ایک شخص کے پاس کبھی اقتدار کے لا محدود وسائل نہیں رہے لیکن اس کے با وجود وہ اپنے پاس موجود آدھے سے زیا دہ حصہ اﷲ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے۔ آپ ایسے شخص کا مقابلہ ان لوگوں سے کرنا منا سب سمجھیں گے جن کے پاس کئی کھرب کے حکومتی اور ذاتی وسائل ہوں اور جو کئی بار ملک کے حکمران رہے ہوں؟ ملک و قوم کے درد کا موازنہ کرتے ہوئے کیا آپ جنگ ستمبر میں دفاعی فنڈ میں چندہ دینے والی ضعیف بیوہ بڑھیا‘ جو اپنی خاندانی بالیاں اور گھر کے ٹوٹے پھوٹے تمام برتن قوم کی نذر کر دیتی ہے ،کے مقابلے میں ایک ایسے شخص جس نے کروڑوں روپے کا مالک ہونے کے با وجود صرف چند ہزار روپے ٹیکس دیا ہو‘ کو ترجیح دیں گے؟ یقینا نہیں۔ ملک میں انتخابات کا طوفان شروع ہے اور ہر ٹیلیویژن چینل پر مختلف سیا سی جماعتوں کے انتخابی اشتہارات میں ان کی طرف سے بنائی گئی نئی سڑکوں اورنئی بسوں کے مناظر دکھائے جاتے ہیں‘ کہیں موٹر وے کی بات کی جا رہی ہے تو کہیں ایٹم بم کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ایٹم بم والے کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیں‘ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان خدمات کے عوض کیا آپ نے تیس سالہ اقتدار و اختیار کے مزے نہیں لوٹے؟ جب آپ اس ملک کے ہر سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ اگر لاہور یا راولپنڈی کے پلوں اور سڑکوں کی بات کرنی ہے تو پھر اسلام آباد میں ایک نہیں‘ ایک درجن سے زائد انڈر پاسز ، پُل اور کشادہ اور خوبصورت سڑکیں تو جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنے دور میں بنائی ہیں جو سب کو دن کی روشنی میں اور رات کے اندھیروں میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ ایک لمحے کیلئے الزامات کی سیاست ایک طرف رکھ دیتے ہیں کیونکہ کئی منصوبوں کے بارے میں مخالفین اور ناقدین بہت سی کہانیاں سناتے ہیں۔ یہاں کسی کی لوٹ مار کی بات کرنا مناسب نہیں لیکن کیا ایک پٹواری ،ایس ایچ او ، کمشنر ، ڈی پی او یا چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تیس سالہ حاکمیت اور اقتدار کا موزانہ کسی عام شہری سے کیا جا سکتاہے؟ اس ملک کے عوام کے قرضوں اور ٹیکسوں سے حاصل کر کے مختلف منصوبوں پر ایک کھرب سے زائد روپے خرچ کر کے ووٹ مانگنا یا اقبال کے لاہوتی طائروں کی پرواز کو لالی پاپ انعامات سے روکنا کسی طور بھی مناسب ہے؟ اگر آپ کسی ملک کے بار بار حکمران رہے ہیں اور آپ کی اور آپ کے خاندان کے ایک ایک فرد کی حفاظت کے لیے انتہائی قیمتی پچپن گاڑیاں آپ کے گھر کے باہر کھڑی ہوں اور ان کا پانچ سال کا پٹرول کا خرچ سامنے رکھیں تو یہ دو ارب روپے سے زائد کی صرف سکیورٹی مراعات بھی تو عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے وسائل نے ہی عطا کی ہیں؟ آپ نے اس ملک پر پچیس سال حکومت کی تو کیا کسی ایسے شخص کو آپ اپنے سے کمتر درجہ دے سکتے ہیں جس نے ملکی وسائل سے ایک پائی کا بھی فائدہ نہ اٹھایا ہو‘ بلکہ اس کی بجائے محنت‘ ایمانداری اور اعتبار سے حاصل ہونے والے وسائل سے غریب عوام کی خدمت کی ہو؟ آپ عوام کے پیسے سے‘ صوبے کے وسائل سے سکیمیں بناتے ہیں، سڑکیں بناتے ہیں اور اس بنیاد پر دعوے کرتے ہیں کہ اس کارکردگی کی بنیاد پر ہمیں ووٹ دیا جائے تو وہ شخص ووٹ کا حقدار کیوں نہیں جس نے اپنے بھروسے سے‘ اپنے نام سے‘ وسائل اکٹھے کر کے مظفر گڑھ کے سیلاب متاثرین کیلئے بہتر گھر بنوا کر غریبوں میں تقسیم کیے؟ آپ میں سے کسی نے کبھی بادشاہ کا رعب و دبدبہ دیکھا ہے؟ اس کو حاصل بے پناہ اختیارات کی ایک جھلک دیکھی ہے ؟ ظاہر ہے عوام نے ان پانچ سالوں میں شاہی سواریاں گزرتی ضرور دیکھی ہوں گی تو پھرموازنہ کریں کہ پچیس سال کے اقتدار و اختیارکی شان کیا ہے؟ اس ملک کے ایک سپاہی سے لے کر آئی جی پولیس تک‘ پٹواری سے چیف سیکرٹری تک سب آپ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ پولیس کے ایس پی اور ڈی آئی جی اپنی تقرری کیلئے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا ایسے شخص کا مقابلہ اس شخص سے کیا جا سکتا ہے جس نے ان کے پائوں میں بیٹھنے والے پولیس ا فسران کے ڈنڈے کھائے ہوں؟۔ آج کل ہرٹی وی سکرین پر لوگوں کی رائے سے مزیّن اشتہارات دکھاتے ہوئے اور ووٹ مانگتے ہوئے ایک ہی بات کی جا رہی ہے کہ اس نے پل بنائے ہیں‘ اس نے سڑکیں بنائی ہیں‘ کیا کسی نے ان سے یہ بھی پوچھا ہے کہ ان کاموں کے بدلے ا نہوں نے اس ملک سے کیا وصول کیا ہے؟۔ دورِ اقتدار میں سرکاری خرچے سے عوامی منصوبوںکے نام پر آپ ووٹ مانگ رہے ہیں تو پھر ووٹ اس کو کیوں نہ دیا جائے جس نے سرکاری دولت سے نہیں بلکہ اپنی محنت سے‘ اپنی ساکھ سے‘ اپنے اعتبار کی دولت سے ایک بہترین اور عظیم الشان یونیورسٹی بنائی؟۔آپ کہتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو کہ ہم نے ایٹم بم کے دھماکے کیے لیکن ہری پور سے آپ ہی کی جماعت کے قومی اسمبلی کے امیدوار‘ جو آپ کا وزیر خارجہ تھا‘ کا کہنا ہے کہ ’’آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ تو فوج تھی جس نے زبردستی دھماکے کرائے؟‘‘ آج ہر طرف ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ ووٹ کا حقدار کون ہے؟ اگر ان لوگوں کو یہ کہا جائے کہ تیس سال تک آزمائے ہوئے لوگوں کو اس بار آرام کا موقع دیا جائے تو بہت سے لوگوں کی بھنویں تن جاتی ہیں لیکن جب انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے ارد گرد امیدواروں کے ہجوم کو ذرا غور سے دیکھو،یہ وہی لوگ ہیں جن کے آبائو اجداد آزادی سے پہلے اور بعد ہم سے ووٹ مانگتے آ رہے ہیں اور ہم اور ہمارے آبائو اجداد ان کے ناموں پر مہریں لگاتے رہے ہیں اور یہ وہی ہمارے نمائندے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے‘ خود دنیا بھر میں عیش و عشرت کرتے پھر رہے ہیں اور غریب عوام کو روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کیلئے ترسنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ’’اے طائرِ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی… جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘۔ حضرت اقبالؒ کا یہ شعر بار بار سنایا جا رہا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اقبال کے اس طائرِ لاہوتی کو ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف اور امریکی قرضوں کے جال میں کس نے پھنسایا ہے ؟ تیس سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے یا اقتدار سے باہر بیٹھ کر اس ملک کی حالتِ زار پر آنسو بہانے والوں نے؟