افغانستان میں امن کا راستہ ڈھونڈنے کے لیے طالبان کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بات چیت تو کافی عرصہ سے جاری ہے لیکن پاکستان میں امن کی راہ ڈھونڈنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان کی طرف جانے والے راستوں پر ابھی تک گھپ اندھیرے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ شاید اس لیے کہ طالبان کی قیا دت اور منشور تو ایک ہے جبکہ تحریک طالبان کی قیا دت افغانستان کے سابق وارڈ لارڈز کی طرح ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی جائے تو کئی اطراف سے ٹانگیں کھینچ لی جاتی ہیں۔ خدشہ ہے کہ سوات کے مولوی فضل اﷲ کی طرح بہت سے شدت پسند‘ جو افغانستان میں بھارتی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ خیبر پختونخوا میں دہشت گرد کارروائیاں کریں گے۔ یہ بات شائد کچھ لوگوں کے لیے حیران کن ہو کہ کل تک ڈیرہ اسما عیل خان میں بسوں میں گولیاں ٹافیاں بیچنے والاآج تحریک طالبان کا ڈپٹی کمانڈر بن کر سکیورٹی اداروں کے خلاف دہشت گردی کی نگرانی کر رہا ہے۔ افغانستان اور اس سے ملحقہ خطے میں امن پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ اس کے لیے افغانستان میں امریکیوں کو بھارت کے ہاتھ گرم کرنے کی بجائے نرم کرنا ہوں گا۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکی غلطیوں کی سزا بھگتی ہے لیکن اب ایک تبدیلی ہوئی کہ اپنی کی گئی غلطیوں کی سزا پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کو بھی بھگتنا پڑ رہی ہے اور آئے روز ان ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ امریکہ کو افغانستان آ کر کیا ملا سوائے اب تک2213 امریکی برطانوی اور نیٹو فوجیوں کے تابوتوں کے۔ اکتوبر2001ء سے اب تک افغانستان میں امریکی کامیابیاں تلاش کی جائیں تو افغانستان میں بھارت کے قدم جمانے کے سوا ان کا کوئی اور قابل ذکر کارنامہ نظر نہیں آتا۔ بھارت افغانستان میںدنیا کا سب سے زیا دہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک بن چکا ہے لیکن یہ سب کچھ امریکی یا افغانی محبت میں نہیں بلکہ پاکستان کو نوچنے اور تنگ کرنے کے لیے۔ امریکہ اور مغرب کی کشمیر کی غیر منصفانہ تقسیم کی صورت میں کی گئی دانستہ غلطی کے بعد یہ ایک دانستہ اور مجرمانہ غلطی ہے جوایشیا کے دو ایٹمی ممالک کو ایک نئے میدان جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف کھڑاکرے گی۔دفاعی ماہرین حیران ہیں کہ مکمل بھارتی سرمائے سے ایران افغانستان بارڈر کے قریبی قصبے ذرانجی سے دیلا رام تک کی 250 کلومیٹر کی ہائی وے سے جو کابل، قندھار اور ہیرات کو ملاتی ہے‘ بھارت کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟ روس کی شکست کے بعد امریکہ نے یکے بعد دیگرے جو بڑی غلطیاں کیں ان میں سے چند یہ ہیں: اوّل‘ افغانستان کی جنگ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی اعانت اور ذہانت سے لڑی گئی لیکن روسی فوجوں کے واپسی کے بعد ان کی اس رائے کو کوئی اہمیت نہ دی گئی کہ افغانستان میں سیاسی عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے اس وقت تک جنیوا معاہدہ پر دستخط نہ کئے جائیں جب تک مجاہدین کو با قاعدہ ایک پارٹی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں عبوری حکومت کی تجویز منظور نہیں کی جاتی۔ دوم‘ جب افغانستان کی پانچ سو اراکین کی مجلس شوریٰ نے متفقہ طور پر ایک عبوری حکومت قائم کرکے حالات کو سنبھالا دینے کی کوشش کی تو کچھ ممالک نے عبوری حکومت کو تسلیم کر لیا اور بہت سے مسلم ممالک اس انتظار میں تھے کہ جونہی پاکستان اسے تسلیم کرے گا وہ بھی اسے تسلیم کر لیں گے۔ اس عبوری حکومت کے وزیر خارجہ گلبدین حکمت یار اپنی سرکاری حیثیت سے امریکی دورہ بھی کر آئے تھے لیکن اس وقت امریکہ نے پاکستان پر اس قدر دبائو ڈالا کہ وہ اسے تسلیم نہ کر سکا۔ سوم‘ جب نجیب حکومت آخری دموں پر تھی‘ معاہدہ پشاور افغانستان کے حالات کو سنبھالا دے سکتا تھا لیکن امریکی دبائو پر ایک طاقتور گروپ کو اس معاہدے سے باہر رکھا گیا جس کا نتیجہ آج ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ چہارم‘ او آئی سی سے ایک بڑی غلطی ہوئی کہ اس نے معاہدہ اسلام آباد کے مطابق افغانستان میں جاری آپس کی جنگ بندی کے لیے کمیشن تشکیل دینے کی کوئی ایک بھی کوشش نہیں کی جس سے حالات مزید بگڑ گئے۔ پنجم‘ امریکہ اچھی طرح جانتا تھا کہ افغان مہاجرین کی اولادیں اور اس جہاد میں دنیا بھر سے آنے والوں کی اکثریت مدرسوں کی فارغ التحصیل ہے جنہیں ایک ہی بات بتائی گئی تھی کہ روسی کمیونسٹ اور سیکولر ہیں اور یہ نظریات کفر ہیں۔ امریکہ نے ان مجاہدین کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان میں روس ہی کی پروردہ نجیب حکومت قائم کرنے کی سنگین غلطی کی۔ نائن الیون کی بھاری قیمت چکانے کے بعد بھی امریکی فیصلہ ساز بھٹک گئے اور ظاہر شاہ کی پیرانہ سالی اور معذوری کی وجہ سے حامد کرزئی کو رات کی تاریکی میں کابل لا کر لوئی جرگہ کے ذریعے تخت نشین کر دیا بالکل اس طرح جیسے 1840ء میں برطانیہ نے دس ہزار برطانوی فوجیوں کے سائے میں شاہ شجاع کو کوئٹہ سے کابل لا کر تخت نشین کرایا تھا۔ یہ درست ہے کہ افغانستان میں لوئی جرگہ کی ایک روایت ہے لیکن آج کے حالات میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ آج افغانستان میں طاقت کا توازن لوئی جرگہ والوں کے پاس نہیں بلکہ کسی اور کے پاس ہے۔ یہ امریکی غلطی تھی جس پر سب لوگ اب ہنس رہے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں1992ء تک قبائلی ملکوں کا حکم چلتا تھا لیکن آج وہ ان علا قوں میں بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کیونکہ اب وہاں مُلا اور ان کے پیروکاروں کا حکم چلتا ہے جو اپنے ملا کی بات کی نفی کرنے والوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اپنی مرضی کی حکومت بنوا نے کے بعد ابھی تک اسے طول دیے جا رہا ہے جو اس کی ایک اور غلطی ہے کیونکہ بیساکھیوں پر کھڑی حکومت اس وقت کیا کرے گی جب امریکہ یہاں سے 2014ء میں جزوی اور 2015ء میں مکمل طور پر نکل جائے گا؟ اگر امریکی شمالی علاقوں کی خاموشی کو اپنی فتح قرار دینے کی کوشش کریں تو یہ ان کی ایک اور غلطی ہو گی۔ اس وقت شمالی حصوں میں عسکری طاقت تین گروپوں میں بٹی ہوئی ہے: دوستم کی ملیشیا، عطا محمد نور کی جمعیت اسلامی اورہزارہ پولیٹیکل پارٹی کے سربراہ محمد محقق۔ جس دن امریکہ نے اپنے قدم افغانستان سے نکالے وہاں ایک قیا مت کا سماں ہوگا۔ جونہی امریکی نکلنا شروع ہوں گے افغانستان کا بجٹ 80 فیصد تک کم ہو جائے گا کیونکہ امریکی اور مغربی ممالک ہاتھ کھینچ لیں گے اور ایک محتاط اندازے کے مطا بق کم از کم بیس ہزار کے قریب لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ جب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جانے سے افغانستان کے لینڈ لارڈز کو گزشتہ دس برسوں سے ملنے والے ان کے مکانات اور زمینوں کے کرائے ملنے بند ہو جائیں گے‘ افغانستان کی کرپٹ حکومت اپنا کنٹرول کھو بیٹھے گی تو کیا اس وقت بھارت کابل میں اپنے سفارخانے تک محدود رہے گا یا اپنی سکیورٹی فورسز جو مختلف منصوبوں اور افغان فوج کی تربیت کے نام پر وہاں موجود ہے میدان عمل میں اتارے گا۔ اگر ایسا ہوا تو دنیا دیکھے گی کہ امریکہ کا ساتھ دینے والی قوتوں کے لیے افغانستان مقتل بن کر رہ جائے گا۔