برطانیہ میں ہوئی حالیہ اہم ملاقات آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاست کا رُخ متعین کرے گی ۔گیارہ مئی کے انتخابات کے چند دن بعد ایک معروف صحافی نے ایک ٹی وی پروگرام میں پیپلز پارٹی کے معتوب سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان سے پوچھا کہ کیا آپ سینٹ میں بننے والے نئے فارورڈ بلاک کا حصہ بننے جا رہے ہیں ؟تو میرا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا۔ کل ہی سینیٹر اعتزاز احسن نے اپنی صفائی دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ سینٹ میں بننے والے کسی بھی فارورڈ بلاک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن کہیں نہ کہیں کچھ کھچڑی پک ضرور رہی ہے کیونکہ کچھ با خبر ذرائع پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پرانی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں گرنے کو تیار ہو چکی ہیں۔ انہیں مناسب وقت کا انتظار ہے ۔شاید ستمبر کے بعد‘ جب آصف علی زرداری ایوان صدر سے رخصت ہو کر مستقبل کے پروگرام تشکیل دینے میں مصروف ہو جائیں گے۔ زرداری صاحب کی رخصتی اور نواز لیگ کے منتخب شخص کے ایوان صدر میں بیٹھنے کے بعد بھی اگر عشرت العباد گورنر سندھ کے منصب پر فائز رہتے ہیں تو نئی دوستی کا با قاعدآغاز ہو جائے گا‘یعنی متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر باہم شیرو شکر ہو جائیں گی۔ البتہ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ صدر زرداری کی طرح بڑے میاں صاحب بھی متحدہ کے شہیدوں کے قبرستان جاتے ہیں یا بات میاں شہباز شریف کی نائن زیرو یاترا تک ہی محدود رہتی ہے۔ سینٹ میں فارورڈ بلاک بناکر پیپلز پارٹی کا سینٹ میں رہا سہا’’ وقار‘‘ ختم کرنے کے لیے فاٹا میں نقب لگا نے سے عمل کاآغازہو چکا ہے ۔اسی طرح پنجاب ، بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے کچھ بھاری بھر کم سینیٹرز کو بھی رام کیا جا رہا ہے۔ سینٹ میں نواز لیگ کے ا س وقت صرف پانچ سینیٹر ہیں ۔قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بطور رکن حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا سے میاں نواز شریف نے اپنی گفتگو میں صاف کہہ دیا ہے کہ انہیں کسی بیساکھی کے بغیر قومی اسمبلی میں اکثریت دی گئی ہے ۔تو کیا وہ سینٹ میں صرف پانچ نشستوں پر تکیہ کرنے کی بجائے ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، فنکشنل لیگ ، فاٹا اور بلوچستان سمیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں کے سینیٹرز کو ملا کر اکثریت بنانے کی کوشش نہیں کریں گے؟۔ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی نامزدگی میں ہونے والی دیر اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ ادھر کچھ سینیٹراپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ہاتھ کی صفائی میں مصروف ہیں تو دوسری طرف سندھ سے پی پی پی کا ایک بہت بڑا گروپ ، جس پر غلام ارباب رحیم اور لیاقت جتوئی سمیت کچھ دوسرے دوستوں نے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے ،ستمبر کے تیسرے ہفتے میں کھل کر صدر زرداری کے سامنے آ جائے گا اور یہ پی پی پی کا وہی گروپ ہے جو2008ء میں وزارت عظمیٰ کے وعدے پر ساتھ آنے کو تیار تھا لیکن اس وقت کے صدر جنرل مشرف نے اس منصوبے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ منصوبہ نا کام ہو گیا۔ ارباب غلام رحیم جب سندھ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں پی پی کے جیالوں سے جوتے کھانے کے بعد اسلام آباد میں پناہ گزین ہوئے تو ان سے کچھ ہونے والی ملاقاتوں میں انہوں نے مجھے اس گروپ لیڈر کا نام بھی بتایا جو اپنے ساتھ دس کے قریب پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی لے کر آ رہا تھا۔ پاکستان کی سیاست کے بارے میں اخبارات اور ٹی وی مناظروں میں یہ فقرہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ’’ سیا ست میں کل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں‘‘ یا یہ کہا جاتا ہے کہ ’’سیا ست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی‘‘۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے سیا ستدانوں کے اندر ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔انہیں غرض ہوتی ہے تو اپنے اقتدار سے ،اپنے جاہ جلال سے اور دولت کی چمک دمک سے ۔ ستمبر اکتوبر میں گرمی کا موسم دم توڑ جائے گا تو دوسری طرف کراچی، پشاور اور اسلام آباد کے سیا سی موسم میں گرمی کا آغاز ہونے لگے گا۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے پاس وقت بہت ہی کم ہے۔ اسے آنے والے پہلے سو دنوں میں صوبے کی انتظامی مشینری میں واضح تبدیلی دکھانا ہوگی‘ ایسی انقلابی تبدیلی جس میں شو بازی اور ڈرامہ بازی کا ہلکا سا عنصر بھی نہیں ہونا چاہیے ۔تحریک انصاف کو صوبے کے ہر فرد کو احساس دلا نا ہو گا کہ اس کی اور پرویز خٹک کی عزت نفس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ لیں کہ تحریک انصاف نے کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ لیا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں حلف برداری کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوام کی طرف سے مقبول ترین سیاسی جماعت کو مینڈیٹ دینے کی بات کی ہے ۔شیخ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کے بارے اپنے بیان کی تصحیح کر لیں تو اچھا ہے کیونکہ اس سے امریکہ برطانیہ سمیت کچھ دوسری طاقتیں ان سے نا راض ہو سکتی ہیں ۔