’’ اس نے اﷲ کو حق نہیں جا نا۔۔۔۔ جس نے دوسروں کا حق نہیں پہچانا‘‘ لاہور میں سرِ راہ لوگوں کو لوٹنے والا گروہ پکڑا گیا۔ تھانے کی حوالات میں بند گروہ کے سرغنہ سے میں نے پوچھا کہ جب تم لوگ کسی عورت، مرد، جوان یا بوڑھے سے اس کی جیب ،گاڑی یا پرس میں رکھی ہوئی ہر چیز اسلحے کے زور پر چھین لیتے ہو تو کبھی تمہیں احساس نہیں ہوا کہ لٹنے والے کی کیا کیفیت ہو گی؟ راہزنوں کے لیڈر کا جواب تھا ’’ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ چھینا ہوا مال کتنا ہے بلکہ اگر سچ پوچھیں توہمیں تو اس وقت بے حدخوشی ہوتی ہے جب لوٹے ہوئے مال کی مالیت زیا دہ ہو۔ رہی دکھ کی بات۔۔۔ ہاں ہمیں دکھ صرف اس وقت ہوتا ہے جب لوٹا ہوا مال کم ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ لٹنے والا رو رہا ہے یا دکھ اور غم سے بیمار ہو گیا ہو گا یا اس صدمے سے مر گیا ہو گا ہم تو ایک شخص کو لوٹنے کے بعد کسی دوسرے اور پھر تیسرے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں اپنے ہوش و حواس پر مشتمل زندگی میں جو کچھ بھی ہم کھاتے پیتے ہیں کیا ہم اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ یہ سب کچھ حلال کی کمائی کا ہے یا حرام کی کمائی کا۔۔۔ ناجائز ذرائع کی کمائی سے بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھا نے پینے کی موج مستی پر ہم خود کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن ہمارا ہر عمل اﷲ تعالیٰ سے مخفی نہیں رہ سکتا وہ تو اس قدر قادر اور با خبر ہے کہ ہمارے لاشعور کی سوچ تک سے بھی آگاہ ہے ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ کوئی جرم چاہے کتنی ہی رازداری سے کیوں نہ کیا جائے ایک دن ظاہر ہو کر رہے گاہاں یہ ضرور ہے کہ ہر چیز کے آشکار ہونے کا وقت معین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کو مہلت دے رکھی ہے۔ اس مہلت کے اندر اُسے نیکی اور بدی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس میعاد سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا جاتا‘ لیکن جب وہ پکڑ کی گھڑی آ جاتی ہے تو پھر اُس سے کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔ یہ اٹل حقیقت ہے‘ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ لوگوں کے حقوق چھین کر ان کے مال و متاع چھین کر نا جائز ذرائع سے حاصل کر دہ شان و شوکت دیر پا ثابت ہو ۔۔وقت کا اچانک دھکا سب کچھ خاک میں ملا دیتا ہے یہ قانون قدرت ہے‘ خدا کی لاٹھی حرکت میں آ کر رہتی ہے۔ اس میں کچھ دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر با لکل نہیں۔ ہم ہر روز خدائی پکڑ کی مثالیں دیکھتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سے سبق نہیں لیتے۔ اندھے‘ بہرے بنے رہتے ہیں۔ یہ مثل مشہور ہے کہ لوٹ مار کرنے اور حق غصب کرنے والوں کی عیش و عشرت کو نہ دیکھو ان کا تکبر سے اکڑکر چلنا نہ دیکھو بلکہ اﷲ کی پکڑ کے نتیجے میں انہیں پولیس سے چھتر کھاتے دیکھو۔۔۔! کچھ عرصہ ہوا ایک دوست سے ملنے اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ساتھ والے کسی گھر میں دعائے خیر کیلئے گئے ہیں واپس آئے تو کہنے لگے یہ عالی شان گھر کسی کمزور کی زمین پر زبردستی قبضہ کر کے بنایا گیا ہے۔ آج اس گھر میں مدرسے سے مولوی حضرات کو بلا کر قرآن پاک پڑھوایا گیا ہے۔۔۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح وہ گھر اور زمین جائز ہو جائے گی؟۔ نہیں کسی کمزور اور بے بس شخص سے چھینی گئی اس زمین پر اگر سارے جہاں کے مولوی بلا کر ساری عمر بھی قرآن پاک پڑھایا جائے تو ظلم‘ ظلم رہے گا نا حق نا حق رہے گا۔۔۔۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ناجائز قبضے کرانے میں بعض سرکاری اہل کار‘ حرام کی دولت کے لالچ میں آ کر یا قبضہ کرنے والے کسی با اثر شخص کی خوشنودی یا اس کی طرف سے کسی اچھی اور بہتر پوسٹنگ کیلئے لوگوں کے ملکیتی کاغذات کو یا تو غائب کر دیتے ہیں یا اس میں ردو بدل کر تے ہوئے جعلی ملکیتی کاغذات تیار کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک کی سورۃ المائدہ میں واضح ارشاد ہے’’ اور گناہ اور زیا دتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار نہ بنو اور اﷲ کے غضب سے ڈرو کیونکہ اﷲ کا عذاب بہت ہی سخت ہے‘‘۔ قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کے سچ ہونے میں ذرا برا بر بھی شک نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ کی روشنی میں‘ کیا وہ لوگ جو جعلی ریکارڈ بناتے ہیں غریبوں اور کمزوروں کی جائدادوں پر نا جائز قبضے کرانے میں مدد کرتے ہیں اﷲ کی بتائی گئی اس پکڑ سے بچ سکیں گے؟ نہیں بچیں گے ایسے لوگ‘ جو گناہ اور زیا دتی کے کاموں میں ظالم کے جان بوجھ کر مددگار بنتے ہیں۔ وہ اﷲ کے غضب اور عذاب کا انتظار کریں۔ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت ، کسی کی جیب کاٹ کر پہنے ہوئے خوش نما لباس‘ کسی کا حق چھین کر بنائی ہوئی عالی شان اور خوشنما عمارت‘ دیکھنے میں تو بے شک دلوں کو خوب لبھاتی ہے۔ اس میں رہنے والوں کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ عمر بھر پائی پائی جوڑ کر خریدی ہوئی جس شخص کی زمین پر یہ پر شکوہ عمارت تعمیر کی گئی ہے جس کی جیب کاٹ کر یہ بیش قیمت لباس پہنا گیا ہے‘ اُس بے بس انسان‘ اُس کمزور خاندان پر کیا گزر رہی ہوگی‘ غاصب و ظالم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ جس کا مال چھینا ہے جس کی متاع چھینی ہے ،جس کی زمین چھینی ہے ،اس کا خاندان کس قدر تنگ دستی اور بے سرو سامانی کی حالت سے دوچار ہوگا۔ وہ اپنی ہر آہ کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے اس ظلم اور نا انصافی پر کس قدر گلے شکوے کر رہا ہو گا؟۔۔۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں کچھ لوگ لٹنے والوں کو یہ کہہ کر خاموش کروا دیتے ہیں کہ جو ہونا تھا ہو گیا اب پولیس کے پاس کاروائی کیلئے جانے کا کیا فائدہ؟ در اصل یہی وہ لوگ ہیں جو ظلم اور زیادتی کے مددگار بنتے ہیں۔۔۔۔ اور اﷲ جو نہ تو اپنی ذات میں نا انصاف ہے اور نہ ہی بے انصافی کو پسند کرتا ہے کس طرح برداشت کرے گا کہ اس کی بادشاہی میں لٹنے والے مظلوم کو انصاف نہ ملے؟ اﷲ کا یہ عدل ہو کر رہے گا۔ اﷲ کے دین کی ایک ایک بات سچی اور لوحِ محفوظ پر لکھی ہوئی ہے۔وہ لوگ جو دوسروں کا حق کسی بھی طریقے سے چھینتے ہیں وہ چند دن عیش کر لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ۔۔۔۔ ’’اس نے اﷲ تعالیٰ کو حق نہیں جانا جس نے لوگوں کا حق نہیں پہچانا‘‘…!