"MABC" (space) message & send to 7575

انتخابات اور تبدیلی

ملک بھر میں عام انتخابات ہو گئے ،با وجود اس کے کہ ان کے ہونے کی امید بہت کم تھی ،سوائے ان کے ’’جنہوں ‘‘نے یہ الیکشن ہر حال میں کروانے تھے ۔ان انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز نے تاریخی کامیابی حاصل کی ۔اس طرح کہ قصور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے139 میں ان کے امیدوار ،جنہوں نے2008 ء کے انتخابات میں51436 ووٹ حاصل کیے تھے،102703ووٹوںسے کامیابی حاصل کی ۔موصوف دوسری بار منتخب ہوئے ہیں ۔اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے141 سے ان کے ایک امیدوار نے2008ء کے انتخابات میں58607ووٹوں سے کامیابی حاصل کی لیکن اس دفعہ 96382 ووٹوں سے کامیاب ہوئے ۔ مسلم لیگ نواز کی بھرپورمقبولیت کی یہ صرف دو مثالیں ہیں،ورنہ اس نے تو پورے پنجاب میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں ۔ پاکستان میں1988 ء سے 2013ء تک ہونے والے انتخابات کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ تمام انتخابات ہوئے نہیں بلکہ کروائے گئے۔ پاکستانی عوام کا بس اتنا ہی کام رہا کہ وہ گھروں سے نکل کر پولنگ سٹیشنوں کے باہر دھوپ اور سردی کی پروا کیے بغیر لمبی لمبی قطاروں میں دکھائی دیتے رہے۔ پاکستان کے انتہائی اہم ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کی 1996ئکے وسط میں نیویارک میں ایک مشترکہ دوست کے گھر پاکستان میں سی آئی اے سٹیشن چیف کی حیثیت سے کام کرنے والے ایک امریکی سے ملاقات ہو ئی ۔پاکستان میں تعیناتی کے دوران ان دونوں کی گہری دوستی تھی ۔پاکستان کی اندرونی اور سیا سی صورت حال پر ہونے والی گفتگو کے دوران امریکن سی آئی اے کے اہل کار نے یہ کہہ کر ان کو حیران کر دیا کہ بہت جلد پاکستان میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اس میں ’’ فلاں‘‘ جماعت کامیاب ہو کر پورے ملک میں اس طرح حکومت بنائے گی کہ اسے دو تہائی اکثریت ملے گی اور وہ سندھ میں اکثریت بھی حاصل کرے گی ۔پاکستان کے وہ اعلیٰ سرکاری افسر حیران رہ گئے کہ ابھی تو انتخابات ہونے میں ڈھائی سال کا عرصہ پڑا ہے ۔ اس پر امریکی سی آئی اے کے وہ افسر ایک طویل قہقہہ لگا کر کہنے لگے :’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ اس ملا قات کے۔دو ماہ بعد کراچی میں مرتضیٰ بھٹو اپنے سب محافظوں سمیت قتل ہو کردیے گئے اور پھر چھ نومبر 1996ء کو فاروق لغاری نے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر دی ۔میں اس گفتگو کے ایک ایک لفظ کی سچائی پر قائم ہوں اور وہ شخصیت جنہوں نے مجھے خود یہ واقعہ سنایا ،صحت مند اور حیات ہے :تاہم میںا ن کا نام نہیں لکھوں گا ۔ انتخابات کی حقیقت کیا ہے ؟ اسلامی جمہوری اتحاد بننے کی کہانی کا پول تو اب سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس ادھیڑ کر سب کے سامنے کھول دیا ہے۔کہا جاتا ہے جس طرح الیکشن کمیشن بنا ،جس طرح نگران وزیر اعظم مقرر ہوا یہ سب غیر ملکی ہدایات کے مطا بق تھا ۔پیش کیے گئے بعض نام صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھے ۔کئی ناموں کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا ۔اگر کسی کو شک ہے تو وہ پاکستان بھر کے میڈیا چینلز کی وہ ویڈیو دیکھ لے جس میں ملک حبیب چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے نگران وزیراعظم کا اعلان ہونے کے پانچ منٹ بعد کھوسو صاحب کے ساتھ بیٹھے مٹھائی تقسیم کررہے ہیں۔ملک حبیب چونکہ آئی جی پولیس بلوچستان رہ چکے ہیں اور ان کے کھوسو صاحب پر بہت سے احسانات ہوسکتے ہیںاس لیے اندازہ ہے کہ کھوسو صاحب نے الیکشن کمیشن کی طرف سے اعلان ہونے سے کئی دن پہلے ہی دوران نگرانی بہت سے کاموں کے سلسلے میںانہیں اپنے ساتھ رکھا ہوا تھااور انہیں بتا دیا گیا تھا کہ آپ ہی میرے وزیر داخلہ ہیں۔غالباً ان کی تقرری میں دیر ا س لیے کی گئی کہ سیا سی جماعتوں کو انتخابی ہم کے لیے کم ا زکم وقت دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 ء میں امریکہ اور برطانیہ کے ذریعے فنکشنل ہونے والے این آر او کے تحت قائم ہوئی اور انہی دوستوں اور مہربانوں کی آشیر باد اور نواز زرداری مفاہمت کی مہربانی سے پانچ سال قائم رہی ۔اس نے ملک کا جو حال کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کے بعد عوام کو انتخابات کا بے تابی سے انتظار تھا ۔وہ اپنی آئندہ پانچ سالہ قسمت کا فیصلہ چاہتے تھے ۔وہ اس ملک میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے جمہوری طریقے سے رائے دے کر مثبت تبدیلی کے خوا ہشمند تھے ۔ایسی تبدیلی جس میں روز گار ، صحت ،امن، بہترین تعلیم اور قابل عزت روزگار اور ایک خوش حال با وقار پاکستان کی ضمانت ملے ۔ایک طرف اس ملک کے عوام اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے جارہے تھے، تو دوسری طرف بعض قوتوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے اپنے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تحریک انصاف کے چیئر مین اور نو جوانوں کے کپتان عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کی بھر پور کوششیں کیں ۔وہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف تو نہ گرا سکیں لیکن انتخابات سے دودن پہلے سولہ فٹ کی بلندی سے اسے اس طرح گرانے میں کامیاب ہو گئیں کہ وہ انتخابات میں کی گئی مبینہ دھاندلی کے خلاف میدان عمل میں نکل کر ان کے ایجنڈے کو نا کام نہ بنا سکیں۔ عمران خان کی انتخابی تقاریر سننے والوں کے ذہن میں انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے اور انتخابی عمل شروع ہونے کے بعد ان کا کہا ہوا ایک ایک لفظ محفوظ ہو گا۔عمران خان کو معلوم ہو چکا تھا سامراج نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اس دفعہ بھی ملکی انتخابات کو چراکر عوام کے فیصلے کی توہین کر نی ہے ۔ادھر امریکہ جان چکا تھا کہ اس ملک میں پچاس لاکھ کے قریب ایک کلاس پہلی دفعہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے جا رہی ہے ۔اسی لیے عمران خان ہر تقریر میں ان طاقتوںکو وارننگ دیتے ہوئے کہتے رہے ’’ دیکھو اگر تم نے انتخابات میں دھاندلی کی ، عوام کے مینڈیٹ کو چرایا تو میں اس ملک کے گلی کو چوں اور سڑکوں پر الیکشن کے اگلے ہی دن سے اس قدر شدید اور خوفناک تحریک چلائوں گا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی‘‘ اور سامراج کو یقین تھا کہ عمران خان اپنی دھن کا پکا ہے ،وہ جو فیصلہ کر لیتا ہے اس پر جان لڑا دیتا وہ انجام سے نہیں ڈرتا ،ہر چیز کا انجام وہ اپنے اﷲ پر چھوڑ دیتا ہے۔ گیارہ مئی کو رات گئے انتخابی نتائج دیکھتے ہوئے مجھے نیویارک میں پاکستان کے اعلیٰ افسر سے امریکی سی آئی اے کے سابق پاکستانی چیف کے نیو یارک میںاگست 1996ء کو کہے ہوئے وہ الفاظ یاد آنے شروع ہو گئے۔ \'\'NO SIR, REST ASSURE THIS TIME HE WILL, WIN\'\' …!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں