل جیسا اہم شخص ،جو1996-2009ء تک مسلسل سینٹ کا رکن اور صدر کے انٹیلی جنس بورڈ کا شریک چیئرمین تھا،افغانستان میں بیٹھے ہوئے بھارتیوں کی پاکستان کے خلاف کی جانے والی سرگرمیوں سے کیسے بے خبر ہو سکتا تھا ۔ چارلس ٹموتھی چک ہیگل کے سیکرٹری ڈیفنس بننے کی خبر سامنے آئی تو بھارت نے ریپبلکنز کو استعمال کرتے ہوئے اپنے گروپ کے ذریعے اس بیان پر سخت لے دے شروع کر دی لیکن اس کے با وجود سینٹ کی آرمڈ کمیٹی نے ہیگل کی تقرری کو 14-11 ووٹوں کی برتری سے منظور کر لیا۔ بھارت اپنی اس شکست پر تلملا کر رہ گیا اور جونہی ہیگل کے پہلے دورۂ افغانستان کا اعلان ہوا تو اس نے اپنے ’’افغان روبوٹ‘‘ کو حکم دیا کہ وہ اس کی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کر دے اور افغان روبوٹ نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرنے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ لگائی۔لیکن بھارتی شاید بھول گئے ہیں کہ پاکستان میں بھارتی مداخلت کی بات ہیگل نے ہی نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی اور نیٹوا فواج کے کمانڈر جنرل سٹینلے میک کرسٹل بھی ستمبر2009 ء میں امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو بھیجی جانے والی ایک رپورٹ میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ’’ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو مضبوط اور اس کی پاک افغان سرحدوں پر کی جانے والی مشکوک اور قابلِ اعتراض سرگرمیوں سے صرف نظر کرنامستقبل کے علاقائی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو گا اور اگر اس وقت بھارت کو روکا نہ گیا تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ رد عمل کے طور پر افغانستان اور بھارت کے اندر بھی امن نہیں ہو سکے گا۔ افغانستان میں دن بدن بھارت کا سیا سی اور معاشی اثر و رسوخ اسلام آباد کو یہ کہنے پر مجبور کر رہا ہے کہ امریکی سرپرستی میں قائم ہونے والی موجودہ افغان حکومت بھارت کی طفیلی بنتی جا رہی ہیــ‘‘۔ امریکیوں سے بہتر بھارتی ریکارڈ بارے اور کون جان سکتا ہے کہ نجیب اﷲ کی کمیونسٹ حکومت کو سب سے زیا دہ سہارا بھارتیوں نے ہی دیا تھا لیکن کیا وہ سہا را نجیب کے کسی کام آ سکا؟۔ افغانستان اور پاکستان کی سرحدکے دونوں طرف کے عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت کے آپس میں سماجی اور معاشرتی تعلقات ہیں ،چنانچہ پاکستان کا یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ افغانستان سے قریبی تعلقات کے فروغ کے لیے کام کرے افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ اور ان کے اندر ہونے والی کسی بھی صورت حال کا براہ راست اثرپاکستان پر ہونا لازمی ہے ۔اس لیے پاکستان اگر افغانستان کے معاملات میں حسّاس ہے تو یہ اس کا بین الاقوامی طور پر قانونی حق ہے جبکہ بھارت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،سوائے اس کے کہ وہ پاکستان کی مغربی سر حدوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرے۔ کیا بھارت یہ برداشت کرے گا کہ پاکستان نیپال میں ایساہی اثرورسوخ پیدا کرے جیسا بھارت نے افغانستان میں کیا ہے ۔ امریکہ کو دیر بعد ہی سہی لیکن یہ احساس ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’بھارت کا افغانستان‘‘ اس خطّے میں ہی نہیں بلکہ اردگرد کے ممالک اور عالمی امن کیلئے بھی سود مند نہیں ہو گاکیونکہ اس کا خمیازہ وہ روس کی شکست کے بعد نجیب اﷲ کی بھارتی سر پرستی کی صورت میں پہلے ہی بھگت چکا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ کے چہرے پر لگے ہوئے زخم رہتی دنیا تک ثبت رہیں گے۔ اوبامہ کے اوّلین دور کی انتظامیہ چین کے گھیرائو میں دلچسپی رکھنے کی وجہ سے بھارت کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی تھی اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ امریکہ کی آئی ٹی صنعت میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بھارتی نوجوانوں کاا مریکہ جانا اور اتنی ہی تعداد امریکی شہریوں کا روزگار کے لیے بھارت آنا تھا لیکن اب صورت حال میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔شاید اب امریکی بھی’’Indo-Pacific ‘‘ریجن کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا پسند نہیں کر رہے ۔ فروری کے آخری ہفتہ میں چینی حکومت کے تحت شائع ہونے والے ’’ چائنا ڈیلی‘‘ کے یہ الفاظ کچھ اور پیغام دے رہے ہیں ’’ امریکی پالیسیوں سے چین اور امریکہ کے تعلقات میں کچھ فرکشن تو پیدا ہو سکتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکی ہم سے اپنی اقتصادی ضروریات کی وجہ سے تعاون کے خواہش مند ہیں کیونکہ چین کی وسیع مارکیٹ امریکی مصنوعات کیلئے بہت ہی سود مند ثابت ہو سکتی ہے ۔اگر چین میں امریکی بر آمدات کی کھپت میں ہر سال بارہ فیصداضافہ ہونے لگے تو اس کے نتیجے میں امریکہ میں کم از کم1,43000 نئے لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع میسر ہو ں گے۔ ہیلری اور رابرٹ گیٹس کی جگہ ہیگل ، جان کیری کی صورت میں نئے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کی تعیناتیاں اوبامہ کی ان پالیسیوں کو واضح کرتی ہیں کہ پہلی ترجیح اب چین ہے ،نہ کہ بھارت ،اور اس کو اچانک لگنے والا یہ زخم ،ڈر ہے ،کہ کہیں اسے بائولا نہ کر دے اور اگلے سال2014ء میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی روانگی سے پہلے یا بعد میں وہ کوئی ایسی خطرناک صورت حال پیدا نہ کر دے جو جنوبی ایشا کے امن کو بھاپ کی طرح اڑا دے ۔بھارت میں نئے ہونے والے انتخابات اور مسلم دشمنی میں بائولا ہو جانے والے بھارتی جنتا پارٹی کے گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی کی شکل میں نئی بھارتی قیادت کے عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو ابھی سے اپنی دفاعی ، معاشی اور سفارتی خامیوں پر قابو پانا ہو گا کیونکہ ہیگل اور جان کیری کے ذمہ داریاں سنبھالنے کے فوری بعدمقبوضہ کشمیر میں نظر آنے والی ’’ پر تشدد سرگرمیاں‘‘ ما حول کو سازگار بنانے کے لیے ممد بھی ہو سکتی ہیں ۔اپنی تعیناتی کے فوری بعد افغانستان کے پہلے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل اور حامد کرزئی کی مشترکہ پریس کانفرنس شروع ہونے سے چند منٹ قبل کرزئی کی طرف سے پریس کانفرنس میں شرکت سے انکار کے بعد اب شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ گئی کہ افغانستان اس وقت بھارت کی ایک کالونی بن چکاہے اور اس کی حیثیت بھارت کی نظر میں اب وہی ہے جو نیپال،مالدیپ، برما اور بھوٹان کی ہے۔ کرسٹینا لیمب کی کتاب\'\'The Sewing Circles Of Heart\'\' میں دیے گئے اپنے انٹر ویو میں کرزئی کے کہے ہوئے یہ الفاظ کہ’’روسیوں نے ہو سکتا ہے کہ ہمارا علاقہ تباہ کیا ہو مگر پاکستانیوں نے ہمارا کلچر تباہ کر دیا ہے‘‘ پاکستان کے خلاف اس کے جاری رویوں کی عکاسی کر رہا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں