’’ خزانہ خالی ہے ‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو ہر نئی آنے والی حکومت کی جانب سے سب سے پہلے عوام کو بطور ’’تحفہ‘‘ سننے کو ملتا ہے۔ بہت دور نہ جائیں صرف گزشتہ تیس برسوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ’ملکی خزانہ خالی ہے‘ کی یہ تکرار ہم مسلسل سنتے چلے آ رہے ہیں۔ ارباب اقتدار بُرا نہ منائیں تو عرض ہے کہ کون سا خزانہ ،کہاں کا خزانہ اور کس کا خزانہ؟ اگر پاکستان کے خزانے کی بات کی جاتی ہے تو مدت گذری وہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور امریکہ کے پاس رہن رکھا جاچکا ہے اور اس کے عوض ملک کی بچی کھچی جمع پونجی سوئٹزر لینڈ، امریکہ، برطانیہ ، سپین ، دوبئی اور کوریا کے بینکوں میں جمع ہے اور ان کے مالکان مزے لے رہے ہیں۔ نئی حکومت نے بھی اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی یہ اشارے دے کر سب کو ڈرانا شروع کر دیا تھا کہ خزانے کے اندر پڑی ہوئی نوٹوں کی بوریاں ہم نے دیکھ لی ہیں۔ وہ جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی ملی ہیں اور خزانے میں سوائے پرانے ، کٹے پھٹے یا منسوخ شدہ نوٹوں کے اور کچھ نہیں اور ہمیں یہ سوچ کر پریشانی ہو رہی ہے کہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں کہاں سے دیں گے۔ اسحاق ڈار صاحب فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف کو تین ارب ڈالر کی قسط ادا کرنی ہے جس کے لیے ان سے قرضہ ان کی شرائط پر نہیں بلکہ اپنی شرائط پر لیں گے ۔ ڈار صاحب! قوم کو سچی بات بتائیں‘ مانگنے والے کی اپنی بھی کوئی شرائط ہوتی ہیں؟ ملک کے سیاسی منظر پر ایک نظر دوڑائیں تو وہی چہرے نظر آئیں گے جو ہر دور میں بر سر اقتدار رہے اور جن کے دور اقتدار میں ملکی خزانے خالی کیے جاتے رہے۔ انہی چہروں کی وجہ سے ملک کی اقتصادی صورت حال اور سرمایہ کاری میں ہولناک جمود آیا ہوا ہے جس پر ہر سنجیدہ پاکستانی متفکر ہے۔۔۔ ڈالر100 روپے اور پائونڈ154 روپے کا ہو چکا ہے اور لگتا ہے کہ یہ ابھی مزید چھلانگیںلگائیں گے اوربے قابو ہو جانے والی اقتصادی صورت حال اور غیر ملکی قرضوں کی اقساط کی ادائیگیاں ہماری رہی سہی مالی خود مختاری کو مزید کمزور اور مفلوج بنا دیں گی۔ ہمارا ملک اس حد تک امریکی مفادات اور احکامات کے زیر اثر آ چکا ہے کہ امریکہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کہنے کو جی چاہتا ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ توصرف ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی مہم میں پاکستان کو فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کرنا پڑا۔ پاکستان اکنامک سروے رپورٹ 2010-11ء کے مطابق اس کردار کی وجہ سے ہمیں 68 بلین ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔2008ء میں وزارت خارجہ نے اس جنگ میں اب تک پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے وزارت داخلہ، وزارت خزانہ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا حکومتوں کے علا وہ وزارت دفاع پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی کی تمام تر محتاط اندازوں کے بعد جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں پاکستان کو اپنے واجب الادا سارے قرضوں سے زیا دہ یعنی 68 بلین ڈالر نقصان پہنچ چکا ہے۔ اگر بیرونی سرمایہ کاروں کے حالات سے گھبرا کر فرار اور ملکی دولت اور اثاثوں کے بیرون ملک انتقال کا حساب لگایا جائے تو یہ رقم پاکستان کے چار قومی بجٹوں سے زیادہ بن جاتی ہے۔ ورلڈ اکنامک گلوبل فورم کے جاری کردہ 2012-13ء کے انڈیکس کے مطابق پاکستان کی اقتصادی صورت حال دنیا کے 144 ممالک میں124 ویں نمبر تک گر چکی تھی۔ 24 دسمبر2012ء کو میں نے ’’پاکستان کی سیر‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھاتھا’’ پاکستان کو اگلے چند ماہ میں 12 بلین ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ اس میں سے5 بلین ڈالر موجودہ خسارہ کو پورا کرنے کے لیے اور7 بلین ڈالر واجب الادا قرضوں کی قسطوں اور سود کی ادائیگی کے لیے اور۔۔۔۔۔اگلے سال 10 بلین ڈالر خسارہ کے لیے اور14 بلین ڈالر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سود اور سالانہ قسطوں کی ادائیگی کے لیے درکار ہوں گے۔ اس طرح پاکستان کو کل 24 بلین ڈالر کی ضرورت ہو گی جبکہ اس کے خطرناک حد تک کم ہونے والے زر مبادلہ کی مالیت10 ارب ڈالر سے بھی کہیں کم ہے اور موجودہ زرمبادلہ کی حقیقت سامنے رکھیں تو اور بھی زیادہ خوفناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ اس میں سے ایک ارب ڈالرSDRs کی مد میں، دو ارب ڈالر سونے کی شکل میں اور دو بلین ڈالر کچھ دوست ملکوں کے\'\'PARKED RESERVES\'\' کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں۔۔۔ ’’سونے، ایس ڈی آرز اور پارکڈ ریزروز‘‘ کے پانچ بلین ڈالر ہم دیکھ سکتے ہیں‘ گن سکتے ہیں لیکن کسی بھی شکل میں نہ تو خرچ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں سے آئی ایم ایف کو ادائیگیاں کر سکتے ہیں‘‘( کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ خز انہ ہمارا نہیں بلکہ کسی اور کا ہے)۔ میں نے چھ ماہ قبل خبردار کیاتھا کہ انتخابات کے بعد ملک میں جو بھی حکومت بنے گی اس کے پاس ایک ماہ سے زیادہ کا زر مبادلہ نہیں ہو گا اور اس وقت سوائے ’’فنانشل ایمرجنسی‘‘ کے کوئی چارہ نہ ہو گا۔ یہ تھی میرے چھ ماہ قبل لکھے جانے والے کالم میں بیان کی گئی اقتصادی تصویر جسے میں نے پڑھنے اور سوچنے والے افراد کے سامنے رکھ دیا تھا۔ اب موجود ہ صورت حال کا مزید جائزہ لیں تو‘ ستمبر کے بعد تیل کی درآمد کے لیے پاکستان مزید 12 ارب ڈالر کہاں سے لائے گا؟ ایک اعلیٰ شخصیت کے مطابق( نام نہ بتانے کی شرط پر) چند ماہ بعد روپے کے مقابلہ میں ڈالر انتہائی بلند سطح تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ اندازہ لگائیں اس وقت صورت حال کیا ہو گی جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ تنخواہوں کے لیے رقم نہیں ہے۔ سوچیے کہ پھر کیا ہو گا یہی کہ آخری حربے کے طور پر سرکاری اخراجات اور ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے پاکستان نئے نوٹ چھاپے گا یا پھر بینکوں پر انحصار کرے گا لیکن کب تک؟ روپے کی بڑھتی ہوئی بے قدری روکنے کے لیے سٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانی پڑے گی اور یہ شرح سنگل میں نہیں بلکہ ڈبل ڈیجیٹ میں ہو گی جس سے بیروزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجٹ خسارہ بڑھے گا اور ٹیکسوں کی وصولیوں میں مزید کمی آئے گی۔ چھ ماہ قبل لکھے گئے اپنے کالم میں بھی میں نے پاکستان کی معاشی سانسوں کو بر قرار رکھنے کے لیے جو نشاندہی کی تھی گزشتہ حکمران تو بوجہ نا اہلی اس پر توجہ نہیں دے سکے لیکن خزانے میں بقایا جات کی صورت میں بہت کچھ چھوڑ گئے ہیں۔ آج کے حکمران اگر چاہیں تو وہ بقایا جات وصول کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کی بحالی کے تین طریقے یا امکانات ہو سکتے ہیں۔ اول: CSF یعنی کولیشن سپورٹ فنڈ۔ دوسرا: 3Gلائسنس کی نیلامی سے800 ملین ڈالر اور تیسرا: ذرائع اتصالات کی طر ف واجب الادا 800 ملین ڈالر کی رقم۔ چوبیس دسمبر کو چھ ماہ قبل بھی کہا تھا آج بھی عرض ہے کہ ان تین ذرائع آمدن کے علا وہ پاکستان کے پاس معاشی بحالی کا کوئی اور باعزت طریقہ نہیں ہے۔ آنے والا وقت بڑے کٹھن امتحان کا ہوسکتا ہے۔