"MABC" (space) message & send to 7575

26/11کے ممبئی حملے اور تحقیقاتی کمیشن

26/11کے ممبئی حملوںکو پانچ سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن اب پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے اس پرکمیشن بنانے کی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ ممبئی حملوں کے بارے میں استغاثہ کی 11,280صفحات کی چارج شیٹ‘ 25 فروری 2009ء کو ممبئی کرائمز برانچ نے عدالت میں پیش کی‘ اس میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ اس کا مرکزی کردار اجمل قصاب مراٹھی زبان بھی فر فر بول سکتا ہے ۔ اجمل قصاب سمیت ان حملہ آوروں نے‘ شیوا جی ٹرمینل میں موجود مسافروں میں سب سے پہلے سر پر سفید ٹوپی رکھے داڑھی والوں اور برقعہ پہنے عورتوں اور ان کے گود میں اٹھائے بچوں پر گولیوں کی بوچھا ڑ کی۔آخر کیوں؟ شیوا جی اسٹیشن پر موجود چشم دید گواہوں کے پولیس کو دیے گئے بیانات نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ حملہ آور مراٹھی میں باتیںکر رہے تھے۔ CAMA HOSPITAL میں پورے بھارت میں بم دھماکوں کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے اعلیٰ ترین ارکان ہیمنت کرکرے ، سالسکراور اشوک کامتے کو قتل کیوں کیا گیا؟۔ بقول بھارت اگر یہ سب کچھ لشکر طیبہ نے کیا تھا تو پھر شیواجی ریلوے ٹرمینس میں56 لوگوں‘ جن میں22 مسلمان مرد اور برقعہ پوش عورتیں بھی تھیں‘ کو قتل کرنے والے کون لوگ تھے ؟۔اسی طرح کے بہت سے سوالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پس پردہ حملہ آور لوگ کوئی اور ہیں جو ممبئی کے راستوں اور مراٹھی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ 1:۔ جج مدن تہلیانی نے 1522 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلہ میں اجمل قصاب کی شیوا جی ٹر مینس پر26/11 کی تصویر بنانے والے ممبئی مرر کے فوٹو گرافرSebastian D\'Souza کی بے انتہا تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ڈی سوزا کی بنائی ہوئی اس تصویر کی مدد سے بھارت کو مجرم تک پہنچنے میں آسانی ہوئی۔۔ ممبئی مرر کے فوٹو گرافر ڈی سوزا کی اجمل قصاب کی اتاری گئی یہ تصویر ہی اگر استغاثہ کی جان ہے تو سب سے پہلے موقعہ واردات پر اس تصویر کے اصلی یا نقلی ہونے کی بات کر لی جائے کیونکہ اجمل قصاب کی یہی وہ تصویر ہے جو26/11 کی رات اور اگلے دن دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائی رہی ۔ (الف)شیوا جی اسٹیشن پر تعینات فوڈ سٹاف مینجر ششی کمار سنگھ نے پولیس کو چشم دید گواہ کے طور پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ مسلح حملہ آور جب شیوا جی اسٹیشن پہنچے تو وہ زور زور سے چلاّ رہے تھے لیکن ان کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی ،کیونکہ انہوں نے اپنے چہروں پر سیاہ رنگ کے نقاب چڑھائے ہوئے تھے (ب) دی ٹائمز آف انڈیا پونا نے اپنی 29 نومبر کی اشاعت میں صفحہ5 پر اجمل قصاب کی ایک تصویر شائع کی تھی جو تیس سے چالیس فٹ کے فاصلے سے اتاری ہوئی تھی۔ اس تصویر کو پورے بھارت کے اخبارات نےkill کر دیا اور آج تک کسی ایک اخبار نے اس تصویر کی ملکیت کا دعویٰ نہیں کیا‘ شاید اس لیے کہ اس تصویر کو دیکھنے کے بعد لوگ سوچنے لگے تھے کہ دہشت گردوں نے اتنے قریب سے تصویر اُتارنے والے کو زندہ کیسے جانے دیا؟۔ اب اگر ایک لمحے کے لیے ممبئی مرر کے ڈی سوزا کی تصویر بارے استغاثہ کی کہانی کو سچ مان لیا جائے تو اس سوال کا جواب کون دے گا کہ مراٹھی اخبار مہاراشٹر ٹائمز نے ممبئی حملہ کی اگلی صبح27 نومبر کے اخبار میں لکھا تھا کہ یہ تصویر ہمارے فوٹو گرافر سری رام ورنیکا نے اُتاری ہے لیکن یہی تصویر 27 نومبر کو ہی دوسرے مراٹھی اخبار لکمت ممبئی‘ جو مہاراشٹر ٹائمز کا زبردست حریف اخبار ہے‘ میں کیسے شائع ہو گئی؟۔(ج) عدالت اور ممبئی کرائمز برانچ کی ڈی سوزا کی کھینچی ہوئی تصویر کو ہی مکمل گواہی مانتے ہوئے اجمل قصاب کو سزائے موت دی جاتی ہے لیکن جج مدن تہلیانی کی عدالت یا بھارتی حکومت دنیا بھر کی رائے عامہ کو کیسے مطمئن کرے گی کہ شیواجی اسٹیشن پر نصبCCTV16 کیمرے خراب ہونے سے ان دوحملہ آوروں اجمل قصاب اور ابو اسماعیل ،کی FOOTAGES تو مان لیا کہ حاصل نہ ہو سکیں لیکن باقی8 حملہ آور‘ جو تاج محل، اوبرائے، ٹاور اور نریمان میں تین دن تک قتل و غارت کرتے رہے‘ ان کی تصاویر کہاں ہیں؟۔ جبکہ ان جگہوں پر نصب درجنوں کیمرے بالکل صحیح کام کر رہے تھے۔ کیا بھارتی حکومت اپنے عوام اور میڈیا کو اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ تاج محل اوبرائے اور ٹاور کے سی سی ٹی وی سے ان حملہ آوروں کی footages کی ہلکی سی جھلک ہی انہیںدکھا دے؟۔ کیا استغاثہ اور بھارتی حکومت کو خوف ہے کہ اگر ان کی تصویریں شائع کر دی جا تیں تو بہت سے لوگ ان کو پہچان جاتے؟۔ سچ یہ ہے کہ بھارت سرکار کے جھوٹ کا پردہ اس طرح چاک ہوتا ہے کہ اجمل قصاب کے اچھے شیمپو سے تازہ تازہ دھوئے ہوئے بال، استری شدہ ٹراوزر اور تازہ کلین شیو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ڈی سوزا کے کیمرہ سے اتاری گئی اس کی مبینہ تصویر شیوا جی اسٹیشن کی نہیں بلکہ کسی اور جگہ بڑے آرام سے اتاری گئی ہے۔ اگر یہ تصویریں غور سے دیکھی جا ئیں تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ اجمل قصاب کا فوٹو سیشن کیا گیا ہے کیونکہ اس کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا شائبہ تک نہیں تھا۔ 2:۔ ’’تم یہاں کام کرتے ہو؟‘‘۔ ’’نہیں میں اپنی بیمار بیوی کے لیے آیا ہوں‘‘۔ یہ ہے ٹھیٹھ مراٹھی زبان میں کی گئی وہ گفتگو جو دو حملہ آوروں اور L CAMA HOSPITAکے جنریٹر آپریٹر چندر کانت تیکھے کے درمیان ہوئی ۔ چندر کانت نے یہ بیان پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو دیتے ہوئے کہا کہ دو حملہ آوروں نے مجھ سے مراٹھی زبان میںیہ سوالات کیے۔ چندر کانت کے اس بیان کی تصدیق ممبئی حملہ کی بریفنگ کے لیے مقرر حکومتی ترجمان اوربھارت کی سول سروس کے سینئر افسر بھوشن گجرانی نے 28/11 کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا کے سامنے بھی کی تھی اور اس گفتگو کا ریکارڈ دنیا بھر کے میڈیا کے پاس موجود ہے ۔ کرائمز برانچ کی طرف سے عدالت میں پیش گئی فرد جرم کے مطا بقCAMA HOSPITAL میں موجود انہی دو حملہ آوروں ،اجمل قصاب اور اسماعیل خان ،نے ہی ایڈیشنل کمشنر پولیس اشوک کامتے اور انسداد دہشت گردی فورس کے چیف ہیمنت کر کرے کو قتل کیا تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجمل قصاب کو مراٹھی زبان پر عبور کیسے تھا؟۔ ممبئی کرائمز برانچ کی طرف سے اجمل قصاب کے اعترافی بیان پر مبنی استغاثہ ،جسے مشہور امریکی ہفت روزہ ٹائمز نے اپنے10 مارچ 2009ء کے شمارے میں\'\'ON THE TRAIL OF TERROR\'\'کے عنوان سے شائع کیا تھا ،میں کہیں بھی اجمل قصاب کے مراٹھی زبان سیکھنے سکھانے کا ذکر تک نہیں ہے ۔پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ہیمنت کرکرے اور اشوک کامتے کے علا وہ شیواجی اسٹیشن پر56 افراد کو قتل کرنے والے مراٹھی زبان پر عبور رکھنے والے یہ دو مبینہ حملہ آور کون تھے؟۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں