"MABC" (space) message & send to 7575

گواہی

سولہ فٹ کی بلندی سے نیچے گرنے کے بعد لہو لہان چہرے کے ساتھ جب وہ دنیا جہاں سے بے خبر انجانے ہاتھوں میں گھسٹتا ہوا بے ہوشی کی حالت میں تھا تو اس وقت اس کی زبان صرف ایک ہی گواہی دے رہی تھی’’ اﷲ کے سوا کوئی عبا دت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں‘‘۔ دنیا بھر کے ماہر ترین ڈاکٹروں اور اینستھیزیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہم آپریشن کے لیے مریض کو بے ہوش کرتے ہیں تو اس وقت اسے کچھ یاد نہیں رہتا سوائے اس کے تحت الشعور میں چھپی ہوئی باتوں کے۔ آپریشن کے دوران اور اس کے بعد بے ہوشی کی حالت میں مریض وہی باتیں کرتا ہے جو اسے بہت پسند ہوتی ہیں۔ وہ انہی کو یاد کرتا ہے جو ذہن میں گونج رہی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔پھر کیا وجہ ہے کہ سولہ فٹ کی بلندی سے گرکر بری طرح زخمی ہونے والے عمران خان کو بے ہوشی کی حالت میں دیار غیر میں بیٹھے ہوئے اپنے پھول سے بچے’’ قاسم اور سلمان‘‘ یاد نہیں آئے‘ اسے اپنا گھر یاد نہیں آیا‘ اسے اپنی کوئی قیمتی شے یاد نہیں آئی‘ اگر اسے کوئی یاد آیا تو صرف اور صرف اﷲ کی وحدانیت کا اقرار یاد آیا۔ جب زخموں سے چُور عمران خان بے ہوش تھا‘ خون تھا کہ اس کے جسم سے مسلسل بہے جا رہا تھا‘ اس وقت ایک نہیں سینکڑوں لوگوں نے دیکھا اور سنا کہ دنیا جہاں سے بے خبر‘ جاں بلب‘ زخمی اور بے ہوشی کی حالت میں عمران خان کی زبان پرسوائے کلمہ طیبہ سوا اور کوئی الفاظ نہیں تھے۔ اسے یاد رہا تو صرف اپنا پروردگار یادرہا‘ اسے یاد رہا تو صرف رحمت العالمین سرکار دو جہاں محمد مصطفیٰﷺ کی نبوت کا اقرار یاد رہا۔ گلبرگ کے ہسپتال کا عملہ حیران رہ گیا کہ دنیا جہان سے بے خبر اس شخص کی زبان سے تو حید کے اقرار کے سوا کوئی دوسرا لفظ نکل ہی نہیں رہا۔ غالب مارکیٹ گلبرگ میں سولہ فٹ کی بلندی سے گرنے سے چند گھنٹے پہلے تک اس کے تمام سیا سی مخالفین اسے یہودی کے لفظ سے پکار رہے تھے۔مولویوں کا ایک گروہ اسے یہودی اور قادیانی بنانے پر تلا ہوا تھا۔ اس کے خلاف جاری کردہ کفر کے فتووں کے انبار شائع کرائے جا رہے تھے۔ لاہور، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں عمران خان کے خلاف گھر گھر میں تنخواہ دار خواتین کے گروپ اسے یہودی اور قادیانی ثابت کرنے کے لیے بھیجے جا رہے تھے۔ جلسوں میں اسے اسلام دشمن ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کے پہاڑ کھڑے کیے جا رہے تھے‘ لیکن یہ کیا ہوا کہ گلبرگ کے پرائیویٹ ہسپتال لے جاتے ہوئے عمران خان کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ وہاں سے شوکت خانم ہسپتال تک اس کی زبان سے مسلسل کلمہ پاک کا ورد ہوتا رہا اور کلمہ طیبہ کے دل موہنے والے الفاظ اس کے پکے مسلمان اور عاشق رسولؐ ہونے کی گواہی دینے کے لیے اس کی زبان سے نکلتے اور لاہور کی فضائوں میں گونجتے رہے اور وہ بھی بے خبر بے ہوشی کی حالت میں۔ یہ پاک ورد اس کی زبان سے نکل کر پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیل گیا۔اﷲ نے اس کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو دروغ گو ثابت کرنے کے لیے جو طریقہ چنا یہ اسی کا کام ہے۔سبحان اللہ! انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک میں عمران خان کی مقبولیت بڑھنے لگی تو اس کے مخالفین کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ عوام کے اس سیلاب کو کس طرح روکیں‘ اس کے آگے کس طرح بند باندھیں؟ پھر وہی پرانا طریقہ استعمال کیا گیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف استعمال کرتے ہوئے اسے کافر قرار دے کر کیا گیا۔ لیکن جس طرح اس وقت تقدیر ان کی تدبیروں کے خلاف ہنس رہی تھی اسی طرح آج پھر کاتب تقدیر ان کے کفر کے فتووں پر ہنس رہا تھا ۔عمران کا جرم بھی وہی تھا جو بھٹو نے کیا تھا۔ اس نے بھی غریب عوام کو بیدار کرنے کا جرم کیا تھا۔ عمران خان کو بھی غریب عوام، کچلے ہوئے اور زیا دتیوں کے کوڑے کھانے والے بے کسوں اور بے بسوں کے حق میں آواز اٹھانے پر قابل گردن زدنی قرار دیا گیا۔ تمام استحصالی طاقتیں اس کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آ گئیں اور اس کے خلاف کفر کے فتووں کی دیواریں کھڑی کرنی شروع کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ اس کے با وجود کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے واضح ہدایات موجود ہیں کہ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا جائز تصور نہیں ہوگا اور کسی مسلمان کو کافر کہنا الیکشن قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔لیکن ان ہدایات کے باوجود اس پر کفر کے فتوے جا ری کئے جاتے رہے۔ افسوس‘ الیکشن کمیشن کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ کیا اس سے الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی غیر جانبداری پر حرف نہیں آئے گا؟ نگران وزیرداخلہ اور پنجاب حکومت کی طرف سے عمران خان کے مدمقابل جماعت کے رہنمائوں کو غیر معمولی سکیورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ سوال ہے جو نگران حکومتوں کی کار کردگی اور ان کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھا رہا ہے۔ ایک طرف ملک کے مقبول ترین رہنما کی سکیورٹی پر سپیشل برانچ کے صرف چار پولیس اہل کار رو دوسری طرف ایک ایک فرد کی سکیورٹی پر پچاس پچاس افراد، دس دس پولیس کی گاڑیاں، جیمر اور دو دو ایمبولینس دی جا رہی ہیں۔ عمران خان گرا تو اُس کے لیے ایک بھی ایمبو لینس نہیں تھی۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ اپنی پولیس کا قبلہ درست کریں۔ ایک اطلاع کے مطابق لاہور کے مختلف حلقوں میں دنگا فساد اور کوئی گھنائونا کھیل کھیلنے کے لیے پنجاب کے کئی علاقوں سے اشتہاریوں اور غنڈہ عنا صر کے کئی گروہ بلائے جا رہے ہیں۔ گوجرانوالہ پولیس نے دو دن پہلے عمران خان کے جلسہ گاہ کی طرف جانے والے راستوں کو دور دور سے جس طرح بند کیا اور لوگوں کو اس میں شرکت سے روکا اس کے بعد گوجرانوالہ پولیس کی کار کرد گی اور اس کا ایک سیا سی جماعت کی طرف جھکائو سب کو نظر آ رہا ہے۔لاہور کے ایک حلقے کے ریٹرننگ افسر سے ایک سیا سی جماعت کے امیدوار کی تنہائی میں ایک گھنٹے کی ملاقات بہت سی کہانیوں کو جنم دے رہی ہے۔ کراچی میں تو فوج پولنگ اسٹیشن کے اندر اور لاہور میں دور دور کیوں تعینات کی جائے گی؟ کسی بہت بڑے حادثے سے بچنے کے لیے فوج کو لاہور کے پولنگ اسٹیشنوں سے دور نہیں بلکہ قریب ترین رکھناہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں