کسی اجنبی کا ایک شہر سے گذرہوا تو اس نے مختلف سمتوں میںگھومتے پھرتے کچھ لوگوں کو تعمیراتی کام کرتے دیکھا ۔اس نے پہلی عمارت پر کام کرنے والے معمار سے پوچھا کہ وہ کیا تعمیر کر نے جا رہا ہے ۔معمار نے اینٹ کو ہاتھ میں لیا اور پھر اسے دیوار پر لگاتے ہوئے بولا’’ تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ میں کسی کے لیے گھر تعمیر کررہا ہوں ؟‘‘وہاں سے آگے چلتے ہوئے اجنبی نے دوسری عمارت تعمیر کرنے والے معمار سے یہی سوال کیا تو اس نے غور سے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئی اینٹ کو سیمنٹ سے دوسری اینٹوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا ’’آپ دیکھ تو رہے ہیں کہ میں اینٹیںلگا رہا ہوں‘‘ اور جب یہی سوال کسی تیسری جگہ کام میں مصروف معمار سے کیا تو اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اینٹ کو اچھی طرح درست کیا اور پھر اس کو دوسری اینٹ کے اوپر جوڑتے ہوئے جواب دیا’’ میں ایک ایسی پائیدار عمارت تعمیر کرنے جا رہا ہوں جویہاں رہنے والوں کے لیے یاد گار ہوگی‘‘ اجنبی یہ جوابات سن کر سوچنے لگا کہ دیکھنے میں تو یہ تینوں معمار ایک ہی کام کر رہے تھے لیکن تینوں کے کام کرنے کا انداز اور بنائی جانے والی عمارات کے بارے میں ان کا تصور اور سوچ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے سو ،ظاہر ہے کہ یہ تینوں حضرات جو کچھ تعمیر کریں گے ،اس کی افادیت اور پائیداری بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو گی اور پائیدار عمارت وہی ہو گی جس کی سوچ تیسرے معمار جیسی ہو گی ۔اس کی طرف سے لگائی گئی ایک ایک اینٹ میں اس کا جذبہ اورنیت شامل ہو گی ،جس سے اس کے دلی جذبات اور مقاصد کی بھر پور عکا سی ہو گی جبکہ بغیر کسی مقصد یا نیم دلی سے کی جانے والی کسی کوشش کا نتیجہ ہمیشہ صفر نکلتا ہے۔ بارہ جون کو مرکزی حکومت نے اپنا بجٹ پیش کیا تو اس کے پانچ دن بعد17جون کوسندھ اور خیبر پختونخوا کی حکومتوںکے نئے مالی سال کے بجٹ چند گھنٹوں کے وقفے سے ایک ہی دن پیش کیے گئے جبکہ پنجاب کا بجٹ ان سے اگلے روز 18جون کوپیش کیا گیا۔ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میںبجٹ تقاریر سننے والوں کو خوش کن اعداد وشمار اور سہانے خوابوں کی بھول بھلیوں میں گم کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں ۔ پاکستان میں آج تک جتنے بھی بجٹ پیش کیے گئے ،چند ماہ بعد ان میں دکھائی جانے والی خوشنما تصاویر کے رنگ جونہی مدھم ہونا شروع ہوئے ،نیچے سے ہمیشہ عینک والا جن ہی نکلتا رہا ۔ہمارے گو گا دانشور کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں پیش کیاجانے والا ہر بجٹ گدھے کے نو عمربچے کی طرح شروع میں بڑا ہی پیا ر انظر آتا ہے لیکن جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے اس میں سے سوائے ’’ڈھینچوں ڈھینچوں‘‘ کی بد نما آواز کے کچھ برآمد نہیں ہوتا ،ہاں ساتھ میں دولتیاں ضرور مل جاتی ہیں ۔ یا پھر یہ بجٹ اس ہاتھی کی مانند ہوتے ہیں جس کے دانت ’’کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ہوتے ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال سامنے رکھیں کہ ابھی مرکزی حکومت کے بجٹ کو دس دن ہی گذرے ہیں اوربجلی کے نرخ دو دفعہ بڑھا دیئے گئے ہیں۔ ملک کے تین صوبوں میں بر سر اقتدار بڑی سیا سی جماعتوں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواکی حکومتوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں ایک چیز جو تحریک انصاف کو منفرد بناتی ہے وہ کم وسائل کے با وجود 344 ارب روپے کے بجٹ کا مکمل طور پر ٹیکس فری ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی ایجنسی اور صوبے میں 20پن بجلی گھر تعمیر کرنے کے منصوبے ہیں۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اپنے بجٹ میں ان مجوزہ 20پن بجلی کے منصوبوں کی مکمل تفصیلات بھی عوام کو مہیا کر دینی چاہییں،ساتھ ہی اسے کھیت سے کھلیان اور وہاں سے منڈیوں اور باز اروں تک بکنے والی تمام خوردنی اشیاء کی قیمتوں کو ایک انتہائی غریب اور عام آدمی کی قوتِ خرید کے برابر لانا ہو گا ورنہ یہ بجٹ عوام کے منہ پر لگنے والی زوردارچپت بن کر رہ جائے گا اور روزانہ کی لگنے والی یہ چپت اسی طرح لوگوں کو جھنجھلا کر رکھ دے گی اور پٹھان کا غصہ تو ویسے بھی ناک پر بیٹھا ہوتا ہے۔ ہر گھر کے باورچی خانہ کے روزمرہ کے اخراجات میں کمی لانے والی حکومت ہی کامیاب ہو سکے گی ورنہ حکومتی اخراجات میں کمی کا ڈھنڈورا سوائے کان پھاڑنے کے کچھ نہیں ہو گا۔ معاشرے میں مختلف کام کرنے والوں کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے لیکن ایک ہی قسم کا کام کرنے والے ایک سو یا اس سے بھی زیا دہ لوگوں کے کام کا معیار ایک سا نہیں ہوتا جیسے ہمارے سامنے گاڑیاں دھونے والے ، رنگ روغن کرنے والے، سلائی کرنے والے ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کا معیار ایک دوسرے سے الگ ہوتاہے اوران میں سے کچھ ہمارے ذہنوں سے اس طرح چپک کر رہ جاتے ہیں کہ بھلائے نہیں بھو لتے اورہمیشہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنا کام انہی لوگوں سے کروایا جائے چاہے اس کے لیے کتنا ہی تردد کیوں نہ کرنا پڑے ۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ نے کسی کام کو مکمل کرنے میں کس قدر سرمایہ خرچ کیا ہے یا اسے کتنی جلدی مکمل کیا ہے بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ جو کام مکمل کیا گیا ہے وہ کس قدر پائیداراورفائدہ مند ہے ۔کسی بھی کام کا معیار اور کام کرنے والے کی مہارت لازم و ملزوم ہوتے ہیں، پرائڈ آف پرفارمنس خود پسندی یا انا سے نہیں بلکہ انکساری سے ملتا ہے۔ مرکزی حکومت سمیت تین جماعتوں کے صوبائی بجٹ سب کے سامنے ہیں۔ بلوچستان کا بجٹ بیس جون کو پیش ہوا ہے لیکن یہ کسی ایک سیا سی پارٹی کا نہیں بلکہ وہاں بر سر اقتدار تمام سیا سی جماعتوں کا بجٹ ہے اور سوائے خیبر پختونخوا کے مرکز سمیت ہر جگہ عوام پیش کیے جانے والے بجٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ۔پنجاب میں تو پانچ مرلے کے گھروں پر بھی ٹیکس کا بم پھینک دیا گیا ہے ۔ دنیا کا مشہور ترین مصور اور مجسمہ سازمائیکل اینجلواپنا ایک مجسمہ بنانے کے لیے کئی ماہ سے کام کررہا تھا۔ مجسمہ تومکمل ہو گیا ، لیکن حالت یہ تھی کہ اسے مکمل کرنے کے بعد بھی وہ کئی دنوں تک اس کے ایک ایک حصے کو نہایت باریک بینی سے دیکھنے اور درست کرنے میں مصروف رہا ، کھانا پینا تو کجا ،اسے اپنا ہوش بھی نہ تھا ۔ اسی دوران میں ایک دوست اس سے ملنے آیا ۔اس نے نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔وہ کئی گھنٹوں تک اسے مجسمے کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتا رہا ۔آخر اس سے رہا نہ گیا تو مائیکل اینجلو سے کہنے لگا ’’میں کوئی پانچ گھنٹے سے آپ کے پاس کھڑا ہوا ہوں اور سچی بات ہے میں نے ہرطرح سے مجسمے کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے اور مجھے اس میں کسی بھی قسم کی کوئی کمی یا نقص نظر نہیں آ رہا ،پھر آپ کیوں اس کیلئے اس قدر پریشان ہو رہے ہیں؟ ‘‘مائیکل اینجلو نے اس پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی اور کہا \'\'Trifles make perfection and perfection is no Trifle\'\'