بلوچستان میں مصروف عمل علیحدگی پسندوں کے مرکزی لیڈر ہربیار مری اور زرمن مری ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ ان کے باہمی اختلافات کی خبریں گردش توبہت دیر سے گردش کر رہی تھیں لیکن ان کی با قاعدہ تصدیق اس لیے مشکل تھی کہ آزاد میڈیا کی متعلقہ حلقوں تک رسائی نہ تھی اور وہ چند لوگ جو اُن سے رابطوں میں ہونے کی وجہ سے کچھ با خبر تھے‘ وہ بھی ان کی مرضی اور اجازت کے بغیر ایک لفظ لکھ اور بول نہیں سکتے تھے۔ لیکن بات زیا دہ دیر تک اس لیے پوشیدہ نہ رہ سکی کہ امریکہ‘ برطانیہ اور دوبئی میں ان لیڈروں کے آپس میں اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔ لندن سے جب ایک با وثوق ذریعہ نے ان خبروں کی تصدیق کر دی تو پھر اس پر بیرونی میڈیا کے با خبر حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوئیں۔ قیاس آرائیاں اس وقت اور بڑھ گئیںجب کاہان اور اس کے ارد گرد کے پہاڑوں سے اچانک نا معلوم افراد کی لاشیں ملنے لگیں جہاں سکیورٹی فورسز کا کوئی کنٹرول نہیںتھا۔ اس پر دبی دبی آوازوں نے بتانا شروع کر دیا کہ بلوچ علیحدگی پسندوں میں آپس میں شدید اختلافات پیدا ہو نا شروع ہوگئے ہیں جس کے بہت سے اسباب میں سے ایک مبینہ طور پر ساٹھ ملین روپے کی خرد برد بھی ہے۔ ان کی اندرونی چپقلش اس وقت کھل کر سامنے آ گئی جب قندھار کے قریب کرزئی حکومت کی طرف سے ان کو مہیا کیے گئے ایک محفوظ ٹھکانے میں دونوں متحارب گروپوں کے درمیان ہونے والے مسلح تصادم میں چار افراد مارے گئے۔ یہ ایسا واقعہ تھا جو زیا دہ دیر تک دبایا نہیں جا سکتا تھا کیونکہ قندھار میں مارے جانے والوں کے ساتھیوں نے بلوچستان میں بھی ایک دوسرے کے خلاف مورچے سنبھال لیے تھے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بے تحاشا بیرونی سرمائے کی یک طرفہ تقسیم سے ان علیحدگی پسند مسلح گروپوں میں مزید انتشار پھیلے گا ،با لکل اسی طرح‘ جس طرح افغانستان میں روسی فوجی قبضے کے وقت افغان مسلح تنظیموں کے درمیان اسلحے اور ڈالروں کی تقسیم کے علا وہ مختلف علا قوں کا کنٹرول حاصل کرنے پر لڑائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ان متحارب گروپوں کے آپس میں شدید اختلافات کا بلوچستان میں جاری مسلح دہشت گردی پر اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں جن سے ان کی سرپرست بیرونی طاقتیں پریشانی کا شکار ہو چکی ہیں۔بھارتی اور افغان ایجنسیوں کے علا وہ ایک بڑی طاقت نے دونوں بھائیوں کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے آپس کے اختلافات کو دور کرنے پر رضا مند کرنے کی بھر پور کوششیں کیں لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی‘ بلکہ اسی دوران قندھار کے نواح والا واقعہ پیش آ گیا۔ آج سے کوئی تین ماہ قبل تک زرمن مری بین الاقوامی میڈیا پر بلوچستان کے بارے میں بریفنگ اور ہر کامیاب آپریشن کے بارے اطلاع دینے کا واحد ذریعہ تھا۔ بلوچستان میں متحارب گروپوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے علا وہ بلوچستان میں بسنے والے پنجابی، مہاجراور پختونوں کے خلاف کی جانے والی مسلح کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی اطلاعات انہی کی طرف سے میڈیا کو مہیا کی جاتی تھیں اور دنیا بھر کا میڈیا اور پاکستان کے خلاف مختلف ناموں سے اپنے اپنے ایجنڈوں پر کام کرنے والی درجنوں غیر ملکی این جی اوز اور دوسرے تھنک ٹینکس اور ہیومن رائٹس نام کے ادارے زرمن مری سے ہی رابطہ کرتے تھے جس سے ہر بیار مری کا نام پس منظر میں جانا شروع ہو گیا۔ جن لوگوں کا ہربیار مری سے ذرا سا بھی تعلق رہا ہے وہ اس کی خود پسندی، شہرت اور بلا شرکتِ غیرے اقتدار کی خواہش سے اچھی طرف واقف تھے۔ یہ سب اندازے اس وقت درست ثابت ہو گئے جب ہربیار نے بلوچ لبریشن آرمی کی کمان ، بیرونی رابطوں اور تمام سرمائے سمیت میڈیاپر رابطے کے فرائض بھی زرمن مری کی بجائے اپنے کنٹرول میں لے لیے۔ زرمن مری سے جس طریقے سے یہ اختیارات واپس لیے گئے اس پر مری قبیلے میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔ فوری نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں سے وابستہ نوجوان اور طالب علم گروپ بھی تقسیم ہو گئے۔ زرمن مری نے جب محسوس کیا کہ اس کا مخالف گڑ بڑ کرنے والا ہے تو اس نے سب سے پہلے اپنے آدمیوں کے ذریعے بیرونی طاقتوں کی طرف سے مہیا کیے جانے والے ’’ کاہان کے علا قے‘‘ میں اسلحہ اور گولہ بارودکے سب سے بڑے ذخیرے کا کنٹرول اپنے خاص آدمیوں کے حوالے کر دیا جس سے مخالف گروپ کو سخت تشویش ہوئی۔ ہربیار نے کاہان کے اس علاقے کو اپنے قبضہ میں لینے کی سر توڑ کوششیں کیںجن سے دونوں طرف بھاری جانی نقصان ہونے کے با وجود ہربیار کاہان کے اسلحہ ڈپو کا کنٹرول واپس لینے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بلوچستان کی ہر دم بدلتی ہوئی سیا ست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپنی خود پسندی اور آمرانہ طرز عمل کی وجہ سے ہربیار مری کو مستقبل کی سیاست میں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ وہ اپنے بھائی اور والد سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرنے کی بجائے غیر ملکی انسٹرکٹرز اور ان کے فوجی دستوں پر بھروسہ کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہربیار اپنے قبیلے اور اس کے ہمدرد دوسرے چھوٹے بلوچ قبائل کی ہمدردیوں سے آہستہ آہستہ محروم ہوتا جا رہا ہے‘ جس کا بلوچستان کی مستبل کی سیا ست پر گہرا اثر ہو سکتا ہے…!