میرے سامنے روسی صدر کی ایک تقریر اور اسفند یار ولی خان کا ایک انٹرویو ہے۔ روس کے صدر کا کہنا ہے کہ ’’جس طرح امریکہ‘ چین اور جاپان میں رہنے والا ہر شخص صرف امریکن، چینی اور جاپانی ہے‘ اسی طرح روس میں رہنے والا ہر شخص‘ جس کا تعلق کسی بھی نسل‘ قوم اورمذہب سے ہو‘ صرف ایک روسی ہے اور روسی کی حیثیت سے ہی رہ سکتا ہے۔ وہ تمام اقلیتیں جو دنیا کے کسی بھی خطّے سے آ کر روس میں آباد ہوئی ہیں‘ اگر وہ مستقل طور پر روس میں رہنے کی خواہش مند ہیں اور روس کے وسائل کو اپنے استعمال میں لا نا چاہتی ہیں تو انہیں روسی زبان بولنی پڑے گی اور روس کے قوانین پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ اگر روس میں بسنے والے کسی شخص کو کسی بھی شریعہ کا قانون پسند ہے تو اس کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ فوری طور پر روس کی حدود سے نکل کر ان جگہوں پر چلا جائے جہاں اسے اپنا من پسند شریعہ قانون نظر آ تا ہے۔ روس کو اپنی دھرتی کے کسی بھی کونے میں کسی بھی اقلیت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان اقلیتوں کو‘ جو روس میں موجود ہیں‘ روس کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات کی نہ تو اجا زت دیں گے اور نہ ہی اس چیز کے متحمل ہو سکتے ہیں کہ اپنے جاری قوانین میں ترمیم کر کے ان کو یا دنیا کے دس پندرہ ممالک یا ان کی تیار کردہ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کو خوش کرنے کیلئے ان اقلیتوں کو کسی بھی قسم کے خاص یا غیر معمولی حقوق دیں‘ چاہے وہ دنیا میں اپنے حقوق کی پاسبانی کیلئے‘ جس قدر چاہیں‘ زور دار قسم کی آوازیں اور احتجاجی نعرے بلند کر یں۔ اس سلسلے میںہم نے امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ اور فرانس کی شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے نام پر کی گئی خود کش حماقتوں سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے زندہ رہیں اور دنیا بھر میں ایک قوم کی حیثیت سے ہی پہچانے جائیں۔ اب اس قوم کا ایک ہی نام ہے’’ روسی قوم‘‘ جو صرف اور صرف روس کے مفادات کو سامنے رکھے گی۔اگر روس میں بسنے والی کوئی اقلیت یہ سمجھتی ہے کہ روس کی تہذیب یا اس کے رسم و رواج کسی بھی قوم سے کم تر ہیں تو یہ اس کی بھول ہے۔ روس اپنی اقدار اور تاریخ میں کسی سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ ر وس کے عوام کی طرف سے منتخب یہ معززایوان‘ جس سے میں آج مخاطب ہوں‘ اگر کسی بھی قسم کا کوئی قانون بناکر اسے نا فذ کرنے کا سوچ رہا ہے تو اسے سب سے پہلے روس کے مفادات‘ اس کی تاریخی حقیقت اور اس کے مستقبل کو سامنے رکھنا ہوگا‘ نہ کہ کسی بھی قسم کی عالمی رائے عامہ کو یادنیا بھر میں انسانی حقوق کے نام پر پھیلے ہوئے اداروں کی خوشی کو۔ روس کی سلامتی پر ہمیں کسی بھی اقلیت کے آگے جھکنا نہیں ہو گا۔ اس معزز ایوان کو یہ بات ہر وقت سامنے رکھنی ہو گی کہ روس میں بسنے والی اقلیتوں کا نام روس نہیں ہے‘ اس لیے تمام قاعدے اور قانون روسیوں کے لیے ہیں نہ کہ روس میں رہنے والی مختلف اقلیتوں کیلئے‘‘۔ چار فروری2013ء کو روس کے صدر ولا دی میر پیوٹن نے ڈوما( روسی پارلیمنٹ) سے خطاب کرتے ہوئے روس میں بسنے والی مختلف مذہبی اقلیتوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل کے حوالے سے اپنا خطاب جونہی ختم کیا‘ روس کی پارلیمنٹ کے تمام ارکان اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے اور پانچ منٹ تک زبردست تالیوں سے داد دیتے ہوئے اس خطاب کو روسی آئین اور قانون کا اولین حصہ قرار دیا۔ روسی صدر کی تقریر کے بعد آتے ہیں پاکستان کی طرف۔ کون نہیں جانتا کہ گزشتہ چند دہائیوں سے ہندوستان کی وجہ سے پاکستان کو پانی کی انتہائی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کے ایک ایک قطرے کو روکنے کے لیے چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیم بنا نے میں مصروف ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک طرف توانائی بحران کا سامنا ہے تو دوسری طرف ملک کی زراعت اور صنعتی معیشت سخت متاثر ہو رہی ہے۔ بات یہیںپر ختم نہیں ہوتی بلکہ اب بھارت نے پاکستان کو پانی کے آخری قطرے سے بھی محروم کرنے کے منصوبے پر کام شروع کرتے ہوئے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے وہاں بھی ڈیم بنانے شروع کر دیئے ہیںتاکہ د ریائے سندھ کو بھی راوی، ستلج،بیاس، چناب اور جہلم کی طرح آہستہ آہستہ خشک کر دیا جائے اور پاکستانی قوم کی بد قسمتی دیکھیے کہ بھارت کی اس آبی دہشت گردی کے خلاف ہماری قومی قیا دت ایک لفظ بھی زبان سے نکالتے ہوئے کانپتی ہے۔ ایک طرف روسی صدر پیوٹن کھلم کھلا اپنی پارلیمنٹ میں اعلان کرتے ہیں کہ روس کا مفاد کسی بھی قسم کے انسانی یامذہبی حقوق کے نام پر پس پشت نہیں ڈالا جا سکے گا‘ چاہے اس پر عالمی رائے عامہ جس قدر چاہے شور مچائے اور دوسری طرف ہمارے پاکستان میں وقفے وقفے سے حکمرانی اور اقتدار کے مزے لوٹنے والی سیا سی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر اسفند یار ولی خان نے چند ہفتے قبل اپریل میں ریڈیو پاکستان کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ’’ افغانستان جہا ں چاہے ڈیم بنائے۔ اگر بھارت کی مدد سے کابل حکومت کے ڈیم بنانے سے دریائے سندھ کا پانی خشک ہوتا ہے تو اس پر پاکستان کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘۔ اسفند یار ولی خان نے ریڈیو پاکستان کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں خود پر ہی تنقید کرتے ہوئے کہا’’ بھارت پر تنقید کرنے سے پہلے اسلام آباد کو یہ سوچنا چاہیے کہ کل کو کابل بھی تو اعتراض کر سکتا ہے کہ چین پاکستان میں سڑکیں، بندر گاہیں اور ڈیم بنا نے میں کیوں مدد کر رہا ہے‘‘۔ اسفند یار ولی خان اور ان کے ساتھی گزشتہ چالیس سالوں سے کالا باغ ڈیم کی یہ کہہ کر مخالفت کر رہے ہیںکہ کالا باغ ڈیم بننے سے سندھ میں پانی ملنا بند ہو جائے گا‘ خیبر پختونخوا میںسوات میں منڈا ڈیم کاپانی کم ہو جائے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ حکومت پاکستان میں حکمرانی کے مزے لوٹتے ہیں‘ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر پاکستان کے وسائل سمیٹتے ہیں لیکن دکھ ان کو کابل کا ہوتا ہے! بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے خیبر پختونخوا سمیت سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے لوگ کئی ماہ سے جس اذیت کا شکار ہیں معصوم بچے ، بوڑھی مائیں‘ کمزور مرد و زن بیس بیس گھنٹے جس عذاب سے گذر رہے ہیں‘ کبھی سوچا ہے کہ اس عذاب میں ان کا کتنا حصہ ہے؟ اگر بیس سال قبل انہوں نے اور ان کے آبائو اجداد نے کالا باغ ڈیم نہ رکوایا ہوتا تو آج کالا باغ کے بعد پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والے اور بھی کئی ڈیم بن چکے ہوتے جس سے ملک کے دوسرے حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی غریب عوام کیلئے بجلی وافر بھی ہوتی اور سستی بھی!