جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ انہوں نے ملتان کے ووٹروں اور اپنے خاندان کے سخت احتجاج پر اپنے وہ الفاظ واپس لے لیے ہیں جن سے ان کے دل دکھے ہیں ۔ ایک صحافی نے اپنے اخبار کے صفحۂ اول پر خبر جماتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف ہاشمی صاحب کا ایک فقرہ برداشت نہیں کر سکی جبکہ نواز لیگ نہ جانے ان کی کتنی باتیں برداشت کرتی رہی ہے ۔میری ان سے گزارش ہے کہ وہ خواجہ سعد رفیق یا پرویز رشید سے کہیں کہ وہ قومی اسمبلی میں اعلان کریں کہ عمران خان ان کا لیڈر ہے ۔پھر رد عمل دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ عمران خان نے اپنی پارٹی میں موجود ہرچھوٹے بڑے کی مخالفت اور بار بار سمجھانے ڈرانے کے با وجود انتخابات سے قبل تحریک انصاف میں ’’ انٹرا پارٹی الیکشن ‘‘ کروا کر دم لیا ،چاہے اس سے ان کی جماعت کو سخت نقصان بھی پہنچا لیکن تحریک انصاف نے ملک کی سیا سی تاریخ میں پہلی بار ایک ہلچل سی مچا دی اور اب صورت حال یہ ہے کہ اس کی مو جودگی کی وجہ سے ہر سیا سی کھلاڑی فرنٹ فٹ پر نہیں بلکہ بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور ہو گیا ہے ۔جس طرح انتخابات سے قبل تمام اندیشوں کے با وجود عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروا دیئے ،کیا اب وہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف میں’’ انٹرا پارٹی ریڈکشن‘‘ کرنے کی ہمت کر سکیں گے ؟ اگر وہ ایسا کر سکے تو بہت سی کالی بھیڑوں سے نجات مل جائے گی۔ قومی اسمبلی میں جاوید ہاشمی کی تقریر سننے کے بعد کروڑوں لوگ سکتے میں آ گئے اور ابھی تک ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’یہ کس کا با غی ہے‘‘۔ شیخ رشید احمد اپوزیشن لیڈر بننے کا ایک آسان سا نسخہ لے کر ایک دن قبل زمان پارک عمران خان سے ملنے آئے تھے جسے عمران خا ن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ قبول کرنے سے معذرت کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بننے کی قربانی دے دی لیکن اس قربانی کے اگلے ہی روز جب انہوں نے قو می اسمبلی میں ہاشمی صاحب کی تقریر سنی ہو گی توحیران ہوئے ہوں گے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی ٹکٹوں کی تقسیم میں جو کچھ ہو ا وہ اب کوئی راز نہیں رہا اس میں جہاں ایک طرف مرکزی قیا دت کی لغزشیں تھیں وہاں علا قائی قیادت کی غلطیاں بھی تھیں ۔ یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن ابھی موضوع سخن وہ انقلابی تقریر ہے جس میں جناب جاوید ہاشمی نے بھرے ایوان میں دنیا بھر کے سفار تکاروں کی موجو دگی میں میاں محمد نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہوئے واضح پیغام دیا ہے کہ’’ وہ کل بھی ان کے لیڈر تھے اور آج بھی ان کے لیڈر ہیں اور رہیں گے‘‘ اور یہی وہ لوگ تھے جنہیں جاوید ہاشمی اپنا پیغام دیتے ہوئے یہ بتانا چاہتے تھے کہ دیکھو میں نواز شریف کے ساتھ ہوں۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں بیٹھی ہوئی تحریک انصاف کی نو منتخب قیادت منہ میں انگلیاں دبائے ،اور وہ جو زیا دہ جذباتی تھے ،اپنی انگلیاں کاٹتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف بے یقینی کے عالم میں دیکھے جا رہے تھے کہ یہ کون بول رہا ہے اور کہاں سے بول رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں تحریک انصا ف کے کارکنوں اور ہمدردوں کے ساتھ ساتھ جناب جاوید ہاشمی کی یہ تقریر سننے والے ایوان میں بیٹھے ہوئے منتخب اراکین اسمبلی کو عمر سرفراز چیمہ پر غصہ آ رہا تھا تو کچھ لوگوں کو ان پر بے اختیار ترس آنا شروع ہو گیا نہ جانے کیوں؟۔ جاوید ہاشمی کی اس تقریر کے سامنے اس دن کی گئی تمام تقاریر ،سوائے شیخ رشید اور اچکزئی کے ،دب کر رہ گئیں اور جیسے ہی یہ تقریر مکمل ہوئی ،پاکستان اور پاکستان سے باہر کہرام سا مچ اٹھا ،لوگ حیران ہو کر ایک دوسرے کو موبائل کے ذریعے پوچھ رہے تھے کہ اگر میاں نواز شریف ہی جاوید ہاشمی کے لیڈر ہیں تو پھر عمران خان کو ن ہیں؟ شاہ محمود قریشی سمیت کچھ لوگوں کا ہاشمی صاحب کی صفائی میں کہنا تھا کہ جوشِ خطابت میں یہ الفاظ ان کے منہ سے پھسل گئے ہیں ،لیکن اسی دن اور اس سے اگلی ہی شام انہوں نے سب کی خوش فہمی یہ کہہ کر ختم کر دی کہ انہوں نے جو کچھ بھی قومی اسمبلی کے ایوان میں کہا بقائمی ہوش و حواس کہا ہے اور اپنے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو وہ قبول کرتے ہوئے یہ بھی بتانا ضرروی سمجھتے ہیں کہ ان کے بولے ہوئے یہ الفاظ اچانک نہیں بلکہ ان کے ادا کردہ ان جملوں کے ایک ایک لفظ کا مقصد کسی کو واضح پیغام دینا تھا۔ ٹی وی چینلز پر ان کے اس وضاحتی بیان سے ایک اور نئی بحث چھڑ گئی ۔لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ان کا یہ پیغام کس کیلئے تھا ؟اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ اد اکرتے ہوئے ان کا اشارہ عمران خان کی طرف تھا کہ دیکھو خان اگر مجھے کسی چیز سے روکا اور تحریک انصاف میں من مانیاں کرنے سے منع کیا گیا یامیرے تجویز کردہ ناموں کو اسمبلیوں کے مختلف عہدوں کیلئے نظر انداز کیا گیا تو میں بھی تمہارے کزنوں کی طرح اپنے لیڈر میاں نواز شریف سے اس کی شکایت کر دوں گا اور سب جانتے ہیں کہ میرا لیڈر کس قدر با اختیار اور طاقتور ہے ۔د وسرے لفظوں میں وہ عمران خان کو یہ بھی وارننگ دے رہے تھے کہ اس سے پہلے آپ نے میرے لیڈر کے بارے میں جلسوں ، پریس کانفرنسوں اور ریلیوں میں جو کچھ بھی کہا ہے وہ تو میں نے الیکشن کی مجبوریوں کی وجہ سے برادشت کر لیا۔لیکن آئندہ احتیاط کیجئے گا۔ کچھ جاننے والے لوگوں سے میں سنا کرتا تھا کہ انسانی غلطیوں اور فطری کمزوریوں کے علا وہ عمران خان کی ایک خوبی ہے کہ وہ بہت حوصلہ مند شخص ہیں ان کی قوت برداشت بے حساب ہے اور انہوں نے تیر کھانے کے بعد بھی کبھی مڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا ،کہ یہ تیر کس کی طرف سے پھینکا گیا ہے ۔ وہ اکیلے شخص ہیں جن کاکوئی بھی بے لوث رشتہ دار اور عزیز ان کے ساتھ نہیں ۔ان کے لاکھوں ساتھی وہ ہیں جن کو اس نے کبھی دیکھا بھی نہیں ۔شاید وہ نہیں جانتے کہ اس ملک کی لاکھوں مائیں جن کی ان سے کوئی غرض نہیں ،جنہیں کسی عہدے، اسمبلی کی رکنیت یا ٹکٹ کی ضرورت ہی نہیں ہر روز ان کی صحت اور درازیٔ عمر کیلئے اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہیں۔عمران خان آج ہر گھر میں سمائے ہوئے ہیں وہ حکومت کے اندر بیٹھے ہوں یا با ہر ، روشن اور مضبوط پاکستان کی امید بن چکے ہیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی ہر وہ طا قت جو اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے نہیں دیکھ سکتی ،جو قوموں کی صف میں اسے سر اٹھائے ہوئے دیکھنے میں اپنی بے عزتی تصور کرتے ہیں ،ان کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے اور ان کی پارٹی کے اندر اور باہر نقب لگانے کی بھر پور تیاریوں میں مصروف ہیں۔عمران خان کو اب ان لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا ،ان لوگوں کو آگے لے کر آنا ہو گا جو ان کی قیا دت پر یقین رکھتے ہیں نہ کہ ان کی جماعت کو ٹکڑوں کو میں بانٹنے والوں کو۔اب وقت آ گیا ہے کہ ملک عامر،عمرسرفراز چیمہ اور فاروق امجد میر جیسے لوگوں کو عزت دینی ہو گی ۔چلتے چلتے تحریک انصاف کو خبردار کر رہا ہوں کہ بہت جلد خیبر پختونخوا میں ان کے ساتھ ہاتھ ہونے جا رہا ہے ۔حملہ سے قبل میڈیا کی ایک ٹیم ان کے خلاف صف آرا ہونے کیلئے تیار کی جا چکی ۔اس لیے ان کے پاس وہاں وقت بہت ہی کم ہے ۔اپنی کار کردگی واضح کرنے کیلئے انہیں مہینوں کا کام ہفتوں اور دنوں میں کرنا ہو گا۔!!